دریا اپنے طویل سفر میں طرح طرح کے مقامات سے گزرتا ہے۔ تنگ وادیوں سے گزرتے ہوئے شوریدہ موجوں کو سنگلاخ پہاڑوں سے سر ٹکرانا پڑتا ہے۔ میدانی علاقے سے گزرتے ہوئے دریا کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ موجوں میں ٹھہراؤ آجاتا ہے اور وہ سہج سبھاؤسے کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ دریا سے بہت سے ذیلی دھارے اور آبی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ تاریخ کے دریا پر کشتی چلانے کی بنیادی مہارت یہی جاننا ہے کہ اس وقت دریا کہاں سے گزر رہا ہے۔ سیاست میں اسے لمحہ موجود کا بنیادی تضاد کہا جاتا ہے۔ انسانی معاشرہ تو دریا سے کہیں زیادہ پیچیدہ مظہر ہے۔ سطح زمین پر کچھ اور منظر ہوتا ہے ، زیر زمین کچھ اور ہنگامے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں بیک وقت ان گنت معاشی، معاشرتی اور تہذیبی دھارے موجود ہوتے ہیں اور اجتماعی کشتی کا کوئی ایک کپتان نہیں ہوتا۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا ہے کہ ان دھاروں کو ممکنہ حد تک مدنظر رکھتے ہوئے منزل کا تعین کیا جائے اور اس کی طرف بڑھنے کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔
ان دنوں ہم اپنی تاریخ کے ایک پیچیدہ مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک پھیلی ہوئی تمثیل ہے جس میں انسانی کردار کی روشنی بھی جھلک رہی ہے، گروہی تحفظات کی عکاسی بھی ہو رہی ہے۔ کرداروں کی ذاتی خواہشات بھی واقعات کو مہمیز کر رہی ہیں۔ کھیل کے کچھ مناظر المیہ ہیں تو کچھ کردار مضحک ہیں۔ کچھ باتیں سٹیج کی ضرورت کے مطابق کہی جا رہی ہیں تو کچھ زاویے ایسے بھی ہیں جنہیں صرف کرداروں کی بدن بولی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں بیان کرنے کی نوبت شاید کبھی نہ آئے۔ اسلام آباد میں اقتدار کے کھیل کی حالیہ قسط اب اختتامی مراحل میں ہے۔ کہانی نگاروں پر ہنگامی دباؤ ختم ہو چکا۔ یہ زور آزمائی اپنے منطقی نقطہ عروج سے گزر چکی۔ اب اقتدار سے بے دخل کیا گیا گروہ حکومت کی طرف سے کسی ایسی ممکنہ غلطی کے انتظار میں ہے جس کی بنیاد پر مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا سکے۔ بظاہر اس کا امکان فوری طور پر کم نظر آتا ہے۔ ملکی معیشت کی روزمرہ سرگرمیو ں اور ساکھ پر کاری ضرب لگی ہے۔ تاہم ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لیے…. حکومت کے وقار میں کمی آئی ہے ۔ لیکن ہم اس بارے میں بھی تردد نہیں کریں گے۔ 1953ء میں کراچی شہر کے عمائدین کا جو وفد گورنر جنرل غلام محمد کو محسن ملت کا خطاب دینے پہنچا تھا اس کے سپاس نامے میں مفلوج گورنر جنرل کے اس کارنامے کا ذکر نمایاں تھا کہ اس نے ملک کو ”خود ساختہ ، نااہل اور بدعنوان دستور ساز اسمبلی“ سے نجات دلائی۔ یہ القابات قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں قائم ہونے والی اسمبلی کو بخشے جا رہے تھے۔
قیام پاکستان کے موقع پر جو بھی واقعات پیش آئے ان کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ سیاسی قیادت میں دو دھارے واضح ہو گئے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان سمیت مسلم لیگ کی آزمودہ قیادت کا تعلق ان علاقوں سے تھا جو ہندوستان میں رہ گئے۔ پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنماؤں کی اکثریت 1945ءکے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئی۔ ان کی ایسے دیہاتی زمینداروں کی بڑی تعداد تھی جو خاندانی اثرورسوخ، ذات پات اور قبائلی اثرورسوخ کی بنیاد پر سیاست کے عادی تھے۔ ان کی سیاست ریاستی اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی مرہون منت تھی۔ ڈپٹی کمشنر تو بہت بڑا عہدیدار تھا۔ ان اکابرین کے لیے تو مقامی تھانیدار اور پٹواری کا اشارہ بھی کافی تھا۔ یہ لوگ سیاست کے فکری پہلوؤں سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جمہوریت کے ساتھ ان کا تعلق یہی تھا کہ اپنے اپنے علاقوں میں ان کی معاشی برتری اور سماجی دبدبہ قائم رہے۔ اس بیان کا اطلاق سب رہنماؤں پر نہیں ہوتا، یہ اکثریت کا ذکر ہو رہا ہے۔ قائداعظم پنجاب میں نواب ممدوٹ اور ممتاز دولتانہ کا اختلاف ختم کرنے میں ناکام رہے تو لیاقت علی خان بھی سہروردی ، ایوب کھوڑو اور قیوم خان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے۔ اکتوبر 1951ءمیں لیاقت علی خان کی شہادت مسلم لیگ کی سکہ بند فکری روایت کے خاتمے کا اعلان تھا۔اب غلام محمد ،چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا کا عہد تھا۔ سیاسی رہنما ریاستی مشینری کے جونیئر پارٹنر تھے۔ ایوب خان سرکاری اہلکاروں کا بازوئے شمشیر زن تھے۔ ایوب اور ان کے رفقا کی پیشہ ورانہ تربیت غیر ملکی حکمرانی میں ہوئی تھی جہاں فوج کو مقامی باشندوں کی سیاسی امنگوں سے سروکار نہیں تھا۔ ہندوستان میں پنڈت نہرو اپنے رفقا کی سیاسی قامت کے بل پر فوج پر بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری سیاسی پسماندگی ہمارے آڑے آئی۔ جمہوریت کی شاہراہ سے پاؤں رپٹ جائیں تو قافلے دلدلی پگڈنڈیوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم نے قوم کے نامیاتی ارتقا کی بجائے ریاست کے توشہ خانے میں رکھے مصنوعی ہتھکنڈے اختیار کیے۔ ہماری معیشت مفلوج ہو گئی۔ ہماری معاشرت پسماندہ رہ گئی۔ ہماری سیاست دلیل کی بجائے باہم دست و گریبان ہونے کی مشق بن گئی۔
مختلف حلقوں سے ہمارے مسائل کی درست نشان دہی کی جا رہی ہے۔ اپنی ذات کی حد تک مالی بدعنوانی کو ہمارے ہاں قبولیت حاصل ہے ۔ دوسروں کی بدعنوانی پر انگلی اٹھانے میں البتہ ہم تاخیر نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں کبھی خبر نہیں آئی کہ کسی نے رشوت لینے یا مالی خردبرد میں ملوث ہونے پر اپنے ماں باپ ¾ اولاد یا بہن بھائیوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہو۔ ہمارے ہاں شہری اور ریاست میں دستاویز کا رشتہ ہی قائم نہیں ہوا۔ ہم غبار آلود تعلقات کی فضا میں زندہ ہیں اور ہماری دھندلائی ہوئی آنکھیں دریا کے دھارے کو واضح طور پر دیکھنے سے قاصر ہیں۔نئے پاکستان کا چرچا تو بہت ہے لیکن سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نئے میں کتنا پرانا شامل ہے اور ہم نیا کہتے کسے ہیں۔ ہم نے کہنہ خواہشات کی بے آب و گیاہ دلہن کو نیا لباس تو نہیں پہنا دیا۔
معیشت کے جملہ پہلوؤں سے صرف نظر کر کے صرف بدعنوانی پر توجہ مرکوز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم معاشی سرگرمیوں کا حجم بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم پہلے سے موجود اثاثوں اور وسائل کو رابن ہڈ کے انداز میں چھین کر دوسروں کو دینا چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تجربہ کیا تھا۔ اس سے معیشت کا پہیہ رکتا ہے۔ معیشت کی گاڑی کو تین طریقوں سے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ہم ایسی اشیا ءپیدا کریں جن کی دنیا کو ضرورت ہے۔ہماری مصنوعات کا معیار دوسروں سے بہتر ہو اور ہم تجارت میں قدرتی حلیف منڈیوں کی نشان دہی کریں۔ منڈی سے رابطے کا مطلب خارجہ پالیسی ہے۔ خارجہ پالیسی کا یہ مطلب نہیں کہ ملک الف کو اپنا دوست قرار دے کر ملک ب سے لڑا جائے اور ب سے مل کر ملک ج کا بازو مروڑا جائے۔ خارجہ پالیسی اپنے ملک کے معاشی مفاد کے تابع ہونی چاہیے۔ خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ ہمیں ایسے قضیوں میں الجھنے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے جس سے ہماری قوم میں عقیدے یا ثقافت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا ہو۔ معیشت اور خارجہ پالیسی سے جڑا ہوا تیسرا نکتہ سماجی ڈھانچوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم تحکمانہ ، امتیازی اور استخراجی سماجی ڈھانچوں کی موجودگی میں معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔عورتوں کے لیے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مساوات کی ضمانت دیے بغیر ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کی تعداد کم ہے یا زیادہ ،اقلیتوں کے ساتھ قانونی اور سیاسی رویوں سے قوم کا تشخص متعین ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی مذہب ، زبان اور ثقافت کا تنوع پایا جاتا ہے۔ اس رنگا رنگی کو طاقت کے بل پر یکسانیت میں ڈھالنے کی ہر کوشش انتشار اور بدامنی پر ختم ہوتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم عقیدے ، زبان اور ثقافت کے اختلاف سے قطع نظر پاکستان کے سب شہریوں کو مساوی حقوق دینا چاہتے ہیں اور ان کی شناخت کا احترام کرتے ہیں۔
ایک متحرک اور ترقی پسند قوم کے شہری خیرات کی بجائے استحقاق کی بنیاد پر اپنے تحفظ اور ترقی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی تمناؤں کو اداروں کی بجائے افراد سے وابستہ کر رکھا ہے۔ اداروں سے انکار کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ریاستی اداروں میں تال میل بگڑ جاتا ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے لیے احتساب کی بے نتیجہ مشق اور سادگی کے بے معنی مظاہر کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے معاشی حالات کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ سنا ہے کہ ایک بڑے صاحب کہتے ہیں کہ قومی سلامتی اور معیشت کی ترقی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑے صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی استحکام کے بغیر سلامتی اور معیشت کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اسلام آباد آنے والے مہمان ہمیں ایک مشترکہ اعلامیے کا مستحق نہیں سمجھتے اور سرحد پار دفاعی معاہدہ کرکے جارہے ہیں۔ انہیں اپنے مفاد ات پر نظر رکھنے کا حق ہے۔ ہمیں بھی چھینا جھپٹی، دست نگری اور رسہ کشی سے نکل کر پیداواری نقشہ بچھانا چاہیے ورنہ نیا پاکستان کی صورت پرانے پاکستان سے زیادہ مضحکہ خیز ہو جائے گی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ