آج بیس جنوری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو ایک برس مکمل ہو گیا۔ امریکی صدر آج شام فلوریڈا میں ایک زبردست پارٹی دے رہے ہیں۔ کوئی بھی امریکی اگر ایک لاکھ ڈالر ضائع کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس پارٹی میں شریک ہو سکتا ہے۔ اڑھائی لاکھ ڈالر دینے والے گفتگو میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ ایک برس پہلے امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ بھانپنے میں دنیا کے بیشتر تجزیہ کاروں کو زبردست ناکامی ہوئی۔ پاکستان کا ایک چھوٹا سا صحافی ہونے کے ناتے میں بھی اس جم ندامت میں شامل تھا۔ امریکہ کے بارے میں میرا تجزیہ بالکل غلط ثابت ہوا۔ تاہم پاکستان کے بارے میں میرے تجزیے بڑی حد تک درست رہے۔ گذشتہ ایک برس میں پاکستان کے لوگوں نے پتھریلے اور گرد آلود میدان میں جم کر زناٹے کی لڑائی لڑی ہے۔ چوٹ کھائی، زخم اٹھائے، رنج کھینچے لیکن ہار مان کے نہیں دی۔ ہمارے جمہوری تجربے کے لیے 28 جولائی ایک خوفناک دن تھا۔ لیکن اس کے بعد کے چھ مہینے میں اہم کامیابیوں ملی ہیں۔ نااہل قرار پانے والا وزیر اعظم دارالحکومت سے جی ٹی روڈ کے راستے روانہ ہوا۔ تین سو کلومیٹر کا یہ سفر ایک بڑی کامیابی تھا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں ضمنی انتخاب کا اصل نتیجہ محض ووٹوں کی تعداد سے طے نہیں ہوا، سترہ ستمبر کی شام لاہور کی گلیوں میں نظر آیا۔ ایک اہم کامیابی یہ رہی کہ مسلم لیگ نواز میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی۔ اسے بھی کسی نہ کسی کی شکست ہی شمار کیا جائے گا۔ پارلیمینٹ میں حلقہ بندیوں کے قانون کی منظوری کٹھن حالات میں منتخب نمائندوں کی جیت تھی۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو چکوال کے بارانی حلقے میں پوری ہو گئی۔ 17 جنوری کی شام لاہور کے لوگوں نے اپنے گھروں میں رہ کر طاہرالقادری اور ہم نواؤں کو بھرپور پیغام دے دیا۔ جمہوریت کی لڑائی میں شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ Defeat is simply not an option.
استاذی آئی اے رحمن کی خدا عمر دراز کرے۔ مشفق و مہربان نے بات کی یا قلم اٹھایا، ہمیشہ سننے اور پڑھنے والوں کو روشنی دی۔ استاد محترم نے جنوری 1977 میں ایک مضمون لکھا تھا۔ عنوان تھا۔ ’چئیرمین بھٹو، شاید میں اب بھی آپ ہی کو ووٹ دوں….‘۔ استاد محترم کی چالیس برس پرانی تحریر اس وقت یاد آئی کیونکہ تحریک انصاف کے حامی سمجھتے ہیں کہ 2018ءمیں عمران خان کا وزیر اعظم بننا یقینی ہے۔ ووٹوں کی مطلوبہ گنتی حاصل کر لی جائے تو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ لیکن عمران خان دلوں کا وزیر اعظم بننے کی شرائط پر پورے نہیں اتر رہے۔ عمران خان کے اکثر حامی اپنے رہنما کی مخالفت کرنے پر اندھا دھند ٹوٹ پڑتے ہیں۔ واضح کرنا چاہیے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے اس ملک کے قابل احترام شہری ہیں، انہیں اپنے رہنما سے محبت کرنے کا پورا حق ہے لیکن عمران خان کی مخالفت کرنے والے شہری محض اختلاف رائے کی بنیاد پر مردود قرار نہیں پاتے۔
سیاست ایک پیچیدہ انسانی سرگرمی ہے جو ذہانت کا اعلی ترین معیار مانگتی ہے۔ عمران خان کی ذہانت کے بارے میں ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔ انہیں کرکٹ کے میدان میں داؤ پیچ، پیشہ ورانہ مہارت کے لیے جانا جاتا ہے۔ کھیل کے میدان میں ان کی دیانت بھی ضرب المثل رہی ہے۔ تاہم وہ ذاتی پسند اور ناپسند کی کمزوریوں سے ماورا نہیں رہے۔ مزاج کے اعتبار سے ان کا غصہ بھی کرکٹ کے میدان میں ایک دنیا نے دیکھ رکھا ہے۔ سیاست اگر محض دیانت کا نام ہوتا تو پاکستان میں لاکھوں بینک چل رہے ہیں۔ ان بینکوں کے چوکیدار نہایت دیانت دار ہیں۔ انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دینا چاہیے۔ سیاست دیانت کے علاوہ معاملہ فہمی کا تقاضا کرتی ہے۔ معاملہ فہمی میں عمران خان اپنا رنگ نہیں جما پائے۔
سیاست میں معیشت کی فکر کرنا ہوتی ہے۔ معاشرت کے الجھاؤ سے راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ آئین اور قانون کی نزاکتیں ہیں۔ دنیا کے نقشے پر آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے، مجال ہے، جو معیشت پر کبھی ڈھنگ سے بات کی ہو۔ معاشرتی معاملات میں ان کی ذہنی سطح گاؤں کی پنچایت سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر ایک تقریر وہ نہیں کر سکے۔ ان کا انتظامی معاملات میں تجربہ صفر ہے۔ انہوں نے وفاق چھوڑ، صوبے میں بھی کبھی کسی وزارت کا قلمدان نہیں سنبھالا۔ عالمی امور پر ان کی گرفت لنگر گپ سے کشید کردہ ہے۔ بین الاقوامی اشرافیہ سے میل جول تسلیم لیکن عالمی امور میں ایسی مہارت کہ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کو کڑوی گولی قرار دے کر منظور فرماتے ہیں۔ اگرچہ اپنے ملک کے سابق صدر کے ساتھ ایک سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے۔ گمان کرنا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مشیروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے ایسا دعوت نامہ لکھا جائے جو خان صاحب کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے۔
عمران خان کے بارے میں تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی جمہوری روایت میں رچے بسے نہیں۔ ڈنڈے کھانے اور جیل جانے کی روایت تو ایک طرف، عمران خان آئینی ڈھانچہ بھی نہیں سمجھتے۔ تین برس تک قانون کا سامنا کرنے سے گریز کرتے رہے اور جب عدالت میں پیش ہوئے تو تیسری سماعت پر چیں بول گئے۔ اپنے وکیل کو کھری کھری سنا دیں۔ پاکستان کے وفاق کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہم نے اپنے آئینی سفر میں ان گنت گرم سرد دیکھ رکھے ہیں۔ عمران خان وفاقی اکائیوں کی نمائندہ قیادت کو زبان کی ایک جنبش سے گویا ملیامیٹ کر دیتے ہیں۔ خان صاحب کے لب و لہجے میں ایسی قطعیت پائی جاتی ہے جو سیاست میں نقصان دہ ہوتی ہے۔
بھارت کی سیاسی قیادت سے معاملت پہ اعتراض کرنے والے عمران خان دہشت گردی کے سوال پر ایک بھارتی صحافی کے سامنے قدم نہیں ٹکا سکے۔ ایک مرتبہ وزیرستان کا قصد کیا تھا۔ آدھے راستے سے واپس پلٹ آئے۔ کسی نے بتا دیا ہو گا کہ درہ خیبر کے پار تیتر کا شکار نہیں کھیلا جا رہا۔ عمران خان صاحب کو میڈیا پر نظر آنے کا بہت شوق ہے۔ سیاست دان کم گو ہوتے ہیں، خان صاحب اتنا بولتے ہیں کہ سانس پھول جاتی ہے۔ جملے کا ربط ختم ہو جاتا ہے۔ سیاسی رہنما برفانی گلیشئیر کی طرح نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ عمران خان نے سینکڑوں گھنٹے منظر پر رہ کر سارے نفسیاتی داؤ پیچ عیاں کر دیے ، سب پینترے افشا کر دیے۔ اوسط درجے کا ایک ماہر نفسیات ان کے آر پار دیکھ سکتا ہے۔ ان کی کامیابی معلوم شد….
پاکستان کی جمہوری روایت سیدھی سڑک کی مسافت نہیں۔ بھٹو آٹھ برس تک ایوب آمریت کے نفس ناطقہ رہے، پھر چار سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف نے سیاست کا آغاز ضیا آمریت سے کیا۔ پنجاب کی وزارت خزانہ سے وزارت عظمیٰ تک کون سا سمجھوتا نہیں کیا۔ وقت نے بتایا کہ پاکستان کے لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کا راستہ ہئیت مقتدرہ سے انحراف کی گلی میں ہے۔ اس سرکشی کی عمران خان کو کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ عمران خان نادیدہ قوتوں کی سازش کا مہرہ بن کے رہ گئے ہیں۔ سیاست میں عمران خان اس مقام سے آگے نہیں بڑھ رہے جو ملٹری سائنس میں جنرل حمید گل کا تھا۔ اس کھیل میں نوجوان ترپ کا پتہ تھے۔ عمران خان نوجوانوں کے لیے بھی کوئی مربوط بیانیہ مرتب نہیں کر سکے۔ ان کی ذاتی زندگی کا احترام واجب لیکن ان کی مردم شناسی پر سوالیہ نشان ہیں۔ اقتدار کا فیصلہ تو پاکستان کے لوگوں کو اپنے ووٹ سے کرنا ہے لیکن میں ابھی عمران خان کو ووٹ دینے سے قاصر ہوں۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ)