حکومت کی سرپرستی میں اب یہ نظریہ عام کیا جا رہا ہے کہ پاناما کیس اور اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات دراصل نواز شریف کو سیاست سے دور رکھنے کی سازش ہے کیونکہ ملک کے مقتدر ادارے ایک خود مختار وزیراعظم کو قبول نہیں کر سکتے۔ ایک طرف اس بنیاد پر بیان بازی اور تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن اس صورتحال کو غنیمت جانتے ہوئے نواز شریف کو ’’چور‘‘ ثابت کرنے اور اس طرح اپنے لئے سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ متعدد بار اقتدار میں رہی ہے اور اس کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری جوڑ توڑ کے ذریعے آئندہ انتخابات میں پارٹی کی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس لئے اس کا رویہ زیادہ جارحانہ نہیں ہے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کو یقین ہے کہ اگر نواز شریف کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹایا جا سکے تو اس کےلئے میدان ہموار ہو جائے گا۔ اس کے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب سے بستر گول ہو چکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ برس کے دوران عوامی رابطہ مہم چلانے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کا جو قصد کیا تھا، آصف زرداری نے اس پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کو یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیراعظم کو بے اعتبار کرنے کی صورت میں اس کی سیاسی کامیابی یقینی ہے۔
ان الزامات اور تجزیوں سے جو تصویر سامنے لائی جا رہی ہے اس میں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کی طاقتور فوج نواز شریف سے بوجوہ مطمئن نہیں ہے۔ چونکہ انتخابات کے ذریعے ان کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہا اور 2018 کے انتخابات میں بھی یہ پارٹی دوبارہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، اس لئے اب متبادل ہتھکنڈوں سے انہیں منظر نامہ سے غائب کرنا ضروری ہے۔ اس اندازے، الزام یا بیان کو درست مان لینے کی صورت میں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فوج نواز شریف کی بجائے کسی متبادل سیاسی لیڈر کو سامنے لانا چاہتی ہے۔ کیا وہ لیڈر عمران خان ہو سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت دلچسپ ہے اور اس کا جواب بدستور غیر واضح ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں بھی عمران خان کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے اہم سیاسی لیڈر کو اس بات پر یقین ہوگا کہ اگر ملک کے سیاسی منظر نامہ میں فوج نے ہی تبدیلی لانا ہے تو وہ عمران خان کا بطور وزیراعظم انتخاب کرے گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جس فوجی قیادت کو نواز شریف صرف اس لئے قبول نہیں ہیں کہ وہ ملک میں دہشت گرد گروہوں اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے معتدل اور فوج کے نقطہ نظر کے برعکس رویہ رکھتے ہیں یا یہ کہ وہ خود مختارانہ فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا ادارہ عمران خان جیسے لیڈر پر کیوں کر اعتبار کر سکتا ہے جو اس وقت اقتدار حاصل کرکے سب کچھ درست کر دینے کی دھن میں تو ضرور مبتلا ہیں لیکن وہ مزاجاً کسی کی بات سننے، دلیل سے قائل ہونے یا بااختیار اداروں کی تابعداری میں کام کرنے کےلئے تیار نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس ان کی پارٹی میں صف اول کے ایسے متعدد رہنما ضرور موجود ہیں جو اپنے ماضی کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی وفاداری اور تابعداری کا یقین بھی دلا سکتے ہیں اور ان پر بادشاہ گر طبقے یقین کرنے کےلئے بھی تیار ہوں گے۔
سیاسی سازشوں کے بیانات کے موسم میں اگر یہ قیاس کرنے کا حوصلہ کیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کے بیان اور الزام کے مطابق اگر فوج نواز شریف کو منظر نامہ سے غائب کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، اگر سپریم کورٹ اور اس کی نامزد جے آئی ٹی اب منظم طریقے سے اس مقصد کےلئے کام کر رہی ہے کیونکہ بدلتے قومی و عالمی حالات میں براہ راست آئین معطل کرنا اور مارشل لا لگانا جدید اور قابل عمل طریقہ نہیں رہا۔ لیکن فوج کی حب الوطنی یا زبردستی سے متاثر ہو کر اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور تمام ادارے یا کم از کم ان کے چنیدہ افسران فوج کو ملکی نظام پر بالا دستی رکھنے کےلئے ’’متبادل راستہ‘‘ فراہم کرنے کےلئے آمادہ ہیں۔ اس سیاسی بغاوت کے اس جدید طریقہ پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کو سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح 5 برس کےلئے منتخب ہونے کے حق سے محروم کر دیا جائے تو مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس کے برساتی مینڈک بدلتے حالات میں بھاگ کر اس سواری کو پکڑنے کی کوشش کریں گے جو درپردہ ہاتھوں کی سرپرستی کے سبب اقتدار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔ اس صورتحال میں نواز شریف اور عمران خان کے حوالے سے دو علیحدہ علیحدہ سوال جنم لیتے ہیں۔ پہلے نواز شریف کی صورتحال پر غور کرتے ہیں۔
اس سازشی نظریہ کی روشنی میں نواز شریف کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی خود مختارانہ حکمت عملی ہے جس پر عمل کی وجہ سے فوج ان سے اس قدر عاجز ہے کہ وہ عالمی طاقتوں ، سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے ساتھ مل کر ایک سازش کا جال بنے گی۔ گویا فوج کو صرف ایک پریشانی لاحق ہے کہ کسی طرح نواز شریف سے جان چھڑا لی جائے کیونکہ وہ دہشت گردی ختم کرکے بھارت سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اگر نواز شریف کا یہ موقف ہے تو اسی موقف کا اظہار تو فوج کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ بلکہ فوج تو دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کی طویل فہرست بھی فراہم کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف خود مختارانہ پالیسی اختیار کرنے کےلئے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا۔ ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق اگر وہ اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے باوجود اپنی مرضی کے فیصلے کروانے اور خارجہ اور سکیورٹی پالیسیاں اختیار کرنے کی بجائے، وہی کرنے پر مجبور ہیں جو فوج کی قیادت چاہتی ہے تو وہ مسلسل لوگوں کو یہ دھوکہ دینے پر کیوں مصر ہیں کہ وہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور عوام کی خواہشات کے مطابق ملک میں خوشحالی اور ترقی کا انقلاب برپا کرنے والے ہیں۔
اگر یہ دعویٰ وہ سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے کرتے ہیں تو انہیں اگر اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی تو اب سمجھ لینی چاہئے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ فوج کی خواہش، اعانت اور مرضی سے شروع ہوا ہے اور پاک فوج کے سربراہ ہی اس کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے رہے ہیں۔ تو اس منصوبہ کے حوالے سے نواز شریف کی خدمات دراصل فوج کی پالیسی کو آگے بڑھانے ہی کا سبب بنی ہیں۔ اگر فوج اس منصوبہ کی پشت پر نہ ہوتی تو اب تک اس کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا ہو چکا ہوتا۔ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو سازشی نظریہ کا ثبوت دینے کےلئے ان کارناموں کی فہرست فراہم کرنا ہوگی جن پر عمل کرکے انہوں نے اتنا ناراض کردیا ہے کہ فوج کو سازش کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہوچکی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں اس قوم پر رحم کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو بچانے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلئے سازشی نظریوں کا پرچار کرنے سے باز رہنا چاہئے۔
اس کے علاوہ نواز شریف اگر 30 برس سیاست میں رہنے کے باوجود بھی فوج کی سازشوں کو ہی اپنے مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر انہیں منظر نامہ سے ہٹایا گیا تو مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھر جائے گا تو یہ تو خود ان کی اپنی سیاسی حکمت عملی کا کیا دھرا ہے۔ انہوں نے بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود انہی سیاسی گھوڑوں کو اپنے اصطبل کی زینت کیوں بنایا جو موسم تبدیل ہوتے ہی موسمی بٹیروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ آخر انہوں نے پارٹی کا ڈھانچہ استوار کرنے، انتخاب کروانے، عوامی رابطہ مستحکم کرنے اور اسے اتنا مضبوط کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، نواز شریف قیادت کرے یا کوئی دوسرا شخص اس کا رہنما ہو، سیاسی پارٹی اپنے مقاصد اور اہداف کےلئے کام کرتی رہے۔ یورپ کے سارے جمہوری ملکوں کی سب سیاسی پارٹیاں اس کی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے سیاسی لیڈروں کو یہ مثالیں کیوں دکھائی نہیں دیتیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان لیڈروں کا مقصد جمہوریت یا عوامی حکمرانی نہیں اقتدار ہوتا ہے۔ مسلسل اقتدار میں رہنے کے خواہاں خانوادے اور ان کے لیڈر صرف جیتنے والے گھوڑے کی سواری پسند کرتے ہیں۔ اس لئے اگر وہ نواز شریف کے بعد عمران خان یا کسی دوسرے رہنما کے ہاتھ پر بیعت کرنے کےلئے پر تول رہے ہیں تو اس میں ان کا نہیں خود نواز شریف ہی کا قصور ہے جنہوں نے نہ سیاست سے کچھ سیکھا اور نہ اس کے ذریعے عوام کو کچھ دیا۔ البتہ بار بار اقتدار کے مزے ضرور لئے ہیں۔
اس حوالے سے اگر عمران خان کے جوش و خروش اور سیاسی عزم و حوصلہ پر بات کی جائے تو خواہ نواز شریف اینڈ کمپنی کا سازشی نظریہ کتنا ہی گمراہ کن ہو، تحریک انصاف ضرور یہ سمجھتی ہے کہ نواز شریف کے ’’نااہل‘‘ ہونے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے ہر دم اقتدار کے خواہاں لوگ اسی طرح دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہوں گے جس طرح اس وقت پیپلز پارٹی کے بعض سابقہ لیڈروں اور وزیروں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے کامیابی کا خواب دیکھنے والے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایسی صورت میں وہ بھی اقتدار میں آ کر اتنی ہی تبدیلی لا سکیں گے جتنی تبدیلی آصف علی زرداری یا نواز شریف لاتے رہے ہیں۔ تاہم اس بارے میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اگر فوج کے ’’دست شفقت‘‘ سے ہی سیاسی کامیابی مطلوب ہے تو عمران خان اپنی جولانی طبع اور ناقابل اعتبار طرز عمل کے ساتھ کیوں کر ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہوں گے۔ سازشوں اور خوش فہمیوں پر یقین کرتے ہوئے اگر یقین کر لیا جائے کہ نواز شریف سیاست سے نکال دیئے گئے اور تحریک انصاف کامیاب ہو گئی لیکن پارلیمنٹ میں یہ پارٹی عمران خان کی بجائے کسی دوسرے لیڈر کو وزیراعظم کو چن لیتی ہے تو عمران خان کیا کریں گے۔
کیا یہ توقع کی جائے کہ پاکستانی سیاست کا منظر نامہ بدلتے ہی اگر عمران خان وزیراعظم بننے میں ناکام رہے تو وہ خود کو دھکا دے کر اس عہدہ جلیلہ تک پہنچنے والے اپنے سابقہ ساتھیوں کی کرپشن کے خلاف تاحیات دھرنا دینے کا اعلان کریں گے۔