آج کے روز نامہ دنیا میں میں کنور دلشاد صاحب لکھتے ہیں
“سویلین اور عسکری قیادت کے بارے میں مثبت سوچ کی بجائے ان کے بارے میں منفی تاثرات کو بعض حلقے بہت زیادہ ہوا دیتے ہیں۔ دونوں طرف سے کچھ انتہا پسند حلقے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ان باتوں کا فوری تدارک کریں کیونکہ ان کی کابینہ میں بعض وزرا بھی افواج پاکستان کے بارے میں وہی باتیں کرتے ہیں جو پرویز رشید، عطا الحق قاسمی اور احسن اقبال وقتاً فوقتاً کرتے آئے تھے”۔
کنور دلشاد 33 برس تک پاکستان الیکشن کمیشن سے وابستہ رہے۔ مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے دسمبر 1977 سے لے کر 2008 تک پاکستان کے تمام عام انتخابات اور ریفرنڈم وغیرہ کے بندوبست میں براہ راست دخیل رہے۔ 2009 میں کمیشن کے سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنور دلشاد نے کالم نویسی شروع کی۔ کالم بنیادی طور پر ذاتی رائے کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ کالم نویس کے باطن میں جھانکا بہت آسان ہوتا ہے۔ یہاں ادب کا وہ معروف حجاب بھی میسر نہیں ہوتا جس کی مدد سے ادیب اپنی رائے کو اپنے کرداروں کے منہ میں ڈال کر خود پرے کھڑا ہو جاتا ہے۔
کنور دلشاد کی تحریروں میں صاف معلوم ہو گیا کہ ضیا آمریت اور مشرف آمریت نیز بیچ کے دس سالہ جمہوری عبور کے دوران ہماری انتخابی قسمت کن ہاتھوں میں رہی۔ انتخابی عمل کا انصرام کرنے والے خود جمہوریت کے بارے میں کن خیالات اور رجحانات کے حامل تھے۔ اس ضمن میں ہو سکتا ہے کچھ پڑھنے والوں کو ڈپٹی سیکرٹری (الیکشن کمیشن) افضل قذافی بھی یاد آئیں۔ 2013 کے الیکشن میں افضل قذافی صاحب کا اضطراب بہت سی ان کہی کہانیاں سناتا رہا۔
اوپر دیے گئے اقتباس ہی میں دیکھ لیں۔ دلشاد صاحب خود لکھ رہے ہیں کہ ان کی رائے میں انتہا پسند دونوں حلقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کھلی نشاندہی کے بعد وہ وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو قابو میں رکھیں۔ لکیر کی دوسری طرف یہی مشورہ دینے کا حوصلہ کنور صاحب میں نہیں۔ اور پھر مثالوں پر ایک نظر ڈالیے۔ پرویز رشید، عطا الحق قاسمی اور احسن اقبال۔۔۔ اپریل 2014 کے بعد سے پرویز رشید کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر ڈان لیکس کا جال بچھا کر اکتوبر 2016 میں وزارت سے محروم کیا گیا۔ سرکاری منصب کی اوٹ سے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے شوقین مجہول منصف کی مدد سے عطا الحق قاسمی کی ناحق تذلیل کی گئی۔ احسن اقبال پر مئی 2018 میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ غالب نے شاید اسی طرح کی صورت حال یہ شعر کہا تھا
کھلتا کسی پہ کیونکر مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
کنور دلشاد کا عمران خان سے یہ مطالبہ حیران کن ہے کہ وہ اپنے وزیرو ں کو فوج کے خلاف گفتگو کرنے سے روکیں۔ گویا کنور صاحب نے عمران خان صاحب کی اپنی وڈیو نہیں دیکھی جس میں انہوں نے 20 ہزار کے مجمعے اور پتلونوں وغیرہ کا ذکر کیا تھا۔
کنور دلشاد خاطر جمع رکھیں۔ ریاست اور جمہور کی کشاکش میں ان کا کردار بالکل واضح ہے۔ تاریخ ان کے بارے میں بھی اسی طرح اپنا فیصلہ دے گی جیسے میر نور احمد، الطاف حسین، علی احمد راشدی، زیڈ اے سلہری، ابن حسن، لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن اور راشد قریشی کے بارے میں تاریخ کی رائے لوح سنگی پر محفوظ ہے۔
دیکھئے اگر کنور دلشاد مثالوں کی مدد سے اپنی بات واضح کر سکتے ہیں تو یہ سہولت دوسروں کو بھی دستیاب ہے اور لطف یہ کہ ہمیں اس پر زیادہ غور بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ناموں کی ایک طویل فہرست ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ میری تاریخ ندامت کی ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ