یوم پاکستان کے موقع پر نئی دہلی سے آنے والے نیک خواہشات کے پیغامات کو دونوں ملکوں کے درمیان سرد تعلقات کی برف پگھلنے کی نشانی سمجھا جارہا ہے۔ بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے صدر عارف علوی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے عمران خان کے نام اپنے علیحدہ علیحدہ مراسلوں میں پاکستانی عوام کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔
اس دوران یہ خبریں بھی سامنے آچکی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک 2 ڈپلومیسی مثبت اثرات ظاہر کرنے لگی ہے اور ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں کو قریب لانے کی کوششیں بار آور ہورہی ہیں۔ اس رابطہ کاری میں وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے ہی اکتوبر میں ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’بھارت نے مذاکرات کے لئے رابطہ کیا ہے‘۔ البتہ اس وقت نئی دہلی سے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری اور لیڈروں کے تند و تیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بھارتی لیڈر پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیتے تھے جبکہ وزیر اعظم عمران خان، نریندر مودی کو ہندو انتہا پسند اور نئے دور کا فاشسٹ لیڈر کہتے رہے ہیں۔
جارحیت کے اس ماحول میں البتہ فروری میں پاکستان و بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پہ رابطے کے بعد ایک مشترکہ بیان میں 2003 سیز فائر معاہدے کی پابندی کرنے کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کے نئے دور کا نقطہ آغاز کہا جارہا ہے کیوں کہ اس سے پہلے کشیدگی اور جارحیت کے ماحول میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ کے نام سے منعقد ہونے والے سیمینار میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امن بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ آرمی چیف کے مقالہ میں تو ان نکات کی صراحت بھی کی گئی تھی جن کی بنیاد پر علاقائی مواصلت و تجارت پورے خطے کے لئے خوشحالی اور امن کا موجب بن سکتی ہے۔ پاکستان میں آرمی چیف کے ’ماضی کو بھلانے اور اپنی غلطیاں درست کرنے‘ والے بیان کا عام طور سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ نقطہ بدستور الجھی ہوئی گتھی ہے کہ یہ دونوں مقاصد کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یعنی دہائیوں کی دشمنی کو کس طرح دوستی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور آرمی چیف گھر کو درست کرنے کے جس مقصد کو اہم بتا رہے ہیں، کیا وہ چندقوانین منظور کرنے اور چند مشکوک مذہبی لیڈروں کو قید کرنے کے سوا بھی کسی حکمت عملی کا اشارہ ہے۔
پاکستانی آرمی چیف کی طرف سے دشمنی ختم کرنے کے دو ٹوک پیغام پر بھارت کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ماضی کے برعکس نئی دہلی کے کسی ترجمان نے اگر اس بیان کو درست سمت میں قدم نہیں کہا تو اسے مسترد کرنے اور اس حوالے سے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں اسے ایک اچھی خبر ہی کہا جاسکتا ہے۔ اب یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے خیر سگالی کے پیغامات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید دونوں ہمسایہ ممالک کسی حد تک کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی طرف پیش رفت کررہے ہیں۔ اس طرح ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں کے درمیان جنگ کا فوری خطرہ کسی حد تک ٹالا جاسکتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں یہ ایک خوشگوار اور خوش آئیند تبدیلی ہے لیکن اگر اسے مسائل کا حل سمجھنےکی کوشش کی جائے تو بہتری کا کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں ہے۔
عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو امن اور مفاہمت کی پیشکش کرتے ہوئے اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ملک کی سول و عسکری قیادت نے کشمیر کو بنیادی مسئلہ اور وجہ نزاع قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ بھارت پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کے الفاظ میں ’ہم اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن کوئی ڈرامائی تبدیلی اسی وقت رونما ہوگی جب بھارت مسئلہ حل کرنے کے لئے پہل کرے گا‘۔ ظاہر ہے ایسا کوئی راستہ مذاکرات کے ذریعے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ کشیدہ اور تناؤ کے ماحول میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز بھی اہم پیش رفت ہو گی۔ یا اگر اسلام آباد اور نئی دہلی ہائی کمشنروں کا تبادلہ کرنے اور سفارتی تعلقات پوری طرح بحال کرنے پر راضی ہوجائیں تو اسے بھی ایک مثبت قدم سمجھا جائے گا۔ کشیدگی اور الزام تراشی کے ماحول میں ایسے اقدامات ایک دوسرے کی بات سننے کا بہتر ماحول ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی حکومتیں اس وقت باہمی تعلقات کے بارے میں جس اعلانیہ مؤقف کی حامل ہیں، ان میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اس پوزیشن کے ہوتے کسی مفاہمت کی کوئی بنیاد بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستان نے مودی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلہ کو سختی سے مسترد کیا ہے اور اسے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس اور کشمیر عوام کی خواہشات سے متصادم قرار دیا ہے۔ تاہم کشمیر کو وفاقی اکائیاں بنانے کے بھارتی اقدام کے بارے میں احتجاج کرنے میں پاکستان تنہا ہے۔ اس کے قریب تین دوست ممالک نے بھی کسی عالمی فورم پر بھارتی اقدام کو مسترد نہیں کیا ۔ البتہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے عائد کی گئی پابندیوں اور لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ضرور احتجاج اور ناپسندیدگی کی آوازیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن کسی بھی ملک نے اس حوالے سے بھارت پر کوئی سفارتی دباؤ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر تو کشمیر کی بھارت نواز سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں اور اکتوبر 2020 کے ’گوپکار اعلامیہ‘ میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کی 5 اگست 2019 والی آئینی حیثیت بحال کی جائے اور آئین کی منسوخ شدہ شقات 370 اور 35 اے کو بحال کیا جائے۔ ان شقات کے تحت کشمیر کو ریاست کا درجہ حاصل تھا اور بھارتی فیڈریشن میں رہتے ہوئے کشمیریوں کو کسی حد تک خود مختاری بھی دی گئی تھی۔ مودی حکومت نے یہ فیصلہ واپس لینے سے انکار کیا ہے۔ تاہم اگر اندرونی دباؤ اور پاکستانی مطالبے کی روشنی میں نئی دہلی مقبوضہ کشمیر کی 5 اگست 2019 والی حیثیت بحال کرنے پر راضی ہوجائے تو کیا کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے حوالے سے پاکستان کا عہد پورا ہوجائے گا؟
اس وقت پاکستانی حکومت جس اصولی حکمت عملی پر کاربند ہے ، اس کے مطابق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر میں منعقد ہونے والا ریفرنڈم ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے چند ماہ پہلے ’خود مختار کشمیر‘ کے آپشن کی بات بھی کی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ پہلے کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں پھر انہوں نے چاہا تو پاکستان انہیں ’ خود مختار‘ رہنے کا حق دے دے گا۔ اس بیان کا دلچسپ پہلو البتہ یہ بھی ہے کہ وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ایک بار پھر واضح کیا تھا کہ کشمیر پر پاکستان کے پالیسی مؤقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
دوسری طرف کشمیر اور پاکستان کے بارے میں بھارتی حکومت کے مؤقف میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یوم پاکستان پر نریندر مودی نے عمران خان کے نام جو خیر سگالی کا خط بھیجا ہے، بظاہر اس کی زبان خوشگوار ہے اور اس میں بہترتعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو نیک خواہشات بھیجی گئی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نریندر مودی نے لکھا ہے کہ ’ہمسایہ ملک کے طور پر بھارت اہل پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے تاہم اس کے لئے دہشت و جارحیت سے پاک اعتماد کا ماحول پیدا کرنا اہم ہوگا‘۔ بھارت کی یہ وہی پوزیشن ہے جسے بیان کرتے ہوئے نئی دہلی نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر رابطہ منقطع کیا تھا۔ بھارت کا مسلسل مؤقف رہا ہے کہ پاکستان علاقے میں دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جہادی گروہوں کی امداد بھی کرتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کسی بھی بات چیت سے پہلے اس طریقہ کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان اس بھارتی مؤقف کو مسترد کرتا ہے اور اسے پاکستان دشمن پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس مقصد کے لئے کثیر جانی و مالی قربانیاں دی ہیں۔
سفارتی تعلقات میں کسی بریک تھرو سے پہلے کوئی بھی ملک اپنے اصولی مؤقف سے دست بردار ہونے کا اعلان نہیں کرتا۔ پاک بھارت تعلقات کو بھی اس پہلو سے دیکھا جاسکتا ہے اور اسلام آباد و نئی دہلی سے آنے والے بظاہر خوشگوار بیانات کو مثبت پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ’اعتماد سازی‘ کی بات کرتا رہا ہے۔ اس کا مؤقف رہا ہے کہ دونوں ملکوں کو تجارت و ثقافت میں مشترکہ منصوبوں کا آغاز کرنا چاہئے۔ اس دوران کشمیر کو بھلا کر باہمی تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ دونوں طرف کے عوام میں خیر سگالی اور تحفظ کا احساس پیدا ہوسکے۔ پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر ایسے اقدامات کو غیر ضروری سمجھتا رہا ہے۔
اب جنرل باجوہ نے علاقائی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے مواصلت و تجارت کو ترجیح دینے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ کیا یہ کام اعتماد سازی کے اسی منصوبے کے طور پر سرانجام پاسکتا ہے جس کی طرف بھارت اشارہ کرتا رہا ہے؟ مودی کا تازہ خط بھی ’اعتماد کے ماحول ‘ ہی کی بات کرتا ہے۔ برصغیر کے عوام کو جنگ کے خوف اور بھوک و افلاس سے نجات دلانے کے لئے یہ طریقہ نامناسب نہیں ہوگا لیکن کیا پاکستانی قیادت کشمیر کو قربان کرکے قیام امن کے راستے پر چلنے کے لئے آمادہ ہے؟ سرکاری طور سے اسے تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ وقت ہی یہ جواب دے گا کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں کس حد تک کشمیر کو ’کولڈ اسٹوریج‘ میں رکھنے پر اتفاق رائے پیدا ہؤا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ