عالمی وبا کرونا پر قابو پانے میں دنیا بے بس نظر آئی ہے شنید تھی کہ جلد اس کے علاج کی ویکسین تیار ہوجائے گی جس کیلئے برطانیہ،امریکہ،چین اور روس سمیت متعدد ممالک جُڑ کر تحقیقاتی کام کررہے ہیں توقع تھی اس سال دسمبر تک حوصلہ افزا نتیجہ سامنے آئے گا مگر اب جبکہ امریکہ سمیت متعدد ممالک میں یہ وبا قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی وہاں برطانیہ سمیت یورپی ممالک میں کافی حد تک قابو پالیا گیا جس پر وہاں کچھ پابندیاں ہٹا کر کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی مگر اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان ممالک میں کوویڈ 19- کی دوسری لہر اچانک شروع ہوچکی ہے جو بظاہر پہلی سے زیادہ خطرناک لگ رہی ہے جو یورپ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کیلئے ایک طرف تو صحت کے حوالے سے سخت خطرے کی علامت ہے تو دوسری طرف معاشی سرگرمیاں نہ ہونے سے ان ملکوں کی مضبوط معیشت روبہ زوال نظر آئی ہے،سپین نے تو آنے والے مئی تک کرفیو لگانے کا اعلان کردیا ہے جبکہ اٹلی،جرمنی اور فرانس سمیت برطانیہ لاک ڈاؤن کی طرف دوبارہ جارہے ہیں،سفری پابندیاں دوبارہ لگانے کی تیاریاں ہورہی ہیں جبکہ دنیا بھر کے ممالک میں عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری ایس اوپیزپر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے سخت قوانین متعارف کروائے جارہے ہیں۔ خصوصا ماسک کے بغیر لوگوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے احکا ما ت جاری کردئیے گئے ہیں۔
امریکہ اور اس کے پڑوسی ممالک میں متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔محققین اور طبی ماہرین ایک طر ف تو سمجھ ہی پا رہے ہیں یہ بیماری حملہ آور کیسے ہورہی ہے مگر دوسری طرف وہ عوام کو اس کا ذمہ دار بھی ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں لیکن عوام کا موقف مختلف ہے وہ روٹی روزی کیلئے پریشان ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی عشروں تک ایک مضبوط معاشی ریاست کے طور پر دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک کی معیشت آج سکڑ رہی ہے جو ان کیلئے اس پریشانی کا باعث ہے کہ ان کی اجارہ داری ختم ہورہی ہے یہی کچھ حال وطن عزیز کا ہے جہاں کورونا نے نہ صرف دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا ہے بلکہ روز بروز متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو بظاہر دوسری لہر نظر آتی ہے لیکن مقامی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلی لہر کا ہی تسلسل ہے کیونکہ اس دوران یہاں عیدالضحیٰ اور عاشورہ کے تہواروں میں عوام نے احتیاطی تدابیر اور اقدامات کو پس پشت ڈالے رکھا جبکہ کاروباری سرگرمیاں کھولنے کیلئے تمام بازار،شاپنگ مال اور حتی کہ شادی ہال اور ریسٹورنٹ تک کو اجازت دے دی گئی گویہ اجازت مشروط تھی اور سٹینڈرڈ حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھنا اول تھا مگر دیکھنے میں آیا کہ جس وقت نرمی کا اعلان ہوا عوام ایسے باہر نکلے جس طرح پہلی مرتبہ کسی انوکھی دنیا میں آئے ہوں،سونے پر سہاگہ اپوزیشن نے حکومت مخالف جلسوں اور ریلیوں کا اعلان کردیا ایک طرف جلسے اور ریلی میں شرکت کرنے والوں کا مجمع ہوا تو ساتھ ہی انہیں روکنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے والے جمع ہوئے اب پوزیشن یہ ہے کہ خیر سے اس موذی مرض نے پھر سے پوری قوت کے ساتھ سر اٹھانا شروع کردیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ اس کا شکار ہورہے ہیں اور ماہرین سردی بڑھنے کے ساتھ اس کے اضافے کی پیشین گوئی بھی کرچکے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس اہم مسئلہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔سرکاری وزراء محض ڈر اور خوف پھیلانے کیلئے بیان داغ دیتے ہیں تاکہ مہنگائی کے ستائے لوگ اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت نہ کریں لیکن اپوزیشن کے ارسطو تویہ بھی نہیں کرتے کہ اگر وہ اس کا ذکر کریں گے تو لوگ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں شریک نہیں ہوں گے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں علاج معالجہ کیلئے اب بھی ایسے ہی خاموش اور مطمئن ہیں جیسا کہ وہ پہلی لہر کے وقت تھیں۔اب عوام کا کیا بنے گا،عالمی وباء کا خاتمہ کب ہوگا کچھ معلوم نہیں۔کم ازکم پاکستانی حکومت کو تو معلوم نہیں ہے یہاں البتہ عالمی ریسرچرز 2022ء میں اس کے خاتمے کیلئے پُر امید ہیں لیکن وہ بھی سوفیصد نہیں بلکہ اس کا کچھ پورشن ختم ہوگا تاہم دنیا کو اب اس مرض کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت ڈالنا ہوگی،عادت تو ہمیں اب سیاست اور سیاستدانوں کو سمجھنے کی بھی ڈالنی ہوگی کہ کل کے حکمران آج علی الااعلان غدار قرار دئیے جارہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موجودہ حکمران جب اپوزیشن میں ہوں گے تووہ بھی”غدار“ہی کہلائیں گے کیونکہ یہ مکافات عمل ہے جو سیاست میں تو فوری ہوجایا کرتا ہے۔حکومت کی برداشت زیادہ ہونی چاہیے کہ اس نے ملک چلانے کیلئے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں اور ریاست کے اہم ستونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے،جو ان کے پاس ذرا برابر بھی نہیں ہے۔ان کے وزراء کی پریس کانفرنس اور بیانات پڑھ اور سن لیں تو شک گزرتا ہے کہ یہ کسی گلی،محلے یا تھڑے والے کی بڑھک بازی ہے،اپوزیشن کی سن لیں تو وہ ایشوز پر بات کرنے کی بجائے نچلی سطح کے ان مسائل پر بات شروع کردیتے ہیں جو دراصل ایک ایس ایچ او لیول کے ہوتے ہیں۔لگتا ہے کہ جواب آں غزل میں حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر اسٹبلشمنٹ پر ہی اٹیک کررہے ہیں کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ملک کی حکومت اپوزیشن کے جواب میں اپنے ہی اداروں کی ساکھ خراب کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے گمان تھا کہ اپوزیشن اتحاد میں منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو اس وقت ملک میں معاشی ابتری،مہنگائی،بے روزگاری اور یوٹیلیٹی بلوں میں آئے روز اضافے کی خبر نوسنائیں گے مگر انہیں تو فکر ہے کہ اس وقت جو طاقت میں ہیں وہ کتنا لوٹ کر لے گئے حالانکہ اس سے بڑھ کر الزام ان پر اس گوجرانوالہ سے کراچی اور کوئٹہ تک کے جلسوں میں اب تک کو بھی بات سامنے نہیں آئی یہاں البتہ سرکاری وزراء اور مشیران نے اسے حکومت اور اسٹبلشمنٹ کیلئے جو اضرور بتادیا اب اس کا نتیجہ کیا آتا ہے،اس کیلئے دسمبر 2020ء تک انتظار کرنا ہوگا،انہی حوالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی عمران خان کو بے اختیار وزیر اعظم قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی توجہ اپوزیشن کو دبانے پر ہے جبکہ ملک میں معاشی ابتری پھیل رہی ہے اور روز بروز مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ جو ہورہا ہے اس سے فرقہ واریت بھی بڑھ رہی ہے جو ایک بین الاقوامی سازش ہے اس پر قابو پانے کیلئے تمام کو سنجیدگی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر سوچنا اور اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود نے ملک کو عدم استحکام کا شکار قرار دیا ہے اور کہا کہ مہنگائی کے ذمہ دار وزراء اور مشیران ہیں اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے باعث غربت میں خوفناک اضافہ اور لوگوں کا روزگار ختم ہورہا ہے جو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی علامت ہے۔
فیس بک کمینٹ