دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ایک دوست کی والدہ کی تعزیت کے لیے اس کے کاسمیٹک سٹور پر گیا۔فاتحہ پڑھی۔پھر دنیا کے موضوعات کی طرف آ گئے۔ ہم چونکہ کاسمیٹکس سٹور پر بیٹھے تھے۔تو ہر طرف مختلف انواح و اقسام کی چیزیں رکھی تھیں۔کہیں پر شیمپو، پرفیومز،لپ سٹک اور جو کچھ ایسی شاپس میں ہوتا ہے۔دکان کے ہر ڈسپلے میں میک اپ ہی میک اپ سجا ہوا تھا۔میک اپ دیکھتے دیکھتے اچانک میری نظرتبت سنوکریم پر پڑی۔ تبت سنوکریم کی وہ ڈبیا دیکھتے ہی میں ایک لمحے کے لیے اپنے بچپن کی دنیا میں پہنچ گیا۔
1960 سے لیکر 1990 کی دہائی تک اس تبت سنو کریم نے پاکستانی گھروں میں حکمرانی کی، بچپن سے تقریباً ہر گھر میں یہی کریم استعمال ہوتے دیکھی، سب سے اہم بات آج تک اس کریم نے اپنی پیکنگ اور ڈیزائن تبدیل نہیں کیا، وہی شیشے کی بوتل اس کے اوپر کانسی کا ڈھکن اور فرضی تصویر والی اس ڈبیا پرپہاڑی کام منظر دکھائی دیتا ہے ، اس کے علاوہ تبت سنو کریم کی خوشبو بھی وہی ہے جو بچپن میں ہوا کرتی تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے ،جب میری والدہ مرحومہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے تیار کرتیں، ایک ہاتھ میں ٹھوڑی پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے کنگا کرتیں۔ آ نکھوں میں سرمہ ڈال کرتبت سنو کی ڈبی میں تھوڑی کریم لے کر اسے ہمارے چہرے پر دونوں ہاتھوں سے لگا دیتی۔ یوں ہم ایک دم سے تیار ہو کر اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتے۔
وقت گزرتا گیا اور میری امی جان کے سنگھار میز پر وہ تبت سنو کریم کی شیشی غائب ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے پہل میرے بڑے ماموں جان لعل حسین اختر بحرین سے اپنی بہن کے لیے کچھ کاسمیٹکس لائے۔اس کے بعد بڑے بھائی طاہر حسین سعودیہ چلے گئے۔جہاں سے وہ گاہے گاہے امی جان کے لیے امپورٹڈ کریم اور پرفیوم بھجوانے لگے۔بعد میں بھائی مظاہر بھی وہاں چلے گئے۔تو میں نے امی جان کے سنگھار میز پر یاڑلے کی پاؤڈر والی خوبصورت ڈبی دیکھی۔اس کی سوندھی سوندھی خوشبو تب بہت اچھی لگتی، جب امی جان یاڑلے پاؤڈر کو پف کے ذریعے میک اپ کے طور پر استعمال کرتیں۔تو ان کا حسن مزید نکھر کر سامنے آ جاتا۔کتنا بھلا زمانہ تھا۔نہ دلہن بیوٹی پارلر جا کر تیار ہوتی تھیں۔اور نہ ہی شادی بیاہ کے موقع پر پارٹی میک اپ پیکج طے کیا جاتا۔حسن بھی دلفریب ہوتا تھا۔نہ فیشل کا جھنجھٹ،نہ برائیڈل شاور کا رولا ،جتنے سادہ زمانے تھے اتنی سادگی میں حسن مزید نکھر کر سامنے آجاتاتھا۔بات کر رہا تھا تبت سنو کریم کی،جس کی ڈبی کو میں نے تقریبا بیس، تیس سال بعد دیکھا۔کہ گھر داری کے سامان میں میک اپ میری ذمہ داری کبھی نہیں رہا۔مجھے تو بیگم نے گوشت چکن دال سبزیوں کے چکر میں ایسا ڈالا۔میں نے کبھی سامان آرائش والے شعبے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔لیکن اتنا ہوا کہ گھروں میں سنگھار میز کی جگہ پر ڈیسنگ ٹیبلوں نے جگہ لے لی۔وہاں پر غیر ملکی پرفیوم، کاسمیٹکس اور زمانے بھر کی چیزیں دکھائی دینے لگی۔
تھوڑا سا اور زمانہ تبدیل ہوا۔تو ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ ساتھ کمرے میں بڑی بڑی الماریاں بنا دی گئی۔جس کے اندر خواتین اپنا سامان رکھنے لگیں۔مجھے تو یہ بھی یاد ہے۔کہ جب کبھی گھر میں کوئی اچانک مہمان آجاتا۔امی جان اپنی جمالیاتی حس کو زندہ کرتیں۔بالوں میں کنگھا، چہرے پر کریم لگا کر ایک منٹ میں تیار ہو جاتیں۔ کیسا بھلا زمانہ تھا۔نہ خاوند کا زیادہ خرچہ،نہ وقت کا ضیاع۔ ہر کام میں سادگی، لیکن ہر فرد کا وقار قائم رہتا۔اسی طرح شادی بیاہ میں بھی کچھ زیادہ تردد نہ کرنا پڑتا۔آنکھوں میں کاجل،تبت سنو کریم،ہونٹوں پر ہلکی سی لپ سٹک ،ہاتھوں کے ناخن پر نیل پالش۔کیسا شاندار وقت تھا۔تبھی تو بزرگ کہتے ہیں کہ ماضی میں وقت میں بہت برکت تھی۔اس کی وجہ بھی یہی ہے۔کی طرف شادی بیاہ کے موقع پر پارٹی میک اپ کا سیشن نہیں ہوتا تھا۔نہانے کے لیے بھی صرف چار پانچ برینڈز کے صابن ہوتے تھے۔مجھے یاد آرہا ہے کہ کپری، رکسونا، تبت، لکس اور لائف بوائے۔اب تو بازار میں نہانے کے اتنے صابن آگئے ہیں۔کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ نہائے کہ نہ نہائے۔
قارئین کرام ہم نے بات شروع کی تھی۔تبت سنو سے۔اور بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔اصل بات تو یہ ہے۔کہ میں اپنی والدہ کو یاد کرنے بیٹھا۔ تو معلوم ہوا۔ کہ کہ ان کی یاد کا ایک پہلو سنو کریم کی اس کہانی میں پنہاں تھا۔جو مجھے 30 برس بعد کاسمٹک والی دکان پر نظر آئی۔میں نے وہ کریم خریدی۔رات کو گھر پہنچا۔بیگم نے اس دن میرے سامان سے تبت سنو کے برآمد حیرت اور خوشی کے ملے جلےجذبات کے ساتھ پوچھا؟
آج دن کس طرف سے نکلا تھا۔کہ آپ میرے لیے کریم لے کر آئے ہیں۔
میں نے فورا کہا کہ مجھے کاسمیٹک خریدنا نہیں آتا اور اور نہ ہی یہ کریم میں آپ کے لیے لایا ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کریم اپنے استعمال کے لیے لائے ہیں۔
نہیں نہیں اپنے استعمال کے لیے نہیں لایا۔یہ کریم تو میں امی جان کی یاد میں لایا ہوں۔کہ میرے بچپن میں امی جان یہی کریم استعمال کیا کرتی تھیں۔
تب سے وہ سنو کریم میں نے اپنی الماری میں رکھ لی ہے۔روزانہ صبح کے وقت میں پہننےکے لیے اپنے لیے سوٹ کا انتخاب کرتا ہوں۔تو الماری کا دروازہ کھولتے ہی میری سب سے پہلی نظر بیکنگ میں پڑی ہوئی اس تبت سنو پر پڑتی ہے۔تو بے ساختہ امی جان یاد آجاتی ہیں۔ میرا تو خیال تھا،جیسے جیسے وقت گزرے گا۔ماں کی جدائی کا زخم مندمل ہوگا۔معلوم نہیں جدائی کا یہ پودا اتنا ہرا بھرا کیوں ہے؟حالانکہ اس پودے کی آبیاری صرف میرے آنسو کر رہے ہیں۔ویسے میرے آنسو اتنے زیادہ بھی نہیں ہوتے کہ کہ جدائی کا پودا ہرا بھرا لگے۔
فیس بک کمینٹ