کسی زمانے میں حکومت کا سلوگن ہوا کرتا تھا ”میرے گاؤں میں بجلی آئی“۔ پھر گاؤں شہروں میں تبدیل ہونے لگے وہاں بجلی کے ساتھ گیس بھی پہنچائی گئی۔ زمانہ کچھ اس طرح تبدیل ہوا کہ پہلے سڑکیں موٹروے میں تبدیل ہوئیں اور اس کے بعد شہروں میں میٹرو کی بازگشت سنی گئی۔ میٹرو سب سے پہلے لاہور میں، پھر راولپنڈی اور اب ملتان میں رواں دواں ہے۔ ملتان میٹرو کی بات تو ہم بعد میں کریں گے پہلے ہم لاہور میٹرو کا تذکرہ کرنا چاہیں گے۔ میٹرو بننے کے باوجود لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم نہ ہوا۔ دوسری جانب میٹرو کون سا خالی سفر کرتی ہیں۔ لاہور میٹرو میں کچھا کھچ مسافر بھرے ہوتے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک بھی جام نظر آتا ہے۔ میٹرو کی اسی ”خوبی“ کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سوچا کہ لاہور کی کامیابی کے بعد اس کو پنڈی اسلام آباد میں بھی چلایا جائے۔ معلوم نہیں وہاں پر میٹرو کتنی کامیاب ہوئی لیکن گزشتہ اپریل 2016ء میں جب اسلام آباد پنڈی جانا ہوا تو مری روڈ پر ٹریفک کو بلاک دیکھ کر پھر خیال آیا کہ یہاں بھی میٹرو نے سڑکوں کو خالی نہ کیا۔ شہباز شریف نے جب یہ دیکھا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ملتان کو سڑکوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی توسیع کے لیے اربوں روپے کے فنڈ دیئے پھر اس کے بعد یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں جس انداز سے ترقیاتی کام کروائے اس کے بعد وہ بھی میدان میں آ گئے۔ ملتانی میٹرو کا اعلان کیا، پھر کیا ہوا۔ اراکین اسمبلی مسلم لیگ کے مقامی عہدیداران آپس میں میٹرو کے خلاف بات چیت کرنے لگے۔ کچھ جی داروں نے اخبارات میں بھی میٹرو کے خلاف بیان داغ دیئے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے منتخب نمائندوں کی تجاویز کو سائیڈ پر رکھا اور مقامی انتظامیہ کو حکم جاری کیا کہ وہ ملتانی میٹرو کو لانچ کرنے کے لیے فزیبلٹی تیار کریں۔ اُس زمانے میں بیوروکریسی بھی مقامی منتخب نمائندوں سے اس معاملے پر مشاورت کرتی تو مسلم لیگی اراکینِ اسمبلی کا یہی کہنا ہوتا کہ یوسف رضا گیلانی کے ملتان شہر میں ترقیاتی کاموں کے بعد میٹرو کی بجائے اچھے ہسپتالوں، سیوریج کے اپ گریڈ نظام اور تعلیمی اداروں کو فنڈز کی ضرورت ہے۔ مقامی انتظامیہ جب مسلم لیگی نمائندوں کی یہ آراء میاں شہباز شریف کو بھجواتی تو وہ ملتانی میٹرو کے لیے مزید سنجیدہ ہو جاتے۔ ملتانی میٹرو کے سنگِ بنیاد کے موقع پر میاں شہباز شریف نے ایک طرف مقامی انتظامیہ کو میٹرو کی جلد تعمیر کا ٹاسک دیا تو دوسری جانب انہوں نے مسلم لیگ ن کے ملتانی اراکین اسمبلی اور عہدیداران کو کھری کھری سنائیں کہ یہ منصوبہ مَیں آپ کی مخالفت کے باوجود شروع کر رہا ہوں۔ سو اس منصوبے کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا جس کی لمبائی 18.5کلومیٹر ہے۔ جس میں 12.5 کلومیٹر فلائی اوور پر مشتمل ہے۔ یہ فلائی اوور پاکستان کے طویل ترین فلائی اوور کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ میٹرو روٹ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے شروع ہو کر بوسن روڈ، ہمایوں روڈ، دولت گیٹ، حافظ جمال روڈ، بی سی جی چوک، وہاڑی چوک کے راستے چوک کمہاراں والا پر اختتام پذیر ہو گا۔ 21 میٹرو بس سٹیشنوں پر مشتمل میٹرو کا پورا روٹ گنجان آباد آبادی سے گزرتا ہے۔ اس منصوبے کی تعمیر پر 28 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جس میں سے متاثرین کو ادا کی جانے والی ادائیگی 4 ارب 23 کروڑ روپے بھی شامل ہے۔ اس روٹ میں جن لوگوں کی جائیداد کو حکومت نے استعمال کیا اس میں جائیداد کے مالکان کے علاوہ ہر دکاندار کو گُڈ وِل کے طور پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے بھی اضافی دیئے گئے۔ 13 فیصد متاثرین نے وراثت کے معاملات کی وجہ سے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے اس لیے عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد ان متاثرین کو بھی ادائیگی کر دی جائے گی۔
کہا جا رہا ہے ملتان میٹرو پر روزانہ 95 ہزار لوگ سفر کیا کریں گے۔ منصوبے کے لیے 35 میٹرو بسیں منگوائی گئیں جن کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ کیا جائے گا۔ ان بسوں کی دیکھ بھال کے لیے 20 ایکڑ پر محیط بس ڈپو تعمیر کیا گیا ہے جہاں 120 بسوں کو پارک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ملتانی میٹرو کو تعمیر کرتے ہوئے یہ چیز بھی ذہن میں رکھی گئی اس میں وہ خرابیاں دور کر دی جائے جو لاہور، اسلام آباد اور پنڈی میٹرو میں موجود تھیں۔ اس لیے لاہور اور پاکستان میٹرو بس سسٹم کے تجربے سے بھرپور فائدا اٹھایا گیا۔ ملتان کے میٹرو سٹیشنز کا ڈیزائن پہلے سے موجود میٹرو سے تبدیل شدہ ہے۔ اسے ہوادار اور روشن بنایا گیا ہے۔ میٹرو اسٹیشن گراؤنڈ سے آٹھ فٹ بلندی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ برقی زینے، لفٹ، خودکار گیٹ، جنریٹر، ایکسپینشن، جوائنٹ لانچنگ پیڈ خصوصی طور پر اس میٹرو کی خوبیاں ہیں۔ اس روٹ سے اصل فائدہ اُن طالب علموں کو اٹھانا چاہیے جو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے لے کر چونگی نمبر 9 تک یونیورسٹی اور اپنے اداروں کی ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے تھے۔ ملتان کی تمام سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود میٹرو 24 جنوری سے شہر میں رواں دواں ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی تعمیر سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب موسم گرما میں اس روٹ پر گرمی بھی بہت زیادہ ہوا کرے گی بھلے ہارٹیکلچر ملتان اس روٹ پر لاکھوں پودے لگانے کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ ملتان کی سڑکوں سے اب درخت غائب ہوتے جا رہے ہیں اور ان جگہوں پر شاپنگ مال اور دکانیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے مقامی عہدیداران اس کی تعمیر کے دوران بالکل لاتعلق رہے۔ اس منصوبے کو کمشنر ملتان کیپٹن (ر) اسداﷲ خان نے اپنی نگرانی میں بنوایا اور انہوں نے شہر کے کسی اور منصوبے پر اس دوران توجہ نہ کی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ملتان والوں کو بس اسی کی ضرورت ہے۔ شنید ہے کہ اس منصوبے کے افتتاح کے بعد وہ ملتان سے اپنا تبادلہ چاہتے ہیں۔ اس موقع پر مَیں مقامی مسلم لیگ ن کے عہدیداران کے حوصلے کی داد دوں گا جن کو تعمیر سے لے کر افتتاحی تقریب تک ایسے دور رکھا گیا جیسے ان کا تعلق حکمران پارٹی کی بجائے تحریکِ انصاف یا پاکستان پیپلز پارٹی سے ہو۔ آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی مستقل مزاجی کو بھی داد ہے کہ جنہوں نے اکیلے اس فیصلے کو اہلِ ملتان پر مسلط کیا اور آخرکار میٹرو مکمل کر کے ہی دَم لیا۔ اب انہیں چاہیے کہ کارڈیالوجی ہسپتال کے نامکمل منصوبوں کو بھی اسی محبت سے مکمل کروائیں جس طرح انہوں نے میٹرو پر توجہ کی اور نشتر ہستپال کے برن یونٹ (جس کی عمارت کئی سالوں سے بھوت بنگلہ بنی ہوئی ہے) کو شروع کریں۔ کڈنی ہسپتال میں باقاعدہ کام شروع کروایا جائے اور فنڈز دیئے جائیں۔ چلڈرن کمپلیکس کو بھی توسیع دی جائے۔ نشتر ہسپتال جیسا ایک اور ہستپال شہر کے نواح میں جلد تعمیر کیا جائے۔ شہر کی سڑکوں اور سیوریج کے نظام کا ٹاسک منتخب بلدیاتی سربراہوں کو دیا جائے۔ شہر میں سوئی گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اور آخر میں دن بدن ملتان میں جو لاقانونیت بڑھتی جا رہی ہے اس طرف بھی توجہ ملتانی میٹرو کی طرح درکار ہے۔ تجاوزات کی بات مَیں اس لیے نہیں کرتا کہ ان کے پیچھے مسلم لیگ ن کے مقامی عہدیداران ہیں جو اپنے سپورٹرز کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ان سب باتوں کے باوجود مَیں آج کہہ رہا ہوں ”میرے شہر میں میٹرو آئی ہے“ اور اگر پولیس کا ناکہ اس روٹ پر نہ لگا ہوا ہوا تو مَیں 24 جنوری کو ٹکٹ خرید کر میٹرو کا افتتاح خود ہی کروں گا کیونکہ مجھے اُمید ہے کہ اگر افتتاح کے دن نواز شریف اور شہباز شریف ملک محمد رفیق رجوانہ کے ساتھ ملتانی میٹرو کی سیر کریں گے تو خوشی کے اس موقع پر ٹکٹ خریدنا تو بھول ہی جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ