ستم ظریفی دیکھئے کہ تحریک انصاف کے بانی اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کی خواہش میں آرمی چیف عاصم منیر کو ’فیلڈ مارشل‘ بننے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ اور خیبر پختون خوا میں ان کے ’وزیر اعلیٰ‘ امین گنڈا پور حکومت کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر عمران خان سے ملاقات نہ کرائی گئی تو وہ آئی ایم ایف پروگرام میں تعاون نہیں کریں گے۔
دونوں قوم کے مفاد کی آڑ میں ذاتی سہولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ علی امین گنڈا پور نے آئی ایم ایف پروگرام پر تعاون سے ہاتھ کھینچنے کی دھمکی اگرچہ عمران سے ملاقات کے لیے دی ہے لیکن میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ وہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملنے کے بعد کررہے تھے۔ ملاقات کے بعد ملاقات کی شدید خواہش کا اظہار کرنے والے شخص کی امید تو شاید اسی صورت بر آسکتی ہے کہ انہیں جیل عمران خان کے ساتھ والا کمرہ تیار کرا دیا جائے۔
تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا معاملہ اس ماہ کے شروع میں پاکستان پر بھارتی حملوں کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر کے وقت سے زیر بحث ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے تحریک انصاف کو وسیع تر قومی یک جہتی کے لیے ایک بار پھر مل بیٹھنے کی دعوت دی تھی۔ اس کے جواب میں پارٹی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے اس بات چیت کی اجازت دے دی ہے لیکن اسے میڈیا کی نگاہوں سے خفیہ رکھنے کی شرط رکھی ہے۔ اگرچہ یہ شرط کوئی عجیب نہیں تھی اور نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا ۔ لیکن گوہر علی نے خود ہی یہ کہتے ہوئے اس پیش رفت کی نفی شروع کردی کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ کوئی ’ڈیل‘ نہیں کی۔ حالانکہ کسی طرف سے یہ بات نہیں کی گئی تھی کہ پی ٹی یا عمران خان نے حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرکے کچھ سہولتیں حاصل کرلی ہیں۔
یوں بھی پاک بھارت جھڑپ کے بعد حکومت کی سیاسی پوزیشن اس حد تک مستحکم ہوچکی ہے کہ اسے تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کی ’ڈیل‘ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کی سرکردگی میں عالمی رہنماؤں کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کے لیے بھیجے جانے والے وفد کی تیاری کے دوران بھی ہؤا ہے۔ اس وفد میں تحریک انصاف کو شریک کرنا تو کجا، اس سے مشورہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ حالانکہ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر اس سے نہ صرف مشورہ ضروری تھا بلکہ اس کے نامزد ارکان کو وفد میں شامل کرنا بھی مفید ہوتا۔ لیکن تحریک انصاف نے گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران جس غیر ذمہ دارانہ سیاسی رویہ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی وجہ سے اس نے خود ہی اپنے آپ کو ملکی سیاسی معاملات میں غیر متعلق کرلیا ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اب تک منفی سیاست اور دباؤ کے ہتھکنڈے اختیار کرنے سے باز نہیں آتے۔
عمران خان نے اڈیالہ جیل میں قائم ٹرائل کورٹ کے موقع پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ’ بہتر تھا وہ فیلڈ مارشل کی جگہ خود کو بادشاہ کا ٹائٹل دیتے۔ کیونکہ اس وقت ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے اور جنگل کے قانون میں تو بادشاہ ہوتا ہے‘۔ البتہ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’میں خود اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دے رہا ہوں کہ اگر پاکستان کے مفاد میں بات کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کی فکر ہے تو آکر بات کریں۔ اس وقت ملک کو بیرونی خطرات، بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور معیشت کی بحالی کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا ۔ جب کہ میں نہ پہلے اپنے لیے کچھ مانگ رہا تھا، نہ اب مانگوں گا‘۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان اب بھی کسی طرح فوج کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں اور اپنی رہائی سے لے کر ملکی سیاست میں واپسی تک کے لیے فوج یعنی اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ماضی قریب میں مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ عمران خان ان میں فوج کے نمائیندوں کو شامل کرانا چاہتے تھے جبکہ فوج براہ راست کسی سیاسی پارٹی سے بات چیت پر تیار نہیں ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی تحریک انصاف کو فاصلے پر رکھنے کے لیے ہی اختیار کی گئی ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کو اس طریقے کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ خاص طور سے تحریک انصاف کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ موجودہ فوجی قیادت سیاسی رابطوں پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ رویہ خواہ محض رسمی ہی ہو لیکن ملک میں جمہوریت کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ایک خوش آئیند آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم جمہوری روایت کی مکمل بحالی کے لیے ملکی سیاسی طاقتوں کو آپس میں معاملات طے کرنے، بعض اصولوں پر متفق ہونے اور انتخابات کے بارے میں شبہات و ابہام ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس اگر محض الزام تراشی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ سیاسی لیڈر کرپٹ ہیں، اس لیے ان سے بات نہیں ہوسکتی اور اختیارات چونکہ اسٹبلشمنٹ کے پاس ہیں لہذا اس سے قربت چاہئے ۔ تو ایسی پارٹی کس منہ سے جمہورت اور انتخابی اخلاقیات کی بات کرسکتی ہے؟
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ ملکی انتخابی عمل کو زیادہ جمہوری بنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا باہم اشتراک بے حد ضروری ہے۔ اگر سب سیاسی عناصر فوج کے ساتھ ساز باز ہی کو بہتری کا راستہ سمجھتے رہیں گے اس سے ’جنگل کا قانون‘ جمہوری ادارہ نہیں بن جائے گا۔ تحریک انصاف کے نزدیک اگر موجودہ طریقہ جنگل کے نظام پر استوار ہے جسے صرف عمران خان جیسا جمہوریت پسند ہی تبدیل کرسکتا ہے تو انہیں یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ آسان راستے تلاش کرنے کی بجائے نظام کی تبدیلی کے لیے طویل اور حقیقی جد و جہد کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ایسا حوصلہ مگر نہ تو عمران خان کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور نہ ہی علی امین گنڈا پور کا کردا اس کی گواہی دیتا ہے۔
کسی جنرل کو فیلڈ مارشل بنانا حکومت کا ویسا ہی اختیار ہے جیسا کہ تحریک انصاف جیسی کسی پارٹی کے لیے منتخب حکومت کو دھاندلی زدہ، کٹھ پتلی اور جعلی قرار دے کر مسترد کرنا جائز ہے۔ یوں بھی فیلڈ مارشل کوئی ایسا عہدہ نہیں ہے جس سے ملکی معاملات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما ہوسکے۔ عاصم منیر کو یہ اعزاز جس بھی مقصد سے بجی دیا گیا ہے لیکن ان کے اختیارات آج بھی وہی ہیں جو کل تک ان کے پاس تھے۔ اگر ان کی قیادت میں فوج ملکی سیاسی معاملات کی نگران ہے تو ان کے فیلڈ مارشل بننے سے اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ جیسا کہ عمران خان نے بھی عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کی بجائے بادشاہ کہلانے کا مشورہ دیا ہے، ویسے ہی ملک میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ اس طرح آرمی چیف سیاسی فیصلوں پر زیادہ حاوی ہوجائیں گے اور براہ راست فوجی حکمرانی کا راستہ ہموار ہوگا۔ حالانکہ اگر کوئی جنرل آئین کو نظرانداز کرکے حکومتی اختیار حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کے لیے فیلڈ مارشل بننے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ملکی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔
موجودہ حالات میں ملک میں مارشل لا نافذ کرنے یا فوجی حکومت قائم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ موجودہ سیاسی انتظام ناقص اور غیر نمائیندہ ہے۔ تاہم اس کی ذمہ داری صرف فوج، موجودہ حکومت یا پارلیمنٹ پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ اس خرابی میں سب لوگوں نے ہی اپنا حصہ ڈالا ہے اور جب تک سب اپنی اپنی غلطی مان کر سیاسی مفاہمت کا کوئی راستہ نہیں نکالیں گے ، ملکی سیاسی نظام میں سے فوج کا اثر و نفوذ ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ملکی نظام صرف چہرے بدلنے سے جمہوری یا غیر جمہوری نہیں ہوسکتا۔ شہباز شریف کی جگہ اگر عمران خان وزیر اعظم بن جائیں اور اپنے اقتدار کے لیے تاحیات آرمی چیف کا انتخاب کرلیں تو کیا اسے جمہوریت اور عوامی حکمرانی کا طریقہ کہا جائے گا؟
بدنصیبی سے تحریک انصاف اور عمران خان اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے اور شدید بحران کا سامنا کرنے کے باوجود جمہوری جد و جہد پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ غلطیوں سے سیکھنے کا ایک طریقہ انہیں ماننا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کو سانحہ 9 مئی میں اپنی غلطیاں ماننے کے علاوہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اپنی پارٹی کے کردار کا جائزہ لینا چاہئے۔ اسی صورت میں وہ ایک ذمہ دار اور محب الوطن قومی سیاسی قوت کے طور پر خود کو منوا سکے گی ۔ بصورت دیگر اس کے زوال اور مشکلات میں کمی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ

