ہمارے تعلیمی نظام کی بوسیدگی کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو لفظ کی حرمت سے آگاہ نہیں کیا ہماری روزمرہ کی گفتگو میں استعمال ہونے والے اکثر الفاظ ہم استعمال تو کرتے ہیں لیکن ہم ان کے مطالب سے پوری طور پر آگاہ نہیں ہوتے، مثلا ایک لفظ ہے "معلوم” اور دوسرا ہے "محسوس” یہ دونوں الفاظ اکثر و بیشتر ایک ہی معنوں میں استعمال کر لیے جاتے ہیں، حالانکہ محسوس "حس” سے ہے اور معلوم "علم” سے، اگر بچہ کسی شئے کو چھوئے اور وہ اس کو گرم پائے تو یہ عمل "محسوس” کہلائے گا اور جب یہ بات اس کے علم کا حصہ بن جائے کہ گرم کیسا ہوتا ہے تو یہ "معلوم” ہو گیا….
یہ سب الجھاؤ کبھی کبھی ریاستی ایجنڈہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جائے اور بے معنی الفاظ و جملے ایسے ادا کیے جائیں کہ وہ بہت معنی خیز محسوس ہوں، مثلا آپ اپنے لیڈروں کی زبان سنیں ان دماغ سے بانجھ لوگوں کے پاس مخصوص گھسی پٹی وکیبلری ہے آہنی ہاتھ سے نبٹا جائے گا ، کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، اظہارِ تشویش کیا، آبدیدہ ہوگئے، گھل مل گئے وغیرہ وغیرہ یہ سب ریاست کے وہ ٹولز ہیں جن سے وہ عوام کو قابو کرتی ہے….
جب یہ سب تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے تو الفاظ اپنے معنی کے ساتھ اپنی افادیت بھی کھو دیتے ہیں وہ صرف حروفِ تہجی کا ایک سٹرکچر ہوتا ہے اس میں روح نہیں ہوتی اور ایک وقت آتا ہے کہ نہ تو بولنے والے اور نہ سننے والے کے لیے اس میں کوئی بھی دلچسپی باقی رہ جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ الفاظ سنائی دینا بھی بند ہو جاتے ہیں…..
یہ سب انٌ طبقات کے خلاف زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ جن کو قابو رکھنا معاشرے میں موجود استعمار کے لیے زیادہ اہم ہے مثلا خواتین آئیے اس کو تفصیل سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں….
کیا کمال ہے کہ آپ اپنی بیٹی، بہن بھتیجی، بھانجی کسی کو بھی جان سے مار ڈالیں، چاہے اس کی وجہ جو بھی ہو کہ وہ اپنی مرضی کی شادی رچانا چاہتی تھی یا پڑھنا چاہتی تھی یا آپ اس کو جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے تھے یا آپ نے یا آپ کے کسی قریبی نے اس کا ریپ کیا تھا جو بھی تھا، آپ نے اس کو قتل کیا اور اس قتل کو معاشرے نے "غیرت کے نام پر قتل” کہا حالانکہ کہ اس وقت مارنے والا بے غیرت ہونے کی تمام حدود پھلانگ چکا تھا….
اس ملک میں توہینِ مذہب اور توہینِ عدالت کا شور سب سے زیادہ مچایا جاتا ہے لیکن آج تک کسی مذہب کے ٹھیکیدار یا کسی عدالت عائلہ کی عظمت کے پہرے دور کو یہ خیال نہیں آیا کہ قرآن پاک سے شادی کیا توہینِ مذہب یا توہینِ عدالت نہیں ہے؟؟ کیونکہ آپ کا ہر قانون قرآن و سنت کے تابع ہے اور اگر کچھ بھی اس سے متصادم معاشرے میں ہو رہا ہو تو وہ شریعت اور قانون کی رٌو سے جرم تصور کیا جائے گا، لیکن کیا آپ کسی ایسے فتویٰ اور قانون کے بارے میں جانتے ہیں جو اس بات کی ضمانت فراہم کر سکے کہ اگر کسی نے کہیں بھی اس طرح کی کوشش کی تو اس پر شرعی اور قانونی دونوں حدود لاگو ہونگی…..
مملکتِ خداداد کے شہر، علاقے اور محلے ایسے مسلمانوں سے چھلک رہے ہیں کہ جو اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی کسی پر توہینِ مذہب کا الزام لگائے اور کب وہ اس کو اس کے گھر و خاندان سمیت جلا کر راکھ کر دیں، لیکن کسی کو آج تک یہ غیرت نہیں آئی کہ وہ کسی بچی کی قرآن پاک سے ہوتی ہوئی شادی، وٹے میں دی جانے والی نا بالغ، کاروکاری اور ونی ہونے والی معصوم کی مدد کی کوئی کوشش تو دور مذمت کرنے کا بھی سوچ سکے……
اگر کسی عورت کے کسی غیر مرد سے ناجائز تعلقات ہیں بھی تو اس کو اس بنیاد پر قتل کر دینے کی اجازت کس نے مرد کو دی ہے؟؟ کیا یہی اجازت عورت کو بھی حاصل ہے؟؟ کہ اگر اس کا شوہر اس کا باپ، بیٹا یا بھائی کسی اور غیر عورت، مرد یا خوجہ سرا کے ساتھ بد فعلی میں ملوث پکڑا جائے تو کیا اس مرد کی بیوی ، ماں، بیٹی یا بہن اس کو قتل کر سکتی ہے نیز یہ کہ کیا یہ قتل بھی غیرت کے نام پر قتل تصور ہوگا یا علماء کرائم کا اس بارے میں فتویٰ مختلف ہے؟؟؟
ہمارے معاشرے کے مردوں کے لیے دو چیزیں انتہائی اشتہا انگیز ہیں ایک مردانہ کمزوری کا علاج اور دوسرا باہر ملک کا ویزہ، یہاں سے بھاگ بھاگ کر باہر ملک جانے والے ہمارے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں کو انگریز نہ بھی ہو تو شادی کسی ایسی عورت سے کرنے کی خواہش ہوتی ہے جس کا خاندان وہیں سیٹل ہو…. شادی ہو جاتی ہے، اگر بیٹے ہوں تو سب بہت اچھا، لیکن اگر بیٹیاں ہو جائیں تو انکو یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ اب اگر اس نے بارہ سال کی عمر میں بوائے فرینڈ بنا لیا تو کیا ہوگا؟؟؟
لہذا ابھی بچی بڑی ہو ہی رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے پاکستان میں ویلے بیٹھے رشتہ داروں کو کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ ہماری بچی کے لیے پاکستان میں کوئی رشتہ دیکھیں، بچیاں عموماً اس بات کو نہیں مانتی اور مانیں بھی کیوں کہ جب تمہاری جوانی تھی تم یہاں جھک مارتے رہے ہماری باری تمہیں ریاستِ مدینہ بنانی یاد آ گئی ہے…..
یہ مسلسل رپورٹ ہو رہا ہے کہ یہاں بچیوں کو چھٹیوں کے بہانے لایا جاتا ہے ان کی زبردستی شادی کرائی جاتی ہے، اگر لڑکی کسی صورت نہ مانے تو اس کو مار بھی دیا جاتا ہے، درجنوں رپورٹس ہیں کہ باپ یا بھائی یا کزن خود ریپ کرتے ہیں اور بعد میں اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر خود قتل کرتے ہیں اور پھر خود کو معاف کر دیتے ہیں اور اس سب کے باوجود وہ معززین رہتے ہیں اور مرنے والی بد چلن….
کیا دنیا میں سب سے زیادہ پورن دیکھنے والی قوم کے لیے جنسی عمل عزت اور غیرت کا مسئلہ ہو سکتا ہے؟؟
نہیں ہرگز نہیں مسئلہ پدرسری نظام اور اسکی مذہبی تعبیر و سرپرستی ہے،
مسئلہ مذہب کی غلط بلکہ الٹ تعبیر ہے،
مسئلہ سستی اور گھٹیا قسم کی مشرقی روایات کا تسلط ہے،
یہ پدرسری نظام ہے جو ہر سطح پر عورت کے خلاف ایک سسٹم کو جنم دیتا ہے جو ایک جانب عورتوں کے خلاف لطیفے بنواتا ہے، تو دوسری طرف عورتوں کو ان کے اصل مسائل سے بلکل لاتعلق کر کے انکو ان چیزوں میں الجھاتا ہے جو انکے لیے مستقل الجھن کا سامان پیدا کرتے ہیں، مثلا اگر آپ عورتوں میں غالب شاپنگ کی خواہش دیکھیں تو مجھے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ بھی پیٹرییاکی کا بنایا ایک ویب ہے کہ جس نے عورت اور خصوصاً امیر گھروں کی عورتوں کو چاروں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ عورتوں کے اصل ایشوز پر بات تو دور غور بھی نہ کر سکیں، جن کے لیے جائیداد میں حصہ، کام کرنے اور اپنی مرضی کی پڑھائی کی اجازت سے زیادہ اہم لیڈیز کلب کی ممبر شپ اور فری شاپنگ کوپنز ہوں، اور وہ ایسی خرافات سے الجھ کر رہ جائیں کہ اصل مسائل یاد تک نہ رہیں….
اگر آپ غور کریں تو اس وقت دنیا کی ننانوے فیصد دولت کا ارتکاز مردوں کے ہاتھ میں ہے اور آج کی کیپیٹلسٹ دنیا میں آزادی کا صرف اور صرف ایک مطلب ہے اور وہ ہے معاشی آزادی…..ایک غریب مرد بھی آج کے معاشرے میں اتنا ہی بے بس، لاچار اور ذلیل و خور ہے جتنی عورت لیکن اس مطالبے کہ ہمارے پاس ہمارے اپنے ذاتی پیسے ہونے چاہئیں کیونکہ ہاتھ میں پیسا ہونا ہی اعتماد اور حفاظت کی ضمانت ہے سے ہماری بظاہر پڑھی لکھی عورتیں بھی لا علم ہیں، عورتوں کے حقوق مانگتی عورت مارچ میں شریک عورتوں کے مطالبات پڑھ کر غصہ اور ہنسی دونوں آتی ہے کہ یار کس خوبصورتی بلکہ بیغرتی سے مرد نے عورت کو انٌ مطالبات تک سے دور رکھا کہ جن سے انکے مسائل حل ہونے کی راہ نکلنی تھی…..
میرا جسم میری مرضی اچھی بات ہے لیکن اگر ٹھنڈے دل سے پانی پی کر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ بہت سطحی بات ہے جو کہ فیکچولی بھی غلط ہے، کیا مرد کو اپنے جسم پر پورا اختیار ہے؟؟ اندرونِ جسم تو چھوڑ ہی دیں کیا مرد جو چاہے کپڑے پہن کر باہر نکل سکتا ہے؟؟ کیا مرد ایک چھوٹا سا انڈر وئیر اور بنیان پہن کر باہر گلی میں جا سکتا ہے؟؟ نہیں ایسا نہیں ہے…. کیا مرد آج بھی اس معاشرے میں بیچ بازار میں کھڑے ہوکر چرس کا سگریٹ پی سکتا ہے؟؟ اگر ہاں تو ایسا کرتے آپ نے کتنے مردوں کو دیکھا ہے؟؟
بستر گرم کر دوں گی کھانا خود گرم کر لو… واہ کیا ڈیل ہے مرد کو اور کیا چاہیے ہے کھانا تو ویسے بھی اب فوڈ پانڈہ کی ذمہداری ہے…
دوپٹہ اتنا پسند ہے تو خود پہن لو…. فیئر ڈیل، نو ایشوز تم بھی نہ پہنو so I can see you properly تم دوپٹہ اتار دو،گھر میں موجود عورت کو میں نکلنے دوں گا نہیں اور ہو گا وہ جو میرا یعنی مرد کا ایجنڈا ہے….میں بطور ایک مشرقی مرد یہ کب نہیں چاہوں گا کہ مجھے باہر وہ خواتین میسر ہوں کہ جو سگریٹ ، شراب اور نشے کی شوقین ہوں جن سے سیکس پر کھلی گفتگو ہو سکے عورت کو سگریٹ، شراب اور فری سیکس کی فراہمی میں مرد کا مفاد زیادہ ہے نہ کہ عورت کا….
یہاں سے ذرا واپس چلیے اور اس بحث پر توجہ مرکوز کیجیے جس سے ہم نے اس آرٹیکل کا آغاز کیا تھا یعنی الفاظ کا الجھاؤ….
ہوا کیا ہوا یہ کہ جب عورتوں نے اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے عورت مارچ نکالا تو وہ بھی الفاظ اور جملوں میں پھنس کر رہ گئیں اصل موضوع اصل مسائل دب کر رہ گئے جو سرفیس ہوا وہ تھے پلے کارڈز جن پر ایسے نعرے لکھے تھے جن کے مطالب کو توڑنا اور مروڑنا دونوں بہت آسان تھا کیونکہ انکے پیچھے کوئی فلسفہ کوئی گہرائی اور کوئی پختہ خیال موجود نہیں تھا….
آپ غور کریں کہ اس ملک میں سیاسی جماعتوں نے ہر ہر ایجنڈے کو اپنایا کسی نے مذہب کو اپنی سیاست کی بنیاد کہا تو کسی نے سوشلسٹ انقلاب کو، کسی نے کسان مزدور پارٹی بنائی تو کسی نے سبز انقلاب کی پیپنڑی بجائی، لیکن کیا آج تک آپ نے کبھی یہ سنا کہ ایک ایسی پارٹی بھی ہے جس کا بنیادی فوکس عورت کے مسائل اور مطالبات ہوں اور وہ اس کی بنیاد پر اپنا سیاسی بیانیہ ترتیب دے؟؟
ایک ایسی پارٹی کہ جس میں کوئی اہم عہدہ کسی مرد کے پاس نہیں ہو گا، جس پارٹی کے سارے فیصلے عورتیں عورتوں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے لیں گی، جس میں مشاورت تک کے عمل میں کوئی مرد داخل نہیں ہو سکے گا، اس بات پر شاید لوگ ہنسیں اور یہی مرد کی جیت ہے کہ جب بھی عورتوں سے متعلق اہم مسائل پر بات ہو تو اسکا مذاق بنایا جا سکے، یہ اس لیے بھی ممکن نہیں کیونکہ اس پارٹی کو فنڈ کرنے کے لیے کوئی ملک ریاض جیسی عورت کے جس کے پاس اتنے وسائل ہوں جو ملک ریاض کے پاس ہیں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی جہانگیر ترین جیسی فیوڈل لارڈ عورت میسر ہے کہ جو اس پارٹی کی حکومت بنانے کے لیے سارا سال ہیلی کاپٹر اڑائے رکھے….
یاد رکھیے میرے نذدیک غیرت کے نام پر قتل سے زیادہ بھیانک اور زیادہ قبیح فعل غیرت کے نام پر استحصال ہے جو یہاں ہر روز ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غیرت کے نام پر استحصال عورت ہی عورت کا کرتی ہے وہ ماں جو متواتر بیٹیوں کی پیدائش پر انہی بیٹیوں کی موجودگی میں رو رو کر بیٹے کی دعا کرتی ہے تو وہ غیرت کے نام پر استحصال کرتی ہے، وہ بہن جو بھائی کے کان اپنی بھابھی کے خلاف بھرتی ہے وہ غیرت کے نام پر استحصال کرتی ہے، وہ بیوی جو شوہر کے بستر میں لیٹے ہوئے اس سے لپٹ کر اسکے کان اسکی ماں اور بہنوں کے خلاف بھرتی ہے وہ غیرت کے نام پر استحصال کرتی ہے، وہ فی میل ورکر جو اپنے باس کو بہلاح کر دوسری فی میل کولیگز کے متعلق بھڑکاتی ہے وہ غیرت کے نام پر استحصال کرتی ہے اور اکثر یہ غیرت کے نام پر کیا جانے والا استحصال غیرت کے نام پہ قتل پر منتج ہوتا ہے….
میں آج سن 2025 میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں ان تمام غیرت کے نام پر ہوئے قتلوں کو بیغرتی کے نام پر قتل سمجھتا ہوں اور ہر وہ شخص اس بیغرتی میں ملوث ہے جو کسی بھی مطلب میں، کسی بھی صورتحال میں، کسی بھی فلسفے یا مذہبی تعبیر کے تحت اس عمل کو جائز سمجھتا ہے، اور رب سے التجا کرتا ہوں کہ کل آخرت میں تٌو خود ان بیغرتی کے قتلوں کا مدعی بننا جن کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا کیونکہ ان میں سے بیشتر قاتلوں کو مدعیوں نے ہی معاف کیا تھا…..
فیس بک کمینٹ