صادق سنجرانی بلوچستان میں اپنی جڑیں ہونے، مقتدرہ کے ساتھ جُڑے ہونے اور مخصوص سیاسی پرورش کی وجہ سے اہم ہیں۔ سیاست میں نسبتاً نوارد ہونے اور کم جانے پہچانے کے باوجود وہ ملک کے تیسرے بڑے اہم عہدے کے لیے منتخب کروائے گئے۔
ان کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ تو ان کی سیدھی سادھی خوش اخلاق شخصیت کا ہونا ہے۔ اہم ترین خوبی ان کی یہ ہے کہ ان کا تعلق شورش زدہ صوبہ بلوچستان سے ہے، جہاں اب بھی ملٹری آپریشن جاری ہے اور آئے دن وہاں پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست میں زیادہ تر جماعتیں قوم پرست ہیں۔ کچھ پختون قوم پرست جیسے پختونخوا ملی عوامی پارٹی یا پھر بلوچ قوم پرست جیسے بی این پی مینگل یا بی این پی (عوامی)۔
زیادہ تر سیاسی جماعتیں شدید نظریاتی ہیں اور مصلحت پسندی پر ان کا کم ہی یقین ہے۔ ایسے میں بلوچستان میں پرو سٹیبلشمنٹ سیاستدانوں اور محب وطن سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کی گئی اور یوں باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل پائی اور صادق سنجرانی اس جماعت کا اہم ترین ستون ہیں۔
ویسے تو دنیا بھر میں مقتدرہ حلقوں کی پسندیدہ جماعتیں ہوتی ہیں جو اپنے نظریات اور پالیسیوں کی وجہ سے مقتدرہ کو اچھی لگتی ہیں اور پاکستان میں بھی یہ روایت شروع ہی سے جاری ہے۔
ایوب خان کے زمانے میں کنونشن لیگ ’محب وطن‘ قرار دی گئی اور یحییٰ خان کے زمانے میں قیوم لیگ کو یہ مقدس درجہ حاصل ہو گیا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جونیجو مسلم لیگ فیورٹ ٹھہری تو جنرل پرویز مشرف دور میں ق لیگ اور پیٹریاٹس کو پسندیدگی کا درجہ مل گیا۔
جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے دور میں یہی سٹیٹس پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کو مل گیا۔
ق لیگ اور پیٹریاٹس تو مقتدرہ کے ساتھ اپنی وابستگی کو سو پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے تھے مگر باپ والے یہ تکلف نہیں کرتے اور وہ بلوچستان کی سیاست اور پاکستانی سیاست میں مقتدرہ کے حلیف ہونے اور اسے قبول کرنے سے ذرا نہیں گھبراتے بلکہ ببانگ دہل اس تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔
صادق سنجرانی کی سیاسی اٹھان بھی دلچسپ ہے۔ وہ چاندی اور سونے کی معدنیات والے ضلع چاغی کے علاقہ نو کنڈی میں پیدا ہوئے۔ہائی سکول وہاں سے پاس کیا اور باقی تعلیم اسلام آباد میں ہی حاصل کی اور یہیں تعلقات بڑھائے۔
وہ سب سے پہلے نواز شریف حکومت میں شامل ہوئے اور ان کے کوآرڈینٹر رہے۔ بعد میں پھر یوسف رضا گیلانی کے شکایت سیل کے انچارج بنے۔ ان کے بھائی اعجاز سنجرانی پہلے ثنا اللہ زہری اور اب شاید جام کمال کے بھی سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔
غرضیکہ صادق سنجرانی کی پرورش مختلف سیاسی نرسریوں اور حکومتوں میں ہوئی لیکن انھوں نے کسی سیاسی جماعت کے نظریے کو نہیں اپنایا اور وہ اب بھی حب الوطنی ہی کے بنیادی نظریے کے حوالے سے مقتدرہ اور ریاست پاکستان کے حامی ہیں۔
طاقتور حلقوں سے قریبی تعلق ہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو امید ہے کہ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوں گے۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں اپوزیشن نے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی مگر منظور نہیں کروا سکے تھے۔
ایک وفاقی وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ تبصرہ کیا کہ صادق سنجرانی کی فتح پر ہمیں کوئی شک نہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں فکر بھی نہیں۔ وہ جن کا بندہ ہے وہ خود ہی اس کی جیت کا بندوبست بھی کردیں گے ۔‘
بین الاقوامی ماہرین، فلاحی ریاست اور سکیورٹی سٹیٹ میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لیے ہر اہم اور حساس جگہ پر اپنے بااعتماد آدمی بٹھائے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی طرف سے گڑ بڑ کا احتمال نہ ہو۔
صادق سنجرانی کو بھی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رکھنے میں یہی ذہنیت کار فرما ہے۔ اس ذہنیت کے مطابق ہر مورچے پر اپنا سپاہی ہونا چاہیے، تبھی جا کر قلعہ پاکستان کی صحیح طور پر حفاظت ہو سکتی ہے۔
صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اعدادو شمار تو واضح طور پر گیلانی کے حق میں ہیں کیونکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس 53 ارکان کی اکثریت ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس 47 اراکین ہیں۔
ان واضح اعداو شمار کے باوجود حکومت توقع کر رہی ہے کہ مقتدرہ ایسی چمت کار دکھائے گی کہ صادق سنجرانی ایک بار پھر جیت جائیں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی توقع ہے کہ ماضی کو دھرانا اب ممکن نہیں اور اس بار یوسف رضا گیلانی جیتیں گے۔
اگر تو مقتدرہ نیوٹرل رہی تو پلڑا واضح طور پر یوسف رضا گیلانی کے حق میں جھکے گا لیکن آثار بتا رہے کہ مقتدرہ کی غیر جانب داری کا مطلب بہرحال حکومت کی حمایت ہے، مکمل غیر جانبداری نہیں۔
ایسی صورتحال میں صادق سنجرانی ایک بار پھر سینیٹ چیئرمین بن جائیں گے اور اگر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جاتے ہیں تو ریاست، مقتدرہ اور حکومت مطمئن ہوں گے کہ انھوں نے نہ صرف ایک اعلیٰ ترین ریاستی پوزیشن بچا لی بلکہ وہاں ایک ایسا شخص بٹھا دیا جو ریاست یا مقتدرہ کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے گا۔
البتہ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن گئے تو وہ حکومت کے لیے کئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب ضرور بنیں گے اور حزب اختلاف چاہے گی کہ سینیٹ کے ذریعے حکومتی قانون سازی کی ناکہ بندی کر سکے۔
چند روز باقی ہیں، اس اہم ترین مقابلے کا فیصلہ بھی سامنے آجائے گا۔
اہم تو سنجرانی اور گیلانی ہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ ان میں سے اہم ترین کون ٹھہرتا ہے ؟
(بشکریہ: بی بی سی اردو)