وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر پرجوش بیان دیاہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی شمولیت کو اہم قرار دیتے ہوئے اس مقصد کے لیے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ خواتین کو تمام شعبوں اور مرکزی دھارے میں لاکر ہی پاکستان کو عظیم ملک بنایا جا سکتا ہے۔ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے البتہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ حکومت ملک میں خواتین کے حقوق کی ضمانت فراہم کرنے اور ان کے تحفظ کے مقصد سے کون سے ٹھوس اقدامات کررہی ہے؟
پاکستان اس وقت ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں عورتوں کے حقوق کی صورت حال ابتر ہے۔ انہیں تشدد، صنفی امتیاز اور مساوی حقوق کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کا سماجی مزاج عام طور سے پدر شاہی رویوں پر مشتمل ہے اور انہیں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر قبول بھی کیاجاتا ہے۔ عام طور پر بے راہ روی کی ذمہ داری خواتین پر ڈالی جاتی ہے اور انہیں معاشرے میں مساوی مقام دینے کے لیے یہ ایک حل تجویز کیا جاتا ہے کہ کسی لڑکی کی شادی کرا دی جائے ۔یوں اس کا معاشی مستقبل اور سماجی حیثیت مستحکم کرنے کا مشورہ ارزاں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم ملک کے تمام شعبوں میں خواتین کو شریک کرنے کے جس عظیم مقصد کی طرف اشارہ کررہے ہیں، یہ سماجی رویے اسے حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ گویا سب سے پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا خواتین اس ملک کی نصف آبادی کی حیثیت سے معاشرے پر ’بوجھ‘ ہیں جو مردوں کے کاندھوں پر لادا جائے یا وہ ایک ایسا اثاثہ ہیں جسے برابری کی بنیاد پر کام کا موقع دے کر ہی ملک کو معاشی طور سے مضبوط و توانا کیا جاسکتا ہے۔
سماجی معاملات میں مالی امور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک خواتین کی مالی حیثیت کا تعین نہیں ہوگا اور انہیں معاشی ترقی میں اہم کردار کے طور پر قبول کرنے کا مزاج راسخ نہیں کیا جائے گا، وزیر اعظم کی یہ خواہش پوری ہونے کا امکان نہیں ہے کہ خواتین ہر شعبہ حیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ وہ اپنے علاوہ ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو کوئی خاص منصوبے شروع کرنے اور خواتین کی ’سہولت کاری‘ کے لیے کسی امدادی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ضروری قانون سازی اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ان رکاوٹوں کو دور رکنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں خواتین کو مساوی بنیاد پر حصہ داری کے عمل سے روکنے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے کسی حکومت کو خاص طور سے مالی وسائل فراہم کرنے یا سہولتیں دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ ان قوانین پر سختی سے عمل کرانا ہوگا جو اس ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق عطا کرتے ہیں لیکن خواتین کے معاملے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان میں مساوی حقوق کے حوالے سے مشکلات اور خواتین کے لیے رکاوٹوں کے باوجود یوم خواتین پر وزیر اعظم کا پرزور بیان بہر حال قابل قدر ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کسی نہ کسی سطح پر یہ مان رہی ہے کہ عورتیں اس معاشرے کا نصف ہیں اور ان کی مکمل شمولیت کے بغیر کاروبارمملکت چلنا آسان نہیں ہوگا۔ یوں بھی کسی ملک کی نصف آبادی کو ناکارہ بنانے والے سماجی رویے راسخ کرنے سے معاشی ترقی کا خواب پورا کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس یوم کی مناسبت سے شہبازشریف کا بنیاد ی پیغام یہی ہے کہ ملکی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ملک کی ’ناکارہ ‘ قرار دی گئی نصف آبادی کو فعال بنانا ضروری ہے۔ اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ وزیر اعظم نے خواتین کی شرکت کو معاشی ترقی کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ یعنی ملک کو ان عورتوں کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے نہ کہ ان عورتوں پر ترس کھا کر انہیں مساوی موقع دینے کے نام پر سماجی و معاشی شعبوں میں ان کی شرکت کا اصول مانا جائے۔ اس نازک فرق کو سمجھ کر اسے عام کرنے اور لوگوں کی تفہیم میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی میڈیا اس بارے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت ویمن امپاورمنٹ کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے لیے ہمیں طویل سفر طے کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں خواتین بااختیار ہوں گی۔ ہمیں خواتین کو درآمدات، برآمدات کے شعبوں سمیت مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔ اسی طریقہ سے پاکستان ایک عظیم ملک بنے گا۔ خواتین کی ملک میں تعداد 50 فی صد ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے تمام شعبوں میں کام کرتی ہیں، جن میں خاص طور پر فصلوں کو بونا، کاٹنا یا مشینری کا استعمال شامل ہے۔ ان سب میں وہ مردوں کی طرح محنت کرتی ہیں۔ خواتین ہر طرح کے سرد گرم موسم میں مردوں کے جیسے کام کرتی ہیں۔ بڑے شہروں میں خواتین تمام شعبوں میں مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ شہروں میں تعلیم یافتہ خواتین کو مزید آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہم پاکستان کو عظیم ملک بنانے میں کامیاب ہوں۔
اس پیغام کو حقیقی تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر کام کیا جائے۔ یہ سوچ عام کی جائے کہ ملک کا اہم اثاثہ ملکی معاشی ترقی میں بروئے کار لانا ضروری ہے ، ا س لیے اس کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک بند ہونا چاہئے اور اس کی خدمات و صلاحیت کا ویسے ہی اعتراف ہونا چاہئے جس کا تاثر وزیر اعظم کے بیان میں ملتا ہے۔ شہباز شریف نے دیہات میں کاشتکاری سے متعلق تمام شعبوں میں خواتین کی مساوی حصہ داری کا خاص طور سے ذکر کیا ہے لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ عام طور پر زرعی معیشت میں عورتوں کی ان خدمات کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ گھر کے مرد، مقامی سماج یا بڑی سطح پر پالیسی ساز ، معاشرے میں خواتین کے اس اہم کردار کو ماننے، اس کا ذکر کرنے اور انہیں اس کے مطابق احترام اور مواقع دینے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے۔ یعنی خواتین جو خدمات انجام دے رہی ہیں، اس کے معاوضے کی بات تو کجا ، اسے تسلیم کرنے کا رویہ بھی عام نہیں ہؤا ہے بلکہ عام تفہیم میں عورت کو کمزور، بوجھ اور مرد کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ معاشی سرگرمی میں عورتوں کی ضرورت و شرکت کے مقصد سے متصادم ہے۔
خواتین کو معاشرے کا اہم اور کار آمد حصہ مانتے ہوئے ان چند عوامل پر غور کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے ملک کی عورتوں کو اپنے جائز حقوق کے لیے بھی شدید جد و جہد کرنا پڑتی ہے اور اکثر اوقات ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان میں سر فہرست سماجی سطح پر عورت کو دست نگر اور محتاج قرار دینے کا مزاج تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں ملک کا تعلیمی نظام سماجی شعور بیدار کرنے میں مسلسل ناکام ہورہا ہے۔ خواتین کی خود مختاری کی بجائے، انہیں مردوں کا محتاج قرار دینے کے مباحث عام ہیں۔ اب بھی ملک کی مساجد اور دینی اجتماعات میں یہ تبلیغ کی جاتی ہے کہ عورت کو کب کب مرد کی اجازت کی ضرورت ہے۔ اس قسم کا رویہ گو کہ دین کے نام پر اختیار کیا جاتا ہے لیکن اس سے معاشرے میں عورتوں کے حقوق سلب کرنے کا مزاج عام ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک طرف تعلیمی نظام میں عورتوں کی سماجی و معاشی اہمیت کے بارے میں سلیبس بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف معاشی ترقی کے حوالے سے خواتین کی ضرورت کے پہلوکو نمایاں کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ عورت کو معاشرے کی مساوی اور یکساں طور سے خود مختار اکائی سمجھا جائے۔
خواتین کو معاشی ترقی کے کام میں حصہ دار بنانے کے لیے ان کے راستے میں بچھائے گئے کانٹے ہٹانا بے حد اہم ہے۔ پاکستان میں خواتین کو گھروں سے لے کر دیگر مقامات تک تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ خاص طور سے گھریلو تشدد کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہےجس میں شوہر یا دیگر اعزہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور جسمانی زیادتی کو اپنا حق سمجھ کر اسے تشدد اور جببر و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ مردوں نے اس زیادتی کا ’حق‘ درحقیقت عورتوں کے حقوق سلب کرکے حاصل کیا ہے۔ اس میں سب سے نمایاں جائداد میں عورتوں کو حق نہ دینے کا معاملہ ہے۔ اسی طرح کھیت یا گھر میں عورت کی خدمات کو معاشی ترازو سے ماپنے کا شعور عام نہیں ہے جس کی وجہ سے ان خدمات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ حکومت عورت کے حق وراثت کو یقینی بنا ئے۔ اس طرح معاشرے میں عورتوں کی عزت و وقار میں اضافے اور گھر و خاندان میں اس کی کمزور حیثیت کو طاقت و رشراکت دار میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کا شفاف نظام استوار کیا جائے تاکہ عورتوں کو تحفظ کا احساس ہو اور وہ اہم معاشی و معاشرتی خدمت انجام دے سکیں۔
ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کو کہیں روایت، کہیں عقیدہ کی آڑ میں قبول کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کی سوچ کے مطابق عورتوں کو ہر شعبہ زندگی میں شامل کرنے کے لیے ان رویوں کو تبدیل کرنا بے حد ضروری ہے۔ ریپ اور دیگر جنسی جرائم کو نظر انداز کرنے کی بجائے ، انہیں خاص طور سے توجہ دے کر عورتوں کو انصاف فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ملکی قوانین یا تو یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں یا انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے کیوں کہ عورت کو کمزور فریق مان لیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف اس جرم میں صرف سماجی ڈھانچہ ، پولیس یا عدالتیں ہی نہیں بلکہ سیاسی پالیسی ساز بھی شامل ہیں۔ خواتین کی آزادی کی تشریح و توضیح کو مبلغ یا معلم کی تشریح کامحتاج بنانا درست طریقہ نہیں ہے۔
معاشرے کی ا کائی کے طور پر کسی عورت کو بھی وہی حق و مواقع حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس اصول میں جمع تفریق کے لیے لائے جانے والےہمہ قسم سماجی و مذہبی دلائل کو مسترد کرکے ہی ایک باوقار اور زندہ معاشرہ کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے جہاں صنفی بنیاد پر تعصب و امتیازی سلوک موجود نہ ہو۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ