ہلکے سے شور کی آواز ہے جیسے لاؤ ڈ اسپیکر کھولا جائے تو شروع شروع میں آتی ہے ، پھر دو الفاظ سنائی دیتے ہیں برادران ملت ، دو فائر گونجتے ہیں ، دو تین سیکنڈ سے بھی کم دورانیے کا ایک سناٹا ، پھر ایک پر شور چیخ و پکار ، تواتر سے کیے گئے پانچ فائر ، چیخ و پکار جاری ساتھ ہی کچھ اور فائر بھی اور پھر خاموشی ۔
یہ 16 اکتوبر 1951 کو ساڑھے چار بجے کمپنی باغ راولپنڈی میں کی گئی ریڈیو پاکستان کی ڈیڑھ منٹ سے بھی کم کی ایک ریکارڈنگ ہے ۔ یہ لمحات نہ صرف چار سال عمر کے ایک نوعمر ملک کی سرنوشت بدل کر رکھ دیتے ہیں بلکہ نا ختم ہونے والی قیاس آرائیاں، سازشی نظریات ،پیچیدہ بجھارتیں اور گنجلک راز چھوڑ جاتے ہیں ۔
’’ برادران ملت ‘‘ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے آخری الفاظ تھے ، دو فائر ان کے قاتل سید اکبر زدران یا سید اکبر ببرک زئی نے کیے تھے ، اس کے بعد پانچ فائر انسپکٹر محمد شاہ نے سید اکبر پر کیے تھے ، اس کے بعد والے فائر ہوائی فائر تھے جو بوکھلائے ہوئے پولیس والے کر رہے تھے یا پھر جان بوجھ کر ایک لاکھ کے چیخ و پکار کرتے ہوئے ہجوم کو بھگانے کے لیے کیے جا رہے تھے ۔ پہلے دو فائروں کے بعد خاموشی کے دورانیے میں سٹیج سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے ڈی ایس پی نجف خان کا پشتو میں گونجتا ہوا حکم ریکارڈ نہیں ہو سکا تھا ، کس نے فائر کیے ہیں ختم کر دو اسے ۔ خون میں لت پت وزیر اعظم کے گرتے ہی ان سے ناراض نواب مشتاق احمد گورمانی جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہیں ، وزیر اعظم کو ان کی گاڑی میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے اور خون دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ جانبر نہیں ہوتے۔
موقع واردات پر پولیس کے لوگ قاتل کی لاش کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو مشتعل مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے نرغے میں ہوتی ہے ، یہ ہلکے زرد لباس واسکٹ اور دستار میں ملبوس ایک تیس سالہ پٹھان کی لاش ہے جو چہرے سے کسی خوشحال گھرانے کا لگتا ہے لیکن اجنبی چہرہ ہے اسے کوئی نہیں پہچانتا ، اس کی جیب سے دو ہزار چالیس روپے ملتے ہیں جو اس دور میں ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی، قریب ہی ایک جرمن ساختہ پوائنٹ نائن ایم ایم پستول پڑا ہوتا ہے اور یہ لاش جلسے کی پہلی صف میں سٹیج سے کوئی بیس فٹ کے فاصلے پر پڑی ہوتی ہے ۔ اس کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے تو گولیوں کے چار زخموں کے علاوہ نیزوں کے چھبیس زخم بھی ملتے ہیں جو بعد از مرگ لگائے گئے تھے ، یہ مشتعل مسلم لیگی رضاکاروں نے لگائے تھے۔
بعد میں پولیس کو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص جلسہ شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے دو بجے جلسہ گاہ میں داخل ہوا تھا اور اس کے ساتھ دو اور پٹھان بھی تھے اور شاید ایک بچہ بھی تھا ۔ انسپکٹر محمد شاہ نے کہا یہ شخص باہر سے آیا ہوا لگتا ہے شاید کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہو ہمیں ہوٹلوں میں جا کر پوچھ گچھ کرنی چاہیے ، وہ خود گرینڈ ہوٹل پہنچا جو جلسہ گاہ سے زیادہ دور نہیں تھا وہاں اسے بتایا گیا کہ اس حلیے کا ایک پٹھان 14 اکتوبر سے یہاں ٹھہرا ہوا ہے ، عملے کے دو افراد نے لاش دیکھ کر تصدیق کر دی اور یہ بھی کہا کہ اس کے ساتھ دس گیارہ سال کا ایک بچہ بھی ٹھہرا ہوا تھا جسے یہ اپنا بیٹا بتاتا تھا ۔ ہوٹل کے رجسٹر میں اس نے اپنا نام سید اکبر زدران سی آئی ڈی پنشنر لکھوایا تھا اور مزید کچھ نہیں لکھا گیا تھا ، ان دنوں شناختی کارڈ تو ہوتے نہیں تھے اور ہوٹلوں والے زیادہ تفصیل بھی نہیں پوچھا کرتے تھے اور یہاں تو سی آئی ڈی سن کر پتہ بھی نہیں پوچھا گیا تھا۔
راولپنڈی سی آئی ڈی والے اس سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں ۔ اب ریڈیو پاکستان اور اخبارات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ، مقتول قاتل اور اس کے غائب ہو جانے والے بیٹے کا حلیہ بار بار نشر کیا جاتا ہے ، کوئی چوبیس گھنٹے بعد گوالمنڈی کا ایک دکاندار ایک بچے کو پولیس کے پاس لے کر آتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ اسے کل شام ملا تھا اداس خاموش اور پریشان ایک بند دکان کے سامنے بیٹھا تھا چنانچہ میں اسے اپنے گھر لے گیا ، کچھ دیر پہلے کسی نے بتایا کہ ایسے حلیے والے بچے کو پولیس تلاش کر رہی ہے ۔ بچے کو تسلیاں دی گئیں کہ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور گھر پہنچایا جائے گا وہ تعاون کرے اور چند سوالوں کے جواب دے اور یہ بات چیت کرنے والے افسر پٹھان تھے ، بچے نے بتایا کہ اس کا نام دلاور ہے اور وہ ایبٹ آباد کا رہنے والا ہے جہاں کوئنز گراؤ نڈ کے قریب ان کا گھر ہے ، وہ اپنے والد کے ساتھ راولپنڈی آیا تھا اور ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ، پھر وہ ان کے ساتھ جلسے میں گیا جہاں والد نے اسے اپنے آگے بٹھایا ہوا تھا ، اس نے گولیاں چلنے کی آواز سنی اور تقریر کرنے والے کو گرتے ہوئے دیکھا ، اس نے ڈر کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی اور اس کا باپ وہاں نہیں بیٹھا تھا ، گولیاں چل رہی تھیں تو وہ بھی لوگوں کے ساتھ باہر کی طرف بھاگا اور پھر گم ہو گیا ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ اس کے باپ کے دو اور دوست بھی تھے ۔ ہوٹل والوں نے بھی بتایا تھا کہ دو پٹھان روزانہ ان سے ملنے آتے تھے اور وہ جلسے والے دن بھی ساتھ ہی نکلے تھے ، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تفتیشی ٹیم نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کی۔ وزیراعظم کی سیکیورٹی کے انچارج نجف خان اور انسپکٹر محمد شاہ کو فرائض سے غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ۔ گولی چلانے والے کو مارنے کا حکم جاری کرنے کے بارے میں اس نے کہا میں نے تو کہا تھا کہ اسے مت چھوڑو یعنی پکڑو ، محمد شاہ نے کہا اس نے سمجھا تھا کہ زندہ مت چھوڑو ۔
پولیس بچے کو لے کر ایبٹ آباد گئی ، جہاں اس کی والدہ سے سوال جواب کیے گئے ، معلوم ہوا کہ قریب ہی ایک گھر میں سید اکبر کا ایک بھائی زمرک زدران بھی رہتا ہے ، اسے اٹھایا گیا اور سوال جواب کیے گئے ، معلوم ہوا کہ وہ افغان شہری تھے اور جنوری 1947 میں برٹش گورنمنٹ نے انہیں یہاں رکھا تھا اور وظیفہ بھی دیا جاتا تھا، سی آئی ڈی ان پر نظر رکھتی تھی اور اگر ایبٹ آباد سے باہر کہیں جانا ہو تو سی آئی ڈی سے اجازت لینا ہوتی تھی اور جہاں جانا ہوتا وہاں کی سی آئی ڈی کو ایبٹ آباد کی سی آئی ڈی اطلاع دیتی تھی۔ ایبٹ آباد سی آئی ڈی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والا پنشنر تھا اور اس کے خلاف ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہم اسے اجازت دے دیا کرتے تھے لیکن اس بار وہ خود نہیں آیا تھا دوسرے دن اس کا بیٹا ایک چٹھی دے گیا تھا جس میں سید اکبر نے لکھا تھا کہ وہ تجارت کے سلسلے میں راولپنڈی جا رہا ہے اور وہاں گرینڈ ہوٹل کے قریب کسی گھر میں ٹھہرے گا ، اسے اور اس کے گھر والوں کو پریشان نہ کیا جائے ، جب تفتیشی ٹیم نے پوچھا کہ تم نے راولپنڈی سی آئی ڈی کو اس بارے میں کیوں آگاہ نہیں کیا تو روزنامچہ دکھایا گیا جس میں ٹیلی فون کال کا وقت بھی درج تھا لیکن راولپنڈی سی آئی ڈی اس بات سے انکاری تھی ۔ سید اکبر کے گھر کی تلاشی لی گئی تو دس ہزار روپے برآمد ہوئے اور ان نوٹوں کے نمبر اسی سیریز کے تھے جو سید اکبر کی لاش سے ملے تھے ۔ کچھ تحریریں اور نقشے بھی ملے ، کچھ مذہبی کتابیں اور علامہ اقبال کی کتابیں بھی ملیں۔
کئی روز تک پوچھ گچھ جاری رہی ، دلاور بھی دو ہفتے تک پولیس کی تحویل میں رہا پھر پولیس نے اپنی تفتیشی رپورٹ جمع کرا دی جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ ایک اکیلے آدمی کا کام ہے ، اس میں کوئی سازش نہیں ، اس کے بیٹے کا کہنا ہے کہ اس کے باپ نے بتایا تھا کہ اسے سلطان محمود غزنوی نے خواب میں حکم دیا تھا کہ لیاقت علی نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے اسے مار دو ۔ نجف خان اور محمد شاہ بحال ہو گئے اور بعد میں پروموٹ بھی ہو گئے۔
اس رپورٹ پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اہلیہ محترمہ رعنا لیاقت علی خان نے اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ اب مشہور یا بدنام زمانہ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے ستر سے زائد لوگوں کے بیانات قلم بند کیے ، ان سے سوال جواب کیے ، اس کمیشن نے بھی اس قتل کو فرد واحد کا فعل قرار دیا اور کسی سازش کے امکان کو رد کر دیا ۔ اس رپورٹ پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے جو جائز تھے ۔ حد یہ ہے کہ اس کمیشن نے سیکورٹی انچارج نجف خان اور محمد شاہ کو طلب ہی نہیں کیا۔ پھر ایک اور پولیس انکوائری ہوئی ، آئی جی لیول کے ایک افسر صاحب زادہ اعتزاز الدین نے تحقیقات کیں ۔ وہ پشاور سے دارالحکومت کراچی جا رہے تھے کہ ان کا طیارہ تباہ ہو گیا اور بتایا گیا کہ رپورٹ بھی جل گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پشاور میں کسی صحافی سے کہا تھا کہ وہ قاتلوں تک پہنچ گئے ہیں اور کراچی پہنچ کر انہیں بے نقاب کر دیں گے لیکن وہ کراچی نہ پہنچ سکے ۔
اب حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک افسر کو تحقیقات کے لیے بلایا ۔ اسی دوران میں محترمہ رعنا لیاقت علی خان کو سفیر بنا کر امریکہ بھیجا جا چکا تھا ۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے افسر نے پہلی پولیس رپورٹ کے پچھتر فیصد مندرجات کو بیکار قرار دیا ، منیر کمیشن کی رپورٹ کو ایک بہتر کوشش قرار دیا اور دو تین ماہ حکومت پاکستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہو کر دس ہزار پاؤ نڈ جیب میں ڈال کر واپس چلا گیا ۔ اس نے اپنی رپورٹ میں آج کل کی زبان میں ایک نیا کٹا کھول دیا ۔ اس نے لکھا کہ سید اکبر ایک مذہبی آدمی تھا ، وہ وزیر اعظم کی حکومت اور طرز حکمرانی کو غیر اسلامی سمجھتا تھا خاص طور پر وزیراعظم کی بیگم کی بے پردگی اور ان کے لباس پر وہ معترض تھا۔
اس دوران کئی قیاس آرائیاں ہوئیں ایک یہ کہ کیونکہ وزیر اعظم امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے لہذا روس نے انہیں مروا دیا ، قاتل ایک افغان شہری تھا اور افغانستان روس کے حلقہ اثر میں ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم کو امریکہ نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ ایران پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے تیل کے ذخائر امریکی کمپنیوں کے حوالے کر دے اس پر وزیراعظم نے امریکیوں سے کہا کہ وہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دیں اور پختونستان کا نعرہ لگانے پر کھل کر افغانستان کی مذمت کریں جو امریکہ نے ماننے سے انکار کر دیا تھا چنانچہ وزیر اعظم نے امریکیوں کو بائی بائی ٹاٹا کہہ دیا تھا لہذا سی آئی اے نے انہیں قتل کروا دیا ۔
اسی سال 2025 میں امریکہ میں رہنے والے لسانیات کے ایک پروفیسر ڈاکٹر فاروق ببرک زئی کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے
The assassination of Liaquat Ali Khan
اس میں بہت سے نئے زاویے منکشف کیے گئے ہیں جو بظاہر تمام کڑیوں کو اپنی اپنی جگہ بٹھا دیتے ہیں ۔اس کتاب کے مصنف کوئی اور نہیں سید اکبر خان کے حقیقی فرزند ہیں۔ انہوں نے برسہا برس انتہائی عرق ریزی سے تحقیق کی ، رپورٹوں کا جائزہ لیا ، اپنی یادداشت کو کھنگالا ، والدہ چچا اور بھائیوں سے سوالات کیے ۔ یہ کتاب انتہائی غیر جانبداری سے لکھی گئی ، مصنف نے کہیں بھی اپنے والد کو بیگناہ ثابت کرنے یا ہیرو بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کا طائرانہ سا جائزہ لیتے ہیں ۔
ببرک خان زدران قبیلے کے سردار تھے جو خوست کے علاقے میں آباد ہے ، وہ امیر عبد الرحمٰن کے چہیتے تھے ، امیر نے انہیں ایک قلعہ تعمیر کر کے دیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کا بڑا بیٹا زمرک خان قبیلے کا سردار بنا ۔ امیر امان اللہ خان کو ہٹا کر نادر خان عرف بچہ سقہ نے بادشاہت سنبھالی تو اس کے خلاف بغاوت ہوئی جس میں زمرک خان اور سید اکبر خان نے بھی حصہ لیا۔ 1940 کی دہائی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران افغانستان کے بادشاہ نے انگریزوں کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ عوام کی اکثریت جرمنی کی حامی تھی ، ان دونوں بھائیوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن شکست کھا کر وزیرستان آ گئے جہاں انگریزوں کے خلاف مرزا علی خان عرف فقیر ایپی کی بغاوت جاری تھی ، یہ اس کے ساتھ شامل ہو گئے لیکن کچھ عرصہ بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہیں چنانچہ دونوں بھائی اپنے خاندان کے ساتھ انگریزی کیمپ میں پہنچے اور تسلیم ہو گئے یعنی سرینڈر کر دیا ۔ اس دور کے رواج کے مطابق انگریزوں نے ان کی پنشن مقرر کر کے اپنی زیر نگرانی گیریژن سٹی ایبٹ آباد میں رکھا۔ ڈاکٹر فاروق کے مطابق ان کے والد کی پنشن ساڑھے تین سو روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ چند ماہ بعد برصغیر آزاد اور تقسیم ہوا اور وہ حکومت پاکستان کے پنشنر ہو گئے ۔ ایبٹ آباد میں کشمیر سے کافی مہاجرین آئے جو ان کے گھر کے قریب رہائش پذیر ہوئے ، کشمیر میں جہاد شروع ہوا تو قبائلی ایبٹ آباد سے گزر کر ہی کشمیر جاتے تھے ، کئی جاننے والے ان کے والد سے ملتے بھی تھے، اور وہ پستول بھی کشمیر سے واپس آنے والے ایک مجاہد نے انہیں تحفے میں دیا تھا۔ اس دوران سید اکبر کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہو گیا اور وہ مذہبی کتابیں اور علامہ اقبال کی شاعری پڑھنے لگا۔ ڈاکٹر فاروق کے مطابق ان کے والد کی تعلیم گھر پر ہوئی تھی جہاں مولوی صاحب نے قرآن مجید اور بنیادی فارسی پڑھائی تھی لیکن ایبٹ آباد میں اس نے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی جس کا قبائلی جہادیوں اور فوجی افسروں کو بہت رنج تھا۔ سید اکبر مذہبی ہو گیا تھا اور پھر کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے بڑے بھائی اور قبیلے کے سردار زمرک خان کے زیر سایہ رہا تھا لہذا اس کے دل میں اپنا نام پیدا کرنے اور بڑا آدمی بننے کی بہت خواہش تھی اور وہ کچھ کر کے دکھانا چاہتا تھا۔ اس کا رابطہ میجر خورشید انور سے ہوا جنہوں نے دو ہزار قبائلیوں کی قیادت کرتے ہوئے مظفرآباد فتح کیا تھا۔ وہ ان کے گھر بھی آئے ۔ سید انور بھی کئی بار راولپنڈی مری اور پشاور گیا۔ ان کے گھر سے جو تحریریں اور نقشے ملے اس میں فاتح لشکروں اور دلی اور کابل کی آزادی کا ذکر تھا ، گلائیڈر نما جہازوں کو بھارت پر حملے کرتے دکھایا گیا تھا ۔ خورشید انور کی دوستی وزیر خزانہ غلام محمد سے تھی جو بعد میں گورنر جنرل بنا۔ غلام محمد مشتاق خان گورمانی کا دوست تھا جنہیں وزیراعظم نے برطرف کر دیا تھا چنانچہ وہ انہیں ہٹانا چاہتے تھے ۔ غلام محمد کی دوستی جنرل گریسی کے بعد بننے والے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان سے بھی تھی جس کے سیاسی عزائم کی وجہ سے قائد اعظم نے اسے بریگیڈیئر سے میجر جنرل پروموٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حال ہی میں امریکہ میں ڈی کلاسیفائی ہونے والے کچھ ڈاکومنٹس شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ اپنے صدر کو لکھے کہ اگر وہ اس کے سر پر دست شفقت رکھے تو وہ ان کے ہر حکم کی تعمیل کرے گا ۔
کشمیر سیز فائر سے ناراض فوجی افسر جن میں ان کے سپہ سالار میجر جنرل اکبر خان بھی شامل تھے وزیراعظم کا تختہ الٹنے کی سازش میں گرفتار ہوئے اور حکومت نے ان کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کیا تو سید اکبر کے ہینڈلرز کو آسانی ہوئی کہ وہ اسے لیاقت علی خان کے قتل کے لیے تیار کر سکیں۔ وزیراعظم کے راولپنڈی جلسہ عام کی کوئی وجہ بظاہر سامنے نہیں آتی ، وزیر اعظم کی تقریر جو ایک دن پہلے جہاز میں پنڈی آتے ہوئے ان کے سکریٹری نے ان کے حوالے کی تھی وہ بھی کہیں نہیں ملی۔ سید اکبر کو شاید یقین دلایا گیا تھا کہ اسے بچا لیا جائے گا لہذا وہ خطیر رقم جیب میں ڈال کر اور گیارہ سالہ بیٹے کو ساتھ لے کر آیا تھا۔ ہوٹل سے ملنے والے کاغذ میں ایک استخارے کا بھی ذکر ہے جو شاید سید اکبر کو اس کی کامیابی کا یقین دلانے کے لیے کیا گیا تھا ۔
سکیورٹی انچارج نجف خان نے جلسے کے لیے کمپنی باغ موجودہ لیاقت باغ کا انتخاب کیا ، اس پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ وکٹوریہ سٹیڈیم زیادہ محفوظ ہے اس کی بلند دیواریں اور ایک ہی گیٹ ہے جبکہ کمپنی باغ کھلا اور غیر محفوظ ہے لیکن نجف خان نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ کمپنی باغ میں زیادہ لوگ آ سکتے ہیں اور یہ غیر محفوظ نہیں ۔ سٹیج پر صرف ایک کرسی رکھی گئی ، باقی اشرافیہ کے لیے وزیر اعظم کے سامنے دائیں طرف کرسیاں اور صوفے رکھے گئے جبکہ عوام دائیں طرف سٹیج سے صرف بیس سے پچیس فٹ کے فاصلے پر بٹھائے گئے۔ سید اکبر دو گھنٹے پہلے آیا اور اگلی صف میں بیٹھ گیا اور کسی نے اس کی تلاشی نہیں لی۔ دو آدمی اس کی نگرانی کے لیے ساتھ لگائے گئے جو غائب ہو گئے اور کسی نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ڈاکٹر فاروق نے اپنے بھائی دلاور سے سلطان محمود غزنوی والے خواب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ پولیس نے اسے بتایا تھا کہ اسے کیا کہنا ہے ۔
اور نصف صدی بعد اسی کمپنی باغ یا لیاقت باغ میں ایک اور لیڈر کو گھیر کر مارا گیا اور اس کے لیے بھی ویسی ہی تفتیش کی گئی ، یہاں بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کا ڈرامہ کیا گیا اور سب سازشیوں کو بے قصور قرار دیا گیا ۔ جی ہاں محترمہ بینظیر بھٹو ۔۔۔ انہوں نے تو زندگی میں اپنے متوقع قاتلوں کے بارے میں رپورٹ بھی درج کرائی تھی جن سے کسی نے سوال کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔
فیس بک کمینٹ