امریکی صدر کے متعدد بیانات کے باوجود جنہوں نے بھارت مخالف سنائی دئے جانے کی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت کو خوش رکھا، میں ایک لمحے کو بھی اس مغالطے میں مبتلا نہیں ہوا کہ بھارت کو ٹرمپ کا امریکہ اپنے سے جھٹک کر روس کے سپرد کردے گا۔ امریکہ کی جانب سے بھارت نوازی کے سلسلے رواں صدی کے آغاز سے قبل 1990ء کی دہائی کے آخر میں ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان دنوں پاکستان سے زیادہ میرا وقت بھارت میں پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں صرف ہوتا تھا۔ نرسمہا رائو بھارت کے کمزور اکثریت والے وزیر اعظم تھے۔ اپنے ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے انہیں بھارتی خزانے میں موجود سونے کو گروی رکھنا پڑا۔ سوناگروی رکھنے کے بعد وہ عالمی مالیاتی اداروں کے چہیتے من موہن سنگھ کو طاقت ورترین مشیر خزانہ لگانے کو مجبور ہوئے۔ نہرو کی کانگریس ہی نے لہٰذ ا نہرو کے متعارف کردہ ’’سوشلزم‘‘ کی، جو درحقیقت معیشت پر سرکار کے کامل کنٹرول کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے ’’پرمٹ راج‘‘ کہلاتا تھا، نفی شروع کردی تھی۔
کانگریس کا ’’سوشلزم‘‘ کو بھلاکر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی نگرانی میں چلائے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننا علمی بحث کا تقاضہ کرتا تھا۔ محض پاک-ہندو تعلقات پر نگاہ رکھنے کو مامور مجھ جیسا رپورٹر اسی تناظر میں تبصرہ آرائی کے قابل نہ تھا۔ کلنٹن کے دوسرے دورِ حکومت میں دلی میں جو سیمینار وغیرہ ہوتے ان میں امریکہ سے عالمی امور کے مبصرین بہت چائو سے بلائے جاتے۔ ایسے سیمیناروں میں شرکت کی بدولت مجھے احساس ہونا شروع ہوا کہ معاملہ بھارت کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنانے تک ہی محدود نہیں۔ اسے نہایت ہوشیاری سے چین کے مقابل لانے کی تیاری ہورہی ہے۔
کلنٹن کے بعد بش آیا تو جنرل مشرف کو افغانستان پر مسلط ہوئی ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ جنگ کے باوجود ’’بڈی‘‘ (گہرادوست) کہتے ہوئے بھی وہ بھارت کے نخرے اٹھاتا رہا۔ کنڈولیزارائس اس کی پالیسی سازی میں اہم کردار کی حامل تھی۔ اس کی بدولت بھارت کو دیگر ممالک سے ’’پرامن مقاصد‘‘ کی خاطر یورینیم کی افزودگی اور اس کے مختلف الجہتی استعمال کے لئے درکار آلات خریدنے کی سہولت فراہم کردی گئی۔ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے امریکہ کا نیٹو میں شریک ہوئے بغیر ’’اتحادی‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’نان نیٹو اتحادی‘‘کا درجہ بھی لیکن ہمیں یورینیم کی افزودگی اور استعمال کے لئے ویسا معاہدہ فراہم نہ کرسکا جو بھارت نے افغانستان کے تناظر میں امریکہ کی کسی بھی نوعیت کی حمایت فراہم نہ کرنے کے باوجود حاصل کرلیا۔ اسی دور میں بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی گہرے سے گہرے ہونا شروع ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد ’’دراندازی اور تخریب کاری‘‘ کو روکنے کے نام پر بھارت کو اسرائیل نے اپنے جاسوسی ماہرین اور جدید آلات کے ذریعے بے مثال مدد فراہم کی۔ اسرائیل اور بھارت کے مابین تعلقات آج اس دور سے کہیں گہرے ہوچکے ہیں اور اسرائیل امریکہ کا قریب ترین حلیف ہے۔
کلنٹن اور بش کے برعکس ڈونلڈٹرمپ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں بھارت کے مزید قریب آتے ہوئے نریندر مودی کا ’’ذاتی دوست‘‘ بھی ہوگیا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی انتخابی مہم میں حصہ ڈالنے کے لئے پہلے ٹیکساس اور بعدازاں مودی کے آبائی گجرات میں جلسوں سے خطاب کیا۔ مودی کے ناز نخرے اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ اقتدار کا آغاز پاکستان کو برابھلا کہنے سے شروع کیا۔ لفظی گولہ باری کے بعد اس نے اپنے ایک قریبی سینیٹر لنڈسی گراہم کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کو وائٹ ہائوس بلوایا۔ ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے یہ داستان سنائی کہ جاپان کے شہر اوساکا میں بھارت کے وزیر اعظم نے اس سے درخواست کی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرے۔ بھارت نے نہایت مکاری سے فقط ایک مختصر بیان کے ذریعے مذکورہ دعویٰ کی تردید کی۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے کے لئے البتہ ایک جامع منصوبے پر کام شروع کردیا۔ مذکورہ منصوبے کی تیاری کے دوران محض بھارتی اخبارات اور یوٹیوب چینلوں کی بدولت جمع کی معلومات کی بنیاد پر میں ان کالموں میں متنبہ کرتا رہا کہ آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ دو ٹکے کے رپورٹر کی فریاد پر ہمارے حکمرانوں نے مگر توجہ ہی نہ دی۔ بالآخر اگست 2021ء میں وہ ہوگیا جس کا مجھے اندیشہ تھا۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاؤ س لوٹنے کے بعد اکثر لوگوں کو شبہ تھا کہ وہ پاکستان کے لئے خطرناک حد تک مودی کے بھارت کے زیادہ قریب ہوجائے گا۔ اس حوالے سے امریکہ میں مقیم عاشقانِ عمران اپنی ترجیحات سے مغلوب ہوئے ضرورت سے زیادہ ’’پرامید‘‘تھے۔ یہ بات فراموش کرگئے کہ امریکہ اگر واقتعاََ ’’جمہوریت‘‘ کا دلدادہ ہوتا تو ہمارے حالیہ ماضی میں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف اس کے پسندیدہ ترین حلیف نہ رہے ہوتے۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عاشقان کو مایوس کیا مگر ہم پاکستانیوں کی اکثریت اس سے خوش ہونا شروع ہوگئی۔ رواں برس کے مئی میں ہوئی پاک-بھارت جنگ کو ’’ایٹمی‘‘ ہونے سے روکنے کے لئے اس نے حقیقتاََ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نریندر مودی انتہائی ڈھٹائی سے مگر ٹرمپ کا اس ضمن میں ادا کیا کردار جھٹلاتا رہا۔ خوشامدی آوازوں کا عادی ٹرمپ مودی کی ڈھٹائی سے چڑگیا۔ میرے حساب سے تقریباََ 53مرتبہ یہ کالم لکھنے تک امریکی اور بین الاقوامی فورموں پر یہ دعویٰ دہراتا رہا ہے کہ پاکستان نے مئی کی جنگ میں بھارت کے 7جہاز گرائے تھے۔ جنگی حقائق کے مسلسل ذکر سے ٹرمپ بھارت کی سبکی تک ہی محدود نہیں رہا۔ اس ملک سے امریکہ آئی برآمدات پر 50فی صد ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے بھارتی معیشت کو بھی زک پہنچانے کو ڈٹ گیا۔ ٹرمپ کا بنیادی گلہ یہ ہے کہ بھارت روس سے تیل خرید کر اس کے لئے یوکرین پر مسلط کردہ جنگ جاری رکھنے کے لئے ’’سرمایہ‘‘ فراہم کررہا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ روس سے بھارت ایک قطرہ تیل بھی خریدے۔ روسی تیل اگرچہ بھارت سے کہیں زیادہ چین خریدتا ہے۔ چین کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے سے ٹرمپ مگر ابھی تک آمادہ نہیں۔ اپنے ہاں کی ٹیک انڈسٹری اور خصوصاََ مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کے لئے اسے چین کی بنائی ’’چپس‘‘ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ زمین سے نکالی معدنیات ہیں جن پر چین کا فی الوقت اجارہ ہے۔بھارت کی ایک ارب سے زیادہ افراد پر مبنی ’’منڈی‘‘ کوبھی لیکن کاروباری ذہنیت کا حامل ٹرمپ زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کرسکتا۔
اسی باعث منگل کی رات سے سرگوشیوں میں خبر گھومنا شروع ہوگئی تھی کہ مودی اور ٹرمپ کے مابین دیوالی کے تہوار کے بہانے ٹیلی فون پر جو گفتگو ہوئی اس کے نتیجے میں ’’جلد ہی‘‘ امریکہ بھارت سے درآمد ہوئی اشیاء پر ڈیوٹی کے حوالے سے نرمی دکھائے گا۔ اس تاثر کو یقینی بنانے کے لئے ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں دیوالی منانے کی ایک تقریب بھی منعقد کی۔ وہاں موجود مہمانوں میں ایف بی آئی کا بھارت نڑاد سربراہ اور امریکہ میں بھارتی سفیر بھی موجود تھے۔
مجھے یقین ہے کہ مودی اور ٹرمپ میں ’’مک مکا‘‘ ہوگیا تو ہمارے ہاں کئی افراد مایوس ہوئے طعنہ زنی پر اترآئیں گے۔ سفارت کاری کو محض سفارت کاری کے طورپر ہی لیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو دوست بناتے ہوئے امریکہ نے ماضی میں بھی بھارت کو کبھی مخاصمت کی حد تک ناراض نہیں کیا۔ فقط صدر نکسن کے دور میں اندراگاندھی کی حکومت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کسی حد تک مخاصمانہ ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود جب اندرا نے ماضی کے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ ہماری مدد کو نہیں آیا۔
امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت،چین کے ساتھ دوستی اور وسطی ایشیاء تک رسائی کی بدولت پاکستان کی اپنی اہمیت ہے۔ اسے بھارت کے تناظر میں رکھ کر جانچنا حماقت ہے۔ ٹرمپ کو سکول کے بچوں کی طرح اس امر کو مجبورنہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہمارا دوست رہے یا بھارت کا۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

