ناخواندہ اور نیم خواندہ سوسائیٹی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے، کہ بحث بہت کی جاتی ہے ،سمجھا بہت کم جاتا ہے۔ بولا بہت زیادہ جاتا ہے، سُنا بہت کم جاتا ہے۔تسلیم بہت زیادہ کیا جاتا ہے، پرکھا بہت کم جاتا ہے،لکھا بہت زیادہ جاتا ہے، پڑھا بہت کم جاتا ہے۔باہم متضاد اشیا کو بھی ایک دوسرے میں ملایا بہت زیادہ جاتا ہے، جدا جدا کر کے پہچانا بہت کم جاتا ہے۔نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ابہام اوردھند کے پردے اتنے گہرے ہیں کہ سامنے کی شے بھی صاف نظر نہیں آتی۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جس طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اشیا پر پڑی گرد کو صاف کر کے اُن کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھائے۔ وہ اپنا کام نہیں کر رہا۔ نہ صرف اپنے حصے کا کام نہیں کر رہا بلکہ اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ بھی سلجھا ہوا نہیں دکھتا۔جن معاملات پر ساری دنیا میں دوسری کوئی رائے پائی ہی نہیں جاتی۔ہمارے ہاں وہاں بھی تقسیم بہت واضح ہے۔مثلاً دہشت گردی۔ ساری مہذب دنیا اس کی مذمت کرتی ہے ۔ ہمارے ہاں اگر مگر چونکہ چناچہ کے ساتھ اس کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ساری مہذب دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمہوریت مثالی نہ بھی ہو دیگر تمام نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔ مگر ہمارا پرنالہ ابھی تک وہیں ہے جہاں آج سے ایک ہزار سال پہلے بزرگوں نے رکھا تھا۔ساری دنیا جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے آمروں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر اپنے ہاتھ دھو چکی ہے، مگر ہمارے ہاں مرے ہوﺅں کے فضائل اور زندوں کے قصائد پڑھنا حب الوطنی کا تقاضہ خیال کیا جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ دنوں سے چار بلاگرز کے اغوا ہونے کا شور ہے۔ جو ہونا بھی چاہیے۔ یہی زندہ قوموں کا دستور ہے۔ہر خلاف قانون اقدام پر آواز بلند کرنا، اُس وقت تک جب تک سُن نہ لی جائے۔یقین کریں جنگل کا بھی یہی دستور ہے۔ایک پرندہ ایک جانور مصیبت میں ہو تو دوسرے اس کو بچانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں ، نہ بچا سکیں تو چیختے ہیں۔جانوروں سے بھرے ہوئے جنگل اور انسانوں سے بھری ہوئی آبادیوں میں فرق کیا ہے؟۔ بس یہی کہ جنگل میں کوئی آ ئین نہیں ہوتا۔ کوئی تہذیب نہیں ہوتی۔ کمزور کو طاقتور سے تحفظ دلانے کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا۔کوئی دلیل کوئی وکیل کوئی جج نہیں ہوتا۔اور جہاں آئین ، قانون، تہذیب و تمدن نام کی کوئی شے موجود نہ ہو یا بہت کمزور پڑ جائیں وہاں انسانی آبادیوں اور جنگلوں میں تمیز ختم ہو جاتی ہے۔کیا ہم ایک ایسی ہی جگہ نہیں رہ رہے؟۔ جہاں کمزور ہر روز مرتا ہے،اور طاقتور کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔جہاں لوگوں کے بچے گھروں میں گھس کر کوئی مار جائے یا اُٹھا لے جائے۔نہ داد نہ فریاد۔ پوری دنیا کا ایک اصول ہے۔ قانون توڑنے والوں سے قانون ہی نمٹتا ہے۔اور اُس کا طریقہ بھی ساری دنیا میں ایک ہی ہے، ملزم کو پولیس گرفتار کرتی ہے یا گرفتار کیے بغیر اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرتی ہے، عدالت کے سپرد کرتی ہے اور فیصلہ وہاں ہوتا ہے۔ جہاں مجرم پکڑے نہ جا رہے ہوں یا سزا سے بچ رہے ہوں وہاں اسی نظام کو درست کیا جاتا ہے متبادل تلاش نہیں کیے جاتے۔ ملزمان کے لواحقین تھانے یا کورٹ کچہری جائیں تو انہیں معلومات دی جاتی ہیں بے خبری کی خبر نہیں ۔اس طرح جس شے کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ مزید خراب ہو جاتی ہے۔ بے گناہ گناہ گار اور گناہ گار بے گناہ دکھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ میں ایک اخبار نویس ہوں۔ خبر اور اخبار سے میرا رشتہ ہے۔فیس بُک پر بھی اکثر موجود ہوتا ہوں۔یقین کریں چار اغوا شدہ لوگوں میں سے تین کو میں پندرہ دن پہلے نہیں جانتا تھا۔ جب میرا یہ حال تھا تو عوام کا کیا حال ہوگا ؟۔اب حالت یہ ہے کہ سلمان، نصیر، سعید اور وقاص کو ہر خاص و عام جانتا ہے۔اب یہ ایک طبقے کے ہیرو اور دوسرے کے ولن بن چکے ہیں۔ راتوں رات واشنگٹن سے لندن تک ان کی رہائی کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کا چہرہ ساری دنیا میں داغدار ہو رہا ہے۔باقی کے تین تو قدرے کھاتے پیتے لوگ تھے نصیر فروٹ منڈی کے ایک رہڑی والے کا بیٹا ہے۔ وہ پولیو کے مرض کا شکار ایک معذور نوجوان ہے۔ تعلیم ایف اے ہے۔ انگریزی لکھنے سے قاصر اس نیم خواندہ نوجوان نے کتنا مذہب اور کتنا لٹریچر پڑھا ہو گا ؟ جسے ٹی وی پر بیٹھے ہوئے کچے پکے نام نہاد محب وطن دانشور اور اخباروں کے صفحات سیاہ کرنے والے کالم نگار سیکولر دانشور بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ سلمان کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے ، وہ مذہب دشمن نہیں مگر ریاست کے روایتی نظریے کا شدید مخالف ہے۔ ایسا مخالف جو اکثر تنقید اور توہین کا فرق ملحوظ نہیں رکھتا۔باقی دو پر ریاست سے زیادہ مذہب کی توہین کا الزام ہے۔اور اس سارے معاملے کو لبرل اور سیکولرازم کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا لبرل یا سیکولرازم اصلاً وہی ہے جو بیان کیا جا رہا ہے؟۔ یا وہ ہے جو مسنگ بلاگر پیش کر رہے تھے؟۔جن مہذب معاشروں نے ان اقدار سے دنیا کو روشناس کروایا، کیا وہاں بھی ان اقدار کا وہی مطلب لیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں سمجھا یا سمجھایا جا رہا ہے؟۔نہیں حضور ایسا نہیں ہے۔جمہوریت ، لبرل اور سیکولرازم کا مطلب فرد کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ترقی کے یکساں مواقع کا حصول ہے۔ جہاں اظہار اور مذہب کی آزادی کو بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔ہر سچا لبرل ، سیکولر اور جمہوریت پسند مذہب یا وطن دشمن کیسے ہو سکتا ہے؟۔ ہم مسنگ بلاگر ہوں یا کوئی بھی دوسرا قوم پرست ہو یا مذہب پرست ، جمہوریت پسند ہو آمریت پسند ۔ آزادی اظہار کے حق کے ساتھ کھڑے ہیں ، دلیل اور شائستگی کے ساتھ نہ کہ گالی گولی اور دشنام کے ساتھ۔ کون غدار ہے اور کون توہین مذہب کا مجرم ؟مگر اس
کا فیصلہ کون کرے گا؟۔ عدالت یا کوئی ایجنسی؟۔نان سٹیٹ ایکٹر یا میڈیا میں گھسے صحافیوں کا سوانگ رچائے ہوئے لوگ؟
فیس بک کمینٹ