کہانی کب جنم لیتی ہے اور کب تخلیقی وجود کا سراپا لیے کہانی کار میں سما جاتی ہے، اِس کا الہام وادراک کہانی اور کہانی کار کو ہی ہوتا ہے ۔ ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کہانی ، اُس لمحے کہانی کار میں سماجاتی ہے جب کہانی کار زندگی کی خوب صورت حقیقتوں سے اٹکھیلیاں اور شرارتیں کرتے ہوئے گزرتا ہے ۔جب وہ ایک تخلیق کار کے وجودکے خالی خانوں میں آسائشوں اور محرومیوں ،کامیابیوں اور ناکامیوں ،فعالیت اور کوتاہیوں کی گٹھڑیوں پرآس و یاس کی گانٹھیں باندھتا ہے۔اُس وقت جب وہ صدائے کسک پر لبیک کہے اور سوزِ کھِٹک پر ماتم کناں ہو جائے یا پھر اس وقت جب وہ کندھے پر دھرے سفری تھیلے میں مسافتوں کی خاک سمیٹتا ہوا سمّے کی عدالت میں حاضری دے جہاں اُ سے اپنی کہانی کے وجود کا مقدمہ لڑنا پڑے اور قاری کے سامنے پیش کرنا پڑے۔کہانی کے وجود کامقدمہ ہی دراصل کہانی کے وجود کی لڑائی ہے جس سے کہانی کا جنم ہوتا ہے۔
کہانی کا جنم ہو چکا جہاں وہ داستان کے کشادہ ویہڑے میں قصہ گوئی، دیو مالائی و اساطیری ادب کے بیچ ’’ککلی‘‘ ڈالتے ہوئے پروان چڑھی جوتاحال تازہ دَم بھی ہے اور تازہ انگ بھی۔کہانی کے بچپنے نے ویہڑے سے باہر قدم دھرے تو دیومالائی داستانوں، مافوق الفطرت کہانیوں اور بے جا لمبے واقعات، سینہ بہ سینہ قصوں کی روایات سے انحراف و اکتاہٹ نے زندگی کے حقیقی مسائل و معاملات سے آشنا کیا جس نے ایک نئے دوست ناول سے ملوا دیاجو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اِسے مختصر کہانی یا افسانے کی دہلیز تلک لے آیا۔ کہانی نے یہاں تک آتے آتے جتنے سفر طے کیے اس سے کئی گنا زیادہ کی مسافت و مسافرت کہانی کار نے وادیِ تخلیق کی سر زمین پر کاٹی۔کہانی کی جنم کاری اور وجودی سراپا نگاری کے لیے کہانی کار کو ریاضت و کشٹ کی کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر ایک بھر پور جیتی جاگتی کہانی ہمارے سامنے اپنا وجود رکھتی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کہانی زندگی کی حقیقتوں کا دوسرا نام ہے جہاں کام گاری، ناساز گاری اور سفر گاری کی مثلث کہانی کار کے گرد کُنڈل ڈالے رکھتی ہے۔ ایک کہانی کار ہی دراصل کہانی پر سندرتا جوبن آنے تک کئی کئی سوانگ بھرتا ہے تب جا کرکہانی کی قبول صورتی کی دعائیں اثر لاتی ہیں جس کے سنگ تحسین کے چند حرف کہانی کارکے حصے میں بھی آجاتے ہیں۔یوں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ کہانی کا جنم دراصل کہانی کار کے وجود کے کسی حصے سے ممکن ہوتا ہے یعنی کہانی کے بے جان وجود میں رواں زندگی کی حرارت دراصل کہانی کار کے بدن سے کشید ہوتی ہے جیسا کہ مشہورِ زمانہ ناول نگار ’’ سٹیفن ڈبلیو لے‘‘ (Stephen W. Leigh) نے کہا تھا:
’’ کہانی کاروہ ہے جو اپنے وجود کا ایک ٹکڑا کاٹے ، اسے سجا کراپنے سامنے رکھ چھوڑے اور دھیرے دھیرے کاغذ پر منتقل کرے ۔ تب وہ اپنے احساسات و جذبات کو ایسے انداز میں بیان کرے کہ پڑھنے والا دیکھ اور محسوس کرپائے ۔یوں قاری وہ سب محسوس کرتا ہے جو کہانی کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے ۔اب اگر وہ اسے پسند کرے یا ناپسند ، کہانی کار خو د کو کہانی سے جدا نہیں کرسکتا ‘‘۔
اسی بات کو ’’سگمنڈ فرائڈ ‘‘ نے یوں کہا ہے کہ’’ تخلیق کا محرک ناآسودہ خواہشات کی تسکین کا جذبہ ہوتا ہے لیکن پہلے یہ تخلیق کار میں اور بعد ازاں قاری میں وہی احساس ابھارتا ہے جو خود تخلیق کار کا مطمع نظر تھا‘‘۔شدتِ احساس ایک ایسا جذبہ ہے جو کہانی کار کو روشنی کی نوید سناتا ہے جسے کہانی کارروشنائی میں سجاکر اپنے قاری کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک کٹھن حقیقت ٹھہرتی ہے کہ مسافت و مسافرت کہانی کار کواپنا آپ چھوڑنے اور اپنی کہانی کا روپ دھارنے پر مجبور کردیتی ہے۔ تب کہانی کاروہی سوانگ بھرتا ہے جو کردارسجھاتے ہیں، وہی کرتا ہے جو منظربتاتے ہیں، وہی لکھتا ہے جو کہانی لکھواتی بلکہ یوں ہوتا ہے کہ تخلیق سے تکمیل کے میدان میں جاری رہنے والی کہانی اور کہانی کارکے بیچ کی جنگ میں فقط تخلیق باقی رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس دم ایک کہانی کار صاحبِ کتاب بننے کی تیاری کرتا اور کتاب کے لیے کہانیوں کے انتخاب کا مرحلہ طے کرتا ہے تو بے اختیار اسے پہلی بار ’’وجود کے ٹکڑوں‘‘ والا معاملہ سمجھ میں آنے لگتاہے۔کس کہانی کو اچھا کہے اور کسے بُرا ، کیوں کہ تخلیق کار اپنے وجود کے کسی بھی ٹکڑے کو ناکارہ جان کر پھینکنے کا یارہ نہیں رکھتا۔ کہانی کار کے نزدیک، کہانی میں ذات کا احساس اور ہم زاد کا سفراُس کی کہانی کو کسی مخصوص زمیں کی حدودو قیودسے پار لے جاتا ہے جہاں بہت سی زمینوں، زمانوں اور تہذیبوں کی بات ہو تی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِ س سمّے وہ قاری اور کتاب کے بیچ سے الگ ہو کر سمے کی عدالت میں فیصلے کا انتظار کرنا بہتر جانتا ہے۔
مضمون کے آخری حصّے کی جانب آتے ہوئے کہانی کار اور کہانی کے جنم کے مکمل شواہد بھی مل جاتے ہیں اور ان قوی جذبات و کیفیات کا تذکرہ بھی ہو جاتا ہے جو کہانی کو جنم بھومی کی نوید سناتے ہیں اور جہاں سے واپسی پر کہانی اپنے تخلیقی وجود کے ساتھ کہانی کار میں سما جاتی ہے۔ یہاں تک آتے آتے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہانی کار کب اور کیسے لمحہ بہ لمحہ بیتتی زندگی کی خوب صورت حقیقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنے کرداروں کے ساتھ ناروا سلوک کے لیے علمِ بغاوت بلند کرتا ہوا اپنی کہانی کے وجود کا مقدمہ لڑنے اور قاری کے سامنے پیش کرنے کا یاراکرتا ہے۔