سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا جس پر نواز شریف کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی ۔ منگل کے روز عدالت نے نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تفصیلی فیصلہ سنایا جس میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے عدالت کو بیوقوف بنایا اور جھوٹ بولا ۔ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کے جھوٹ پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے اور نہ ہی صرف نظر کرسکتے ہیں۔ 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا۔ عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق اگر قسمت نے سر پر تاج رکھ کر حکمراں بنا ہی دیا ہے تو پھر غیر متنازع کردار کا ہونا لازمی ہے ۔ حکمران کا کردار اور گفتار اس کے عہدے کی غمازی کرتا ہے ، عوامی نمائندے کی اہلیت کے معاملات میں کوئی رعایت نہیں دے سکتے ایسا کرنے سے سیاست میں تباہی آ جائے گی جو پہلے ہی آ چکی ہے لوگ اور نظام بدعنوان ہوچکا ہے ۔
دو روز قبل احتساب عدالت میں بھی میاں صاحب اور ان کے بچوں پر فرد جرم عائد ہوئی ۔ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا میاں صاحب نے احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فیصلے کو متنازع قرار دیا، وہ واپس پنجاب ہاؤ س آئے جہاں ن لیگ کا اجلاس ہوا جس کی پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا گیا اور لکھا گیا کہ یہ فیصلہ اول سے آ خر تک بغض ، عناد غصے اور اشتعال کی افسوسناک مثال ہے ۔ شاعری کا سہارا لیتے ہوئے راہبری کا سوال بھی اٹھایا گیا ۔ قوم جانتی ہے کہ راہبری کرنے والوں نے ہی پاکستان بنایا اور اس کے لیے قربانیاں دیں انہوں نے ہی اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا ۔ انہوں نے جیلیں کاٹیں ، وہ پھانسی چڑھے ۔ وہ جلا وطن ہوئے ۔ وہ نااہل قرار دیے گئے ۔ سوال راہبری کا نہیں منصفی کا ہے ۔ راہبر آج بھی سزاپارہے ہیں پیشیاں بھگت رہے ہیں بتا یا جائے کہ ” راہزن “ کہاں ہے ؟
دلچسپ بات ہے کہ ن لیگ کی جانب سے کہا گیا کہ رہزن نے رہبر کو پھانسی دی ۔ جب یہ المیہ رونما ہوا تھا اس وقت ن لیگ کے صدر نواز شریف جنرل جیلانی کی قیادت میں رہزن سے جا ملے تھے ۔ 1979 میں جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو میاں صاحب کہا ں تھے ۔ اسی راہزن کے سیاہ دور 1982 ء میں وہ پنجاب کے وزیرخزانہ بنے ، 1985 ء میں وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اسی دور میں جونیجو صاحب نے جب آ مر کے سامنے ہلکی پھلکی مزاحمت کی تو یہ آ مر کے گن گاتے رہے اور اس کےحمایتی بنے ۔ 1988ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو وہ راہزنوں سے چھپ چھپ کر ملتے رہے آ خر 1990 ء میں جمہوری حکومت ختم کرکےہی دم لیا۔ آ ئی جے آ ئی کس نے بنائی جنرل حمید گل مرحوم سب بتاچکے ۔ 1996 ء میں پی پی کی منتخب حکومت کی اسمبلیاں تڑوائیں تو آ پ کے ساتھ راہزن تھا ۔ تب آ پ نے منصفی نہیں مانگی ۔پھر اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد آپ راہزن سے معاہدہ کرکے جدہ گئے۔ پھر 2011 ء میں میمو گیٹ میں راہزن کے اشارے پر کوٹ پہن کر عدالت پہنچے ۔ اس وقت راہزن آ پ کا مرشد تھا ۔ اب جب آ پ منصفی مانگ رہے ہیں تو آ پ کو راہزن کی تلاش ہے ۔ میاں صاحب اپنی ماضی کی کتاب کھولیں آپ جب اقتدار میں آئے ہمیشہ پہلے راہزن سے آنکھ لڑائی ۔ اب اسی کو آنکھیں کیوں دکھا رہے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ