آئین و قانون کی بالادستی، انصاف اور غریبوں سے ہمدردی کے نام پر جو تماشہ آج چیف جسٹس گلزار احمد کی قیادت میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے رچایا ہے، وہ اگرچہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی نیا وقوعہ نہیں ہے لیکن یہ رویہ قانون کی حکمرانی اور جمہوی اداروں کے احترام و خود مختاری کے بنیادی اصولوں و تقاضوں سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام تر احترام کے باوجود اختیار سے تجاوز اور عہدہ کی آڑ میں ملک میں آئینی طو ر سے کام کرنے والی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
کورونا وائرس نے ایک ناگہانی وبا کے طور پر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ طاقت ور اور امیر ممالک کی طرح غریب اور کم وسیلہ ریاستیں بھی اپنے اپنے طور پر اس مشکل سے نبرد آزما ہونے اور اپنے عوام کو وائرس سے محفوظ رکھنے اور معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے بچانے کی تگ و دو کررہی ہیں۔ مختلف حکومتوں کے اقدامات پر تنقید بھی ہورہی ہے اور ناکافی انتظامات پر سیاسی قیادت کو نکتہ چینی کا بھی سامنا ہے لیکن دنیا کی کسی عدالت نے آئین و قانون کی آڑ لیتے ہوئے حکومتی معاملات میں مداخلت کی کوشش نہیں کی ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بدنام زمانہ سو موٹو اختیار کے تحت اس معاملہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا عزم ظاہر کیا اور آج کی سماعت میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ معزز عدالت کے بنچ میں شامل چند ارکان کے سوا ریاستی انتظام کی ہر سطح پر بد نیت اور بدعنوان لوگ موجود ہیں جو معاملات کو درست طریقے سے چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ عدالت عظمی کے قابل احترام ججوں کو اس قسم کے ریمارکس دینے اور انتظامی امور میں ناجائز مداخلت کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر اس طریقہ کو ایک روایت کی حیثیت حاصل ہوگئی تو ملک میں انارکی اور بدانتظامی کا چلن عام ہوگا اور کوئی ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
وزیر اعظم یا صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی اور کسی معاملہ سے نمٹنے کے طریقہ کار کو کنٹرول کرنے کا حق اسمبلیوں کے علاوہ سیاسی قیادت اور میڈیا کو حاصل ہے۔ پاکستان میں میڈیا تمام تر سرکاری استبداد کے باوجود یہ فریضہ ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ عمران حکومت کے اقدامات پر ہر طرح سے چھان پھٹک ہوتی ہے لیکن بطور وزیر اعظم انہیں فیصلے کرنے اور اپنی پسند کی کابینہ کے ساتھ ان پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان فیصلوں سے شدید اختلاف کے باوجود کوئی شخص یا ادارہ ، انہیں تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ حدود بھی ملک کا آئین ہی مقرر کرسکتا ہے کہ کون شخص حکومت میں شامل ہوسکتا ہے یا وزیر اعظم کتنی بڑی کابینہ بناسکتے ہیں۔ رہنما آئینی اصولوں کی روشنی میں کوئی بھی وزیر اعظم جب کابینہ کا انتخاب کرکے کاروبار حکومت چلانا چاہتا ہے تو کوئی چیف جسٹس محض اپنے عہدہ کی وجہ سے اس پر انگشت نمائی نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے آج چیف جسٹس گلزار احمد نے یہی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
چیف جسٹس نے پانچ رکنی بنچ کی قیادت کرتے ہوئے صرف حکومت کو نااہل اور نکما ہی قرار نہیں دیا بلکہ وزیر اعظم کو معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو برطرف کرنے کا زبانی حکم بھی دیا۔ اگرچہ اٹارنی جنرل کی درخواست پر یا کسی دوسری نامعلوم وجوہ کی بنا پر بعد میں جاری ہونے والے تحریری حکم میں ڈاکٹر ظفر مرزا کو معاون خصوصی کے عہدے سے علیحدہ کرنے کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کس آئینی اختیا رکے تحت وزیر اعظم کی طرف سے مقرر کئے ہوئے ایک معاون خصوصی کی علیحدگی کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ سپریم کورٹ ملک میں قانونی بالا دستی کی علامت اور مقدس ادارہ ہے۔کسی چیف جسٹس کو اپنے غیر محتاط ریمارکس یا احکامات کے ذریعے اسے پامال کرنے کا حق حاصل نہیں ہوسکتا۔ بادی النظر میں کابینہ کے حجم، پارلیمنٹ کے اجلاس، سیاسی جماعتوں کی پریس کانفرنسوں اور حکومت پر تنقید کے حوالے سے دیے جانے والے ریمارکس قانونی و آئینی اختیار سے متجاوز ہیں۔
پاکستان کے شہری کے طور پر چیف جسٹس گلزار احمد سمیت ان کے ساتھی جج اپنی سیاسی رائے رکھنے کے اہل ہیں اور حکومتی کارکردگی پر بھی ان کے تحفظات ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب وہ انصاف کی مسند پر بیٹھتے ہیں تو فرد گلزار احمد ملک کا چیف جسٹس گلزار احمد ہوتا ہے۔ وہ ذاتی حیثیت میں کوئی بات کرنے یا رائے دینے کا مجاز نہیں رہتا۔ اس کی ہر بات اور زیر سماعت معاملہ کو سمجھنے کے لئے اس کا ہر سوال یا ریمارکس ، اس کی ذاتی رائے نہیں بلکہ آئین و قانون کے دائرے میں سامنے آنے والی کسی الجھن کو سلجھانے کا طریقہ ہونا چاہئے۔ کوئی جج قانون میں ذاتی خیالات اور پسند و ناپسند کی ملاوٹ کرکے اپنے عہدے اور مسلمہ عدالتی طریقہ کار سے انحراف کا مرتکب ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے لاحق خطرات سے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں آباد ہر شہری بھی ہراساں و پریشان ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات کو بھی یہ پریشانی لاحق ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے عہدے کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کو عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ بصورت دیگر آج ان کی باتوں پر واہ واہ کہنے والے، آنے والے کل میں اس غیر پیشہ وارانہ طرز عمل پر حرف زنی کررہے ہوں گے۔ جسٹس گلزار احمد کے سامنے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کی مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے سوموٹو اختیار کے زور پر حکومت کو عاجز کرنے اور خود ہی ریاست کو چلانے کی کوشش ضرور کی لیکن اس طریقہ سے ایک طرف حکومت غیر مؤثر اور کمزور ہوئی تو دوسری طرف عدالت کا وقار اور ساکھ متاثر ہوئی۔ پاکستان اب کسی ایسے چیف جسٹس کا متحمل نہیں ہوسکتا جو از خود نوٹس کے اختیار کو بنیادی حقوق کے تحفظ کی بجائے اپنا سیاسی ایجنڈا سامنے لانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے مشن کے لئے استعمال کرے۔
عدالتیں آئینی انتظام کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ یہ آئین و قانون سے بالا نہیں ہوتیں اور نہ ہی ججوں کو کسی قانون کی خلاف ورزی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ گو کہ پاکستان کا ماضی اس قسم کے افسوسناک واقعات سے بھرا ہؤا ہے جہاں اعلیٰ عدلیہ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور پھر اس کی آڑ میں آئین کو معطل و منسوخ کرنے یا کسی آمر کو اس میں ترمیم کا اختیار دینے کے فیصلے کئے۔ یہ سارے فیصلے تاریخ کی عدالت میں پیش ہوکر ملکی عدلیہ کے دامن کا داغ بن چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کو ماضی کے ان تجربات سے سبق سیکھنے، ان کی اصلاح کا طریقہ دریافت کرنے اور مستقبل میں ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ملک کے آئینی نظم حکومت اور پارلیمنٹ کے اختیار کو گزند پہنچے۔ اگر اعلیٰ عدالتیں حکومتوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنی خواہشات کا محتاج بنانے کی کوشش کرتی رہیں گی تو اس سے اداروں کے درمیان تصادم ناگزیر ہوجائے گا۔ ایسی کسی بھی افسوسناک صورت حال کے نتیجہ میں انصاف اور نظام عدل ہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے انتظامی اور سیاسی امور میں رائے زنی کو پاکستان میں جمہوریت کے افسوسناک تاریخی پس منظر میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ ملک میں جمہویت کا راستہ کاٹنے کا آغاز بیورو کریسی و اسٹبلشمنٹ کے بعض عناصر کی طرف ہؤا تھا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے اس کا فوری تدارک کرنے کی بجائے، خود اس غیر آئینی و جمہوریت دشمن کھیل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ ملک میں فوجی بغاوت کی ہر کوشش کو عدالتی حکم نامہ کے ذریعے ’جائز‘ قرار دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی میں ہر آئینی انتظام کو سمیٹتے ہوئے سیاست دانوں کی بدعنوانی کوعذر کے طور پر پیش کیا گیا۔ ملکی نظام سے بدعنوانی ختم کرنےکے نام پر قائم ہونے والی ساری فوجی حکومتیں خود بدترین بدعنوانی کی مثال بن گئیں۔ لیکن اب بھی سیاست دانوں پر بدعنوانی کا الزام عائد کرکے جمہوری انتظام کو مشکوک اور آئینی دائرہ کار کو محدود کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
چیف جسٹس نے آج کی کارروائی کے دوران حکومت میں شامل بدعنوان عناصر کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے کسی ایک فرد کی طرف اشارہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھی وزیر یا اعلیٰ سرکاری افسر کے خلاف بدعنوانی کی بنیاد پر اقدام کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا عدالت عظمی کا کوئی جج صرف قیاس اور رائے کی بنیاد پر کسی حکومت کی دیانت اور کارکردگی کے بارے میں کوئی ریمارکس دے سکتا ہے۔ کیا بھری عدالت میں ریمارکس کی صورت میں ایسی رائے کا اظہار کسی جج کے منصب کے شایان شان ہے۔ کوئی عدالت کسی ملزم کو اس وقت تک قصور وار قرار نہیں دے سکتی جب تک اس کے خلاف کوئی جرم ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں ثابت نہ ہوجائے۔ لیکن چیف جسٹس نے کابینہ میں ’بدعنوان عناصر‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
پاکستان میں مختلف اداروں نے ہمیشہ اقتدار کی کشمکش میں حصہ لینے اور اپنے آئینی دائرہ کار سے بڑھ کر حصہ طلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی انتظام پر بھی ایسی ہی خواہش کے نشان محسوس کئے جاتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کو ملک کے سب سے مؤثر اور طاقت ور سیاسی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ ملک کے جمہوریت پسند عناصر سپریم کورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس گٹھ جوڑ کو کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔ لیکن اگر ججوں کے ریمارکس اقتدار کی کشمکش میں حصہ طلب کرنے کی خواہش کا پرتو محسوس ہوں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )

