پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کی اس وضاحت کے بعد کہ امریکہ میں پاکستان کے سابقہ سفیر اسد مجید کے سفارتی مراسلہ میں پاکستان کے خلاف کسی قسم کی سازش کا انکشاف نہیں ہؤا تھا اور یکم اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں سازش کی بات نہیں کی گئی تھی، تحریک انصاف یہ مؤقف سامنے لانے کی کوشش کررہی ہے کہ داخلی معاملات میں مداخلت دراصل سازش ہی ہوتی ہے۔
اس پہلو سے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ آج امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پاک فوج کے ترجمان کے بیان کی تائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں کسی ایک پارٹی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتا بلکہ پاکستان سمیت ہر ملک میں آئین و قانون کی بنیاد پر قائم حکومت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا حامی ہے۔ پاکستان میں بھی عام طور سے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ پاک فوج نے عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی سازش کے خیال کو مسترد کیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا تعلق کسی امریکی یا دوسری غیر ملکی سازش سے نہیں ہے۔ یہ رائے رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ نگار اصرار کررہے ہیں کہ اس وضاحت سے امریکہ کے ساتھ پیدا کی گئی غلط فہمیاں دور ہوسکیں گی اور عوام کے سامنے ایک شفاف تصویر آگئی ہے کہ یہ سفارتی مراسلہ کس حد پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا سبب بنا تھا۔
تاہم تحریک انصاف کے حامی عناصر آئی ایس پی آر کے بیان کو عمران خان کے اس دعوے کی تائد قرار دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی ہے۔ اس طرح اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا جارہا ہے کہ کیا کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت سازش کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے یا کسی نام نہاد مداخلت کو سازش ہی سمجھنا چاہئے کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کسی ملک کی سیاسی حکومت کو کمزور کرکے کوئی ہمدرد حکومت قائم کرنا مقصود ہوتا ہے۔
یہ طرز گفتگو حجت یا دلیل برائے دلیل کی حد تک تو درست تسلیم کیا جاسکتاہے۔ اس دلیل کے حق میں قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس کے اعلامیہ کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے سازش کے نظریہ کو مسترد کیا ہے۔ البتہ سللامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جس میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت بھی شریک تھی، جو اعلامیہ جاری ہؤا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں پاکستان کے ’اندروانی معاملات میں کھلی مداخلت‘ کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو احتجاجی مراسلہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے احتجاجی مراسلے متعدد سفارتی معاملات پر بھیجے جاتے ہیں اور اسے ملکی معاملات میں براہ راست مداخلت یا سازش قرار نہیں دیاجاسکتا۔ کیوں کہ ان کے بقول افواج پاکستان ملک کے خلاف کسی ساز ش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
تحریک انصاف کے حامیوں کے نزدیک فوج بھی کسی حد تک عمران حکومت کے خاتمہ میں حصہ دار ہے اس لئے میجر جنرل بابر افتخار کے بیان کو حقیقت حال کی وضاحت کی بجائے عمران خان سے امریکی حکومت کی ناراضی پر پردہ ڈالنے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔ ان کے مختصر اور دو ٹوک بیان سے یہ نکتہ برآمد کیا جارہا ہے کہ اگر قومی سلامتی کمیٹی نے ملکی معاملات میں مداخلت کو تسلیم کیا تھا تو اسے کیوں سازش نہ سمجھا جائے۔ بلکہ ان حلقوں کا اصرار ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس اس حوالے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے مؤقف کی تائد سمجھی جائے۔ کیوں کہ مداخلت ہوئی ہے ، اسی لئے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے چند پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہوگا۔
اول تو یہ کہ جس سفارتی مراسلہ کے بارے میں یہ ساری گفتگو کرکے سازش یا بیرونی مداخلت کا پہاڑ کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کی حقیقت کا چند لوگوں کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ موجودہ حکومت یہ مراسلہ عام ملاحظے کے لئے شائع کرنے کا فیصلہ کرلے تو بھی یہ واضح نہیں ہو گا کہ سفیر اسد مجید اور امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کے درمیان ہونے والی ملاقات میں درحقیقت کیابات چیت ہوئی تھی۔ اسد مجید کے مراسلہ میں کس حد تک ڈونلڈ لوکے کہے ہوئے الفاظ درست تناظر میں درج کئے گئے تھے اور کہاں تک انہوں نے اپنی رائے یا تجزیہ کو مراسلہ کے متن میں شامل کیا تھا۔ جب تک اس مراسلہ کا مناسب تجزیہ نہ کیا جائے اور سفیر اسد مجید حلفاً ان باتوں کی تائد نہ کریں جو عمران خان نے اس مراسلہ کے حوالے سے پھیلا کر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، اس وقت تک ان دعوؤں کو سیاسی بیان بازی اور مہم جوئی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اس معاملہ میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور عالمی سطح پر پاکستانی سفیروں کا بھروسہ و اعتبار داؤ پر لگا ہے، اس لئے کسی بھی ذمہ دار شخص کو ایک حکومتی اہلکار و محکمہ کے درمیان ہونے والی حساس مواصلت کو سیاسی داؤ پیچ کا حصہ نہیں بنانا چاہئے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے اس مراسلہ کی بنیاد پر سازش کا جو خوفناک تصور پیش کیا ہے وہ زمینی حقائق سے تیار ہونے والی تصویر کا پرتو نہیں ہے۔
یہ حقیقت اب طشت از بام ہے کہ عمران خان کی حکومت نے اس ’خوفناک امریکی سازش‘ کا انکشاف ہونے کے بعد اپنے طور پر کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی امریکہ سے کسی بھی سطح پر احتجاج کیا گیا تھا۔ حتی کہ مراسلہ 7 مارچ کو موصول ہؤا تھا جبکہ عدم اعتماد کی تحریک 8 مارچ کو پیش ہوئی۔ عمران خان نے 27 مارچ تک اس بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کسی غیر معمولی صورت حال کا ذکر نہیں کیا۔ اس دوران البتہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی حلیف پارٹیوں کو ساتھ ملانے یا منحرف ارکان اسمبلی کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں ضرور کرتی رہی تھی۔ حالانکہ اگر اسے یقین تھا کہ اپوزیشن لیڈر اور حلیف جماعتیں یا منحرف ارکان امریکی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں تو عمران خان کی حکومت کو یہ سارا معاملہ بہت پہلے عوام کے سامنے لانا چاہئے تھا۔ سازش کے انکشاف میں تین ہفتے کی تاخیر ہی یہ واضح کرتی ہے کہ اس سفارتی مراسلہ میں کوئی غیر معمولی پیغام نہیں تھا لیکن حکومت بچانے کی ہر کوشش ناکام ہونے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں امریکی سازش کا پردہ فاش کرنے کی اصل ’سازش‘ تیار کی گئی۔
سفیر اسد مجید کا مراسلہ ملنے کے بعد وزارت خارجہ یاوزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی امریکہ سے احتجاج کیا گیا۔ بلکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی 27 مارچ کے جلسہ میں سازشی مکتوب کا اعلان کرنے کے بعد طلب کیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستانی میڈیا اور ماہرین کی طرف سے اس خط کی حقیقت اور متعلقہ اداروں میں اس پر بحث کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاچکے تھے۔ ان میں سب سے اہم یہی سوال تھا کہ حکومت نے کسی غیرملکی دھمکی کے بعد فوری طور سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہیں کیا؟ اگر اس صورت حال پر عمران خان یا ان کے حامیوں کے طرز استدلال میں بات کی جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کے کچھ عناصر بھی اس ’غیر ملکی سازش‘ کا حصہ تھے کہ اس پر رد عمل دینے میں تین ہفتے انتظار کیا گیا حالانکہ حکومت کو خطرہ لاحق تھا اور قومی اسمبلی میں اکثریت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد پر متحد ہوچکی تھی؟
ملکی معاملات میں کسی دوسرے ملک مداخلت یا اس تاثر کے بعد کہ حکومت کو قومی مفاد داؤ پر لگتا دکھائی دے رہے تھا تو وزارت خارجہ نے کیوں امریکی سفیر کو طلب کرکے اس اہم معاملہ پر بات نہیں کی اور حکومت کا احتجاج رجسٹر نہیں کروایا؟ بلکہ اس معاملہ کو اب عمران خان جس طرح قومی آزادی و خود مختاری کا معاملہ بنا کر پیش کررہے ہیں تو انہیں یہ جواب بھی دینا چاہئے کہ وہ بطور وزیر اعظم اسے اپنی ذات پر حملہ ہی کیوں سمجھتے رہے اور اسے قومی مفاد کے برعکس کارروائی سمجھ کر متعلقہ ملک کے سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کا اقدام کیوں نہیں کیا گیا ۔تاکہ امریکہ کو بھی خبر ہوجاتی کہ پاکستانی حکومت داخلی معاملات کے بارے میں کس قدر حساس ہے اور قومی خود داری کی حفاظت کے لئے مشکل اور ناخوشگوار فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ عمران خان کی حکومت کو امریکہ سے احتجاج کرنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب کرنا پڑا؟
مختلف اشاریوں سے حالات کی جو تصویر بنتی ہے اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے واضح آثار دیکھ کر قومی سلامتی کمیٹی کی تائد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اجلاس میں فوج اور آئی ایس آئی کی قیادت نے اس مراسلہ کو کسی حکومت مخالف سازش کی بنیاد ماننے سے انکار کردیا جبکہ حکومتی ارکان یہ کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح فوج مراسلہ پر حکومتی مؤقف کی حمایت کردے۔ کسی براہ راست تنازعہ سے بچنے کے لئے اس موقع پر ’ملکی معاملات میں کھلی مداخلت ‘ کی اصطلاح استعمال کرکے عمران خان کی حکومت کو فیس سیونگ کا موقع فراہم کیا گیا۔ عمران خان چونکہ کسی بھی قیمت پر اقتدار سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار نہیں تھے ، اس لئے انہوں نے سازشی نظریہ ترک کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے خلاف آئین رولنگ کا اہتمام کیا اور تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی طریقہ سے مسترد کروادیا۔ اس تحریک پر بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر ووٹنگ ہوئی اور عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی۔
3 اپریل اور اس کے بعد حکومت مسلسل سفارتی مراسلہ کو امریکی سازش کے طور پر فروخت کرتی رہی لیکن اس خط کے بارے میں قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ اگر امریکہ ہی اپنے ہرکاروں کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا منصوبہ ساز تھا تو 27 مارچ کو جلسہ عام میں اس کا انکشاف کرنے کی بجائے کیا بہتر نہ ہوتا کہ عمران خان بطور قائد ایوان قومی اسمبلی میں اس خط کے بارے میں بات کرتے اور اپنے ساتھی ارکان سے حمایت کی اپیل کرتے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کو بتایا جاتا کہ کیسے ہم سب مل کر ایک خطرناک غیرملکی سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یہ اقدام نہیں کیا گیا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سفیر اسد مجید کا مراسلہ معمول کی سفارتی مواصلت تھی اور اس میں پاکستان کی حکومت گرانے یا پاکستان کو خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کے لئے کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔ عمران خان اگر قومی اسمبلی میں اس مراسلہ پر بات کرتے تو انہیں امریکہ پر عائد کئے گئے الزامات ثابت بھی کرنا پڑتے۔ عمران خان یا ان کی حکومت کے پاس ایسے کوئی ثبوت موجود نہیں تھے۔
امریکہ و اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور ممتاز صحافی و تجزیہ نگار ملیحہ لودھی نے سفارتی مواصلت کوپروپیگنڈا کی بنیاد بنانے کے طریقہ کو بین املکی تعلقات کے لئے مہلک قرار دیا ہے۔ سیاسی کامیابی کے لئے سیاست کو گالی بنانے کے بعد اب پاکستانی لیڈروں کو ذاتی مفادات کے لئے ملکی سفارتی تعلقات داؤ پر لگانے کا خطرناک کھیل کھیلنے سے گریز کرنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ