سانحہ بہاولپور کے تناظر میں ایک غزل ۔۔ گلِ نسرین
کہانی کیا آتش کی تم کو سنائیں
زمیں بھی تھی جلتی ، تھیں روتی ہوائیں
قیامت جو گزری ہے دھرتی پہ میری
ہم اس موت کو کس طرح سے بھلائیں
بلکتی ہے روہی تڑپتا ہے تھر بھی
مسلط ہوا غم ، ہیں جھلسی فضائیں
لپکتے تھے شعلے ،برستی تھی آتش
تھے جھلسے بدن اور جلی تھیں قبائیں
لہو میں ہیں بھیگے فرشتوں سے چہرے
ہیں ماتم کناں ان پہ کالی گھٹائیں
یہ غربت کے مارے مرے ہم وطن ہیں
کہ پیسے میں ان کی گھٹی ہیں صدائیں
فلک کی جبیں پر لہو کے ہیں چھینٹے
ہوا کی زباں پر سسکتی دعائیں
رکی ہیں کیا سوچیں قلم میں ترے گُل
زباں پر ہیں نوحے ، لبوں پر دعائیں
*** گلِ نسرین
فیس بک کمینٹ