روس نے آج علی الصبح یوکرائن پر باقاعدہ حملوں کا آغاز کردیا۔ صدر پوتن نے یوکرائن پر حملے کا حکم ایک ایسے وقت دیا جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود تھے۔ اس طریقہ کار سے یہ تاثر قوی ہوگا کہ روس نے ایک سنگین اقدام کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم کی ماسکو میں موجودگی کو اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
روسی صدر گزشتہ کئی ہفتوں سے اصرار کررہے تھے کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک روس کی جنگ جوئی کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کررہے ہیں ۔ روس اپنے ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم آج صبح یہ سب وعدے جھوٹ ثابت ہوئے اور روسی بری فوج اور فضائیہ نے یوکرائن پر مشرق اور شمال کی جانب سے چڑھائی کردی، روسی فضائیہ دارالحکومت کیف سمیت متعدد علاقوں پر بمباری کررہی ہے۔
صدر ولادیمیر پوتن نے اس حملہ کی تیاری تو کئی ماہ پہلے کی ہوئی تھی لیکن اس کا باقاعدہ اعلان گزشتہ روز مشرقی یوکرائن کے دو باغی علاقوں لوہانسک اور ڈونیسک کو خود مختار ریاستوں کے طور پر تسلیم کرکے کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی صدر پوتن نے اعلان کیا کہ روسی ’امن فوج‘ ان دونوں علاقوں کی حفاظت کے لئے بھیجی جائے گی۔ تاہم آج علی الصبح یوکرائن پر حملہ کا حکم دیتے ہوئے صدر پوتن نے واضح کیا کہ ان کا اصل مقصد یوکرائن کو ’ ڈی ملٹرائز‘ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرائن پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم مغربی مبصرین کا خیال ہے کہ صدر پوتن دارالحکومت کیف پر قبضہ کرکے وہاں روس نواز حکومت مسلط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یوکرائن کو مغربی بلاک میں جانے سے روکا جاسکے۔ ایک روز پہلے قوم سے خطاب میں صدر پوتن نے لوہانسک اور ڈونیسک کو خود مختار ریاستیں تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مشرقی یوکرائن کو تاریخی و ثقافتی لحاظ سے روس کا حصہ قرار دیا تھا۔ اگر چہ سرکاری طور پر اس علاقے کو روس میں شامل کرنے کا اعتراف نہیں کیا جاتا لیکن آج شروع کی گئی جنگی کارروائی کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ روس بتدریج یوکرائن کو روسی اثر و رسوخ میں واپس لانے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن، نیٹو کے جنرل سیکرٹری ینس ستولتن برگ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس نے ایک چھوٹے ہمسایہ ملک پر حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ گوئیترس نے روس سے جنگ بند کرنے اور اپنی فوجوں کو یوکرائنی سرزمین سے واپس بلانے کی اپیل کی ہے لیکن اب معاملہ اپیلوں اور مذمت کی کارروائی سے بڑھ چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے روس پر باقاعدہ اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ دو روسی بنکوں اور متعدد روسی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ۔ صدر جو بائیڈن جمعرات کے دوران روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی حکمت عملی ہے کہ روس پر اقتصادی گھیرا تنگ کیا جائے اور اسے عالمی معیشت سے باہر کرکے پسپا ہونے پر مجبور کیا جائے۔ صدر بائیڈن اعلان کرچکے ہیں کہ یوکرائن پر حملہ کی صورت میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک، روس پر نہایت سخت پابندیاں عائد کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی جارحیت کو قبول نہیں کیا جائے گا اور ہر قیمت پر یوکرائینی عوام اور جائز حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تاہم امریکی صدر ان دعوؤں کے ساتھ ہی بار بار یہ یقین بھی دلاتے رہے ہیں کہ امریکہ اس جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے گا۔ اسی قسم کا اعلان نیٹو کے سیکرٹری جنرل ستولتن برگ بھی کرتے رہے ہیں۔ بلکہ یوکرائن پر روسی حملوں اور بمباری کے بعد بھی انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ نیٹو کے فوجی یوکرائن میں تعینات نہیں ہیں البتہ نیٹو یوکرائن کی عسکری امداد کرتا رہا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کے اسی رویہ کی وجہ سے روس کے صدر کو یوکرائن کے بارے میں اپنی حکمت عملی بنانے اور اب عسکری کارروائی کے ذریعے یوکرائن کی مزاحمتی قوت کو ختم کرنے کا موقع ملا ہے۔ اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دینے کی بجائے اگر امریکہ سفارتی ذرائع سے روس تک یہ پیغام پہنچا دیتا کہ ایک خود مختار ریاست یوکرائن کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں امریکہ اور اس کے حلیف یوکرائن کا ’دفاع‘ کریں گے، تو صدر پوتن کو کبھی یوکرائن پر حملہ کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ تاہم موجودہ حالات میں کمزور امریکی پالیسی کی وجہ سے صدر پوتن اب ’گریٹر روس‘ کے منصوبے پر باقاعدہ عمل کا آغاز کرچکے ہیں۔
یوکرائن کے ساتھ امریکہ و یورپ کے تعلقات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یوکرائینی حکومت نے امریکہ و نیٹو کی حوصلہ افزائی کے بعد ہی نیٹو میں شمولیت کے لئے اقدام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ روس نے اس اعلان کو اپنی سالمیت اور دفاع کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے یوکرائن کی سرحد پر فوجیں جمع کرنی شروع کردیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ یہ فوجیں یوکرائن پر حملہ کے نقطہ نظر سے جمع کی گئی ہیں تاہم صدر پوتن اس عسکری پیش قدمی کو یوکرائن کے نیٹو میں شمولیت کے منصوبوں سے منسلک کرکے اپنے اقدام کا جواز دیتے رہے ہیں۔ امریکہ کا مسلسل یہ کہنا تھا کہ یوکرائن کا نیٹو میں شامل ہونا مسئلہ نہیں ہے لیکن روس کی طرف سے ہمسایہ ملکو ں کو فوجی لحاظ سے دھمکانا ضرور مسئلہ ہے۔ اب یہ حملہ حقیقت بن چکا ہے اور جو بائیڈن اور مغربی ممالک یوکرائن کی مدد کرنے کی بجائے ، یہ بیان دے رہے ہیں کہ اس روسی کارروائی سے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوگا اور اس کی ذمہ داری روس پر عائد ہوگی۔ بدقسمتی سے یوکرائن امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی اسی کمزور حکمت عملی کا شکار ہؤا ہے۔ اگر امریکہ یوکرائن کی بےبنیاد حوصلہ افزائی سے گریز کرتا اور یہ واضح کیا جاتا کہ اپنے بڑے اور طاقت ور ہمسایہ ملک کے ساتھ اسے خود ہی معاملات طے کرنا ہوں گے تو کیف کی قیادت بھی شاید نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کرکے ماسکو کو بالواسطہ طور سے للکارنے کی کوشش نہ کرتی۔ اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو یوکرائن میں ہونے والی تباہی کا صرف روس یا ولادیمیر پوتن ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ اس کی اخلاقی اور اسٹریٹیجک ذمہ داری امریکہ اور اس کے حلیف ممالک پر بھی عائد ہوگی۔ یوکرائن کو ایک بڑے اور طاقت ور ہمسایے کو اشتعال دلانے پر آمادہ کرکے اب یہ ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے یوکرائن کی ’حفاظت‘ کرنا چاہتے ہیں۔
روسی صدر پوتن کو بھی اس جنگ جوئی کے مضمرات کا اندازہ ہوگا اور وہ اس کے اقتصادی بوجھ، سفارتی عواقب اور ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات سے بھی آگاہ ہوں گے لیکن انہیں یہ بھی علم ہے کہ یورپ اپنی انرجی ضروریات پوری کرنے کے لئے روس سے فراہم ہونے والے تیل و گیس کا محتاج ہے اور وہ غیر معینہ مدت تک روس کے ساتھ دوری برقرار نہیں رکھ سکتا۔ صدر پوتن نے سویت یونین کے شکست و ریخت کی ہزیمت کا انتقام لینے کے لئے سوچ سمجھ کر یوکرائن پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ کسی بھی مرحلے پر کسی معمولی غلطی کی وجہ سے معاملہ قابو سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔ یوکرائن کی تباہی اور اس علاقے میں طویل المدت جنگ شروع کی جاچکی ہے لیکن اسے ختم کرنا شاید روس اور اس منہ زور صدر کے اختیار میں نہ ہو۔ روس اس جنگ کے ذریعے علیحدہ ہوجانے والے بعض علاقوں پر تسلط بحال کرنے اور انہیں اپنے زیر اثر لانے کے منصوبے پر ضرور عمل کرے گا لیکن اس ایک فیصلہ سے ملکی معیشت اور روسی عوام کی خوشحالی پر مرتب ہونے والے اثرات اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے چینی کے بارے میں شاید کوئی بھی ماہر درست اندازے قائم نہ کرسکے۔ اس کا جواب بہر حال آنے والا وقت ہی دے گا۔
یوکرائن پر حملہ کے لئے روس کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس موقع پر پاکستانی وازیر اعظم کے دورہ ماسکو سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ خبروں کے مطابق اس ماہ کے شروع میں بیجنگ اولمپکس کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے روسی وزیر خارجہ سرگی لاروف کو عمران خان کو دورہ روس کی دعوت دینے پر آمادہ کیا تھا۔ اسلام آباد نے یوکرائن کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعہ پر مناسب غور کئے بغیر اس دعوت کو قبول بھی کیا اور ایک ایسے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم ماسکو میں صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کررہے تھے جب پوری دنیا روسی جنگ جوئی کی مذمت کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کرنے کی بات کررہی تھی۔ اصولی طور سے پاکستان کو اس نکتہ پر روس سے احتجاج کرنا چاہئے کہ وزیر اعظم کے دورہ کے دوران ہمسایہ ملک پر حملہ کے بارے میں انہیں پہلے سے مطلع نہیں کیا گیا۔ جس وقت پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے ہمراہی نیند کے مزے لے رہے تھے، صدر پوتن قوم سے خطاب میں یوکرائن پر حملہ کا اعلان کررہے تھے۔ بعد میں عمران خان سے ایک گھنٹہ کی ملاقات کو تین گھنٹے تک طول دے دیا گیا۔ پاکستانی وفد یہ سمجھتے ہوئے اس ’خیر سگالی‘ پر خوشی کا اظہار کررہا ہے کہ جنگ کی مصروفیات کے باوجود صدر پوتن پاکستانی وزیر اعظم کو اتنی ’اہمیت‘ دے رہے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ پوتن اور روسی وزارت خارجہ نے عمران خان کو اپنی جنگ جوئی میں سفارتی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ دنیا کو یہ دکھا جارہا ہے کہ روسی صدر ہمسایہ ملک پر حملہ کے باوجود اتنے مطمئن اور پرسکون ہیں کہ وہ مہمان وزیر اعظم کے ساتھ کئی گھنٹے محو گفتگو رہ سکتے ہیں۔
پاکستان کو اس خطرناک اور سنسنی خیز مرحلہ پر استعمال کرنے کی جھلک شاہ محمود قریشی کی اپنے ہم منصب سرگی لاروف کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی دیکھنے میں آئی۔ لاروف نے اس موقع پر اسلام آباد میں افغان مسئلہ پر او آئی سی کا کامیاب اجلاس منعقد کروانے پر پاکستان کو مبارک باد دی اور اگلے ماہ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ یوں واضح کیا کہ روس کے لئے وزیر اعظم پاکستان کے دورہ ماسکو کی اہمیت ایک سفارتی سٹنٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ پاکستانی وفد اس امید پر ماسکو گیا تھا کہ روسی تعاون سے تعمیر ہونے والی گیس پائپ لائن منصوبہ کو جلد شروع کرنے کے معاملہ پر پیش رفت ہوسکے لیکن یہ ارادہ اب روس پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایک طویل عرصہ کے لئے تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔
عمران خان خالی ہاتھ آج رات ماسکو سے اسلام آباد پہنچ جائیں گے لیکن اس بے وقت دورہ سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور مشکلات کی قیمت شاید آنے والی کئی دہائیوں کے دورن ادا کرنا پڑے۔ عمران خان نے دورہ سے پہلے روسی ٹی وی آرٹی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، صرف تاریخ سے نابلد لوگ ہی جنگ کا آغاز کرتے ہیں‘۔ عمران خان کو بتانا چاہئےکہ کیا یہ بات انہوں نے صدر پوتن سے ملاقات میں بھی کہنے کا حوصلہ کیا تھا کہ انہوں نے ایک کمزور ہمسایہ ملک پر حملہ کرکے بہت بری غلطی کی ہے ۔اور انہیں اس کی فوری اصلاح کا راستہ تلاش کرنا چاہئے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ