”منو بھائی تمہیں بدلنا نہیں۔ تم ایسے ہی سوکھ جاؤ گے، جیسے کھجور سوکھ کر چھوارہ بن جاتی ہے‘‘۔ بہاولپور کے ایک شاعر نے منو سے کہا ۔اس کے دبلے پتلے جسم میں کمزورہونے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ موٹا وہ ہونا نہیں چاہتا تھا۔اپنے دبلے پتلے ہونے پر اس نے کبھی فخر نہیں کیا تھا۔وہ محفلوں میں کسی سرسراہٹ کے بغیر یوں آجاتا، جیسے چپکے سے بہارآجائے۔اس کے ساتھ جان پہچان ، کبھی دوستی، کبھی بے اعتنائی کا رشتہ رہا۔
آئے تو ایسے جیسے ہمیشہ سے مہرباں
اٹھے تو ایسے جیسے کبھی آشنا نہ تھے
ہم نے یہ کھیل پچاس برس کھیلا۔ہماری بے تکلفانہ ملاقاتیں نصف صدی سے بھی زیادہ رہیں۔نہ کبھی قریب آئے اور نہ کبھی دور ہوئے۔وہ سوسائٹی میں اپنے لئے فیض جیسا مقام چاہتا تھا جو اسے ملتا نہیں تھا۔ جتنی پذیرائی اس کی ہوتی، وہ اے کلاس سے بہتر ہوتی۔60ء کا عشرہ تھا ، جب کراچی میں مجھے شادی ہو گئی۔آج تک صحت یاب نہیں ہو سکا۔شادی کے خمار میں ہنی مون منانے کے لئے راولپنڈی جا پہنچا، جب اسلام آباد ابھی جنم لے رہا تھا۔ وہاں جن دوستوں سے ملا ان میں پہلا شخص ، منو بھائی تھا۔ مال روڈ پر جو بہترین ریسٹورنٹ تھا، اس کا نام مجھے بھول گیا۔وہیں پر منو بھائی نے مجھے اور میری بیوی کو ایک پر تکلف دعوت دی۔میں نے اس سے پوچھا ” کیاتم بل دے لو گے؟‘‘
”اگرآرڈر میں نے دیا تو پھر شاید دینا مشکل ہو جائے ۔ تم نے جسارت کر دی تو پھر خمیازہ بھی تمہیں ہی بھگتنا ہو گا‘‘۔
میری نئی نویلی بیوی کو چوتھائی صدی پرانے دوستوں کی ، بات چیت میں دخل اندازی کرنے کا، شوق چڑھ آیا اور منو بھائی سے کہا”اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں ، آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟‘‘
منو بھائی نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کہا”شوق نال پچھو‘‘۔
پوچھا گیا”کیا آپ کی بیگم بھی آپ کو پورے نام سے بلاتی ہے؟‘‘
منو نے وہ جواب دیا جو پتہ نہیں کتنے دوستوں کی بیویاں، اس سے پوچھ چکی ہوں گی اور منوبھائی کا یہ سکہ بند جواب تھا ” بھائی میرے نام کا حصہ ہے۔ منو کہہ لیں یا بھائی کہہ لیں‘‘۔
ان دنوں منو راولپنڈی کے ایک مقامی اخبار میں صحافتی خدمات انجام دیا کرتا تھا۔ کبھی کبھار روزنامہ” امروز‘‘ میں پنجابی کی نظمیں بھیج دیتا، جو پسند کی جاتیں۔ روزنامہ” امروز‘‘ کے پنجابی صفحے کا عنوان تھا ”گل بات‘‘۔اس زمانے میں انگریزی کا ایک روزنامہ ” پاکستان ٹائمز‘‘ تھا۔اردو روزنامہ ”امروز‘‘ تھا اور ہفت روزہ” لیل و نہار‘‘۔ان سارے اخباروں کے چیف ایڈیٹر فیض صاحب تھے۔وہ شاعروں اور ادیبوں کو اکثر فرمائش کرتے کہ ”پنجابی وچ وی لکھ لیا کرو‘‘۔ میں ادب کی دنیا میں ایک گم شدہ بچے کی طرح تھا اور فیض صاحب میرے لئے دنیا کے سب سے بڑے آدمی۔ ان کی فرمائش سن کر جھوم اٹھا اور ساری رات پنجابی نظم یا غزل لکھنے کے لئے کروٹیں بدلتا رہا۔ کسی کروٹ نے میری حوصلہ افزائی نہ کی۔دنیا میں کوئی کام آسان نہیں ہوتا۔پنجابی کے شعر لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ اردو شاعر ی تو کرتا ہی تھا، پنجابی میں بھی دخل اندازی کر دی۔ صبح تک جو کچھ میرے ہاتھ آیا۔ وہ پنجابی کی ایک غزل تھی۔میں نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور اپنی غزل لے کر فیض صاحب کے پاس جا پہنچا۔انہوں نے حوصلہ شکنی سے مجھے بال بال بچایا۔غزل پڑھی۔میری طرف دیکھا اور غزل کاکاغذ بڑھاتے ہوئے یہ لفظ ادا کئے ”اچھی ہے۔طبع آزمائی کرتے رہو‘‘۔ راولپنڈی میں منو بھائی کے شوق کی حدیں ختم ہو چکی تھیں۔”امروز‘‘ میں اس کی پنجابی نظمیں ہفتے دو ہفتے میں شائع ہوتی رہیں اور اس کے قدر دانوں اور پرستاروں میں اضافہ ہوتا گیا۔ لاہور میں یوں تو بہت لوگ اسے جانتے تھے۔ اب وہ بنفس نفیس ادبی محفلوں میں باقاعدگی سے آنے لگا۔ حلقہ ارباب ذوق کی ہفتہ وار محفلیں وائی ایم سی اے میں ہوتیں، جو پہلے فلور پر ہوا کرتی تھیں۔ اسی عمارت میں گراؤ نڈ فلور پر ایک پنجابی تنظیم کی ہفتہ وار محفلیں منعقد ہوتیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد دامن زندہ تھے۔ منو بھائی کے ساتھ جا کر پتہ چلا کہ لاہور میں تو پنجابی شعر و ادب کی زبردست محفلیں ہوتی ہیں ۔ آغا ناصر جو کراچی میں پہلے ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے، ان کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا اور یہاں ان کی دوستی کی پتنگ بہت اونچی اڑی۔ آغا صاحب لاہور آئے تو انہوں نے منو بھائی سے فرمائشیں شروع کر دیں۔ منو بھائی نے آغا صاحب کو مایوس نہیں کیا۔ منو کسی کو بھی مایوس نہیں کرتا تھا۔پی ٹی وی لاہور والوں نے منو سے بہت اچھے اچھے ڈرامے لکھوائے ۔ جن میں کئی بے حد مقبول ہوئے۔خود منو کو ”سونا چاندی‘‘پسند تھا۔اسی طرح جو مقبول ترین ڈرامہ پی ٹی وی سے چلا اس کا نام”وارث‘‘تھا۔امجد اسلام امجد کا یہ ڈرامہ بھی بے تحاشا مقبول ہوا۔جب یہ ڈرامہ نشر ہونے کا دن اور وقت آتا تو پاکستان کے تمام شہروں میں ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے بازاروں میں ہڑتال ہو جاتی۔ہر کوئی”وارث‘‘دیکھنے کے لئے گھروں کو چلاجاتا۔تیسری مقبول ترین ڈرامہ سیریزعطاالحق قاسمی کی تھی۔ اس ڈرامے کا عنوان”خواجہ اینڈ سنز‘‘ تھا۔
منو جب راولپنڈی میں تھا تو کافی ہکلاتا تھا۔لیکن لاہور میں آنے کے بعد اس کی ہکلاہٹ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ گزشتہ تھوڑے عرصے سے وہ محفلوں میں بغیر کسی ہکلاہٹ کے تقریریں بھی کرتا اور شاعری بھی روانی سے سناتا۔زندگی ہکلاتے گزاری اور جب روانی سے بولنا آیاتو منو بھائی چل دیا۔عام لوگوں کی طرح میں بھی موت سے لاتعلق رہتا تھا لیکن عباس اطہر اور منو بھائی کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ کر، مجھے بھی سمجھ آ گئی کہ موت کیا ہوتی ہے؟جب آتی ہے تو انگلی پکڑے بغیر، ساتھ لے جاتی ہے۔آدمی مقبول ہو یا غیر مقبول، جان محفل ہو یا خلجان محفل ، سانس کا رشتہ ٹوٹتے ہی :۔
دوہنویں ہتھ کفن تھیں باہر، دوہنویں تلیاں خالی
فیس بک کمینٹ