کچھ باتیں دن رات ہوتی ہیں لیکن کیوں ہوتی ہیں ؟
مثلاً کتے گاڑی کے آگے پیچھے کیوں چند قدم تک بھونکتے ہوئے دوڑتے ہیں ، گاڑی رک جائے تو زرا فاصلے پر رھ کر بھونکنا کیوں جاری رکھتے ہیں۔گاڑی گذر جائے تو ایک دوسرے پر کیوں بھونکتے ہیں اور سورج کی روشنی محسوس ہوتے ہی کیوں منتشر ہونے لگتے ہیں ؟ کیا کتے کو تاریکی سے ڈر لگتا ہے اور روشنی میں اردگرد زیادہ واضح دکھائی اور سمجھائی دیتا ہے؟ یا پھر تاریکی میں وہ خود کو زیادہ بااختیار محسوس کرتا ہے اور روشنی میں لگتا ہے کہ اردگرد بہت کچھ اس کے وجود اور بھونک سے زیادہ موثر اور طاقتور ہے لہذا اس کی شخصیت کا وہ مقام نہیں بنتا جو رات کے سناٹے سے وابستہ ہے؟
کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ گلیوں کے بے توقیر کتوں کی نسبت پالتو کتے ہر حرکت پذیر شے پر موقع بے موقع نہیں بھونکتے بلکہ انہیں اچھے سے ادراک ہے کہ کس پر کتنا بھونکنا ہے اور کسے بھونکتے بھونکتے کاٹ لینا ہے ، کسے بس کاٹنا ہے پر بھونکنا نہیں ۔کیا آپ نے کسی پالتو کتے کو کسی گاڑی کے پیچھے کبھی خامخواہ دوڑتے دیکھا ہے؟ایسا کیوں ہے کہ گلی کے کتے کو کسی پر بھروسہ نہیں نہ ہی اس پر کسی کو بھروسہ ؟ مگر پالتو کتے اور صاحبانِ سگ ایک دوسرے کے بھروسے کیوں رہتے ہیں؟
ایسا کیوں ہے کہ پالتو کتوں اور بے گھر کتوں کے مابین کوئی سگاوی ربط ضبط نہیں ہوتا ؟ کیا یہ طبقاتی معاملہ ہے کہ نسلی، معاشی و سماجی تضاد ؟ کچھ کتے سویلائزڈ کیوں ہوتے ہیں اور کچھ محض جبلی پسند ناپسند کے اسیر کیوں ہوتے ہیں؟
کتا پال طبقہ کہتا ہے کہ اسے چوبیس گھنٹے پابہ زنجیر رکھنا کتے کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ اسی لیے صبح یا شام ٹہلائی ضروری ہے تاکہ مزاجِ سگ قابو میں رہے اور مائل بہ انتہاپسندی نہ ہو۔
تو پھر گلیوں بازاروں کے آزاد منش کتے کیوں اتنے جذباتی و بھڑکیلے اور بھونک کے ہلکے ہوتے ہیں ؟ ان کے گلے میں تو زنجیر بھی نہیں ہوتی، جب چاہیں اپنی ٹہلائی خود کر سکتے ہیں۔ ان کی تو غذا بھی پرہیزی نہیں ہوتی، جو پسند یا میسر آئے کھالیتے ہیں۔ پھر وہ کیوں ہر آتی جاتی گاڑی کے پیچھے ہلکان ہوتے ہیں؟ اگر انہیں واقعی گاڑی سے ڈر لگتا ہے تو پھر گاڑی میں بیٹھے اٹھکیل لاڈلے کتوں کو اس میں سواری سے کیوں ڈر نہیں لگتا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ گلی کا کتا بھی آتی جاتی گاڑی میں بیٹھنے کی لاشعوری خواہش پوری نہ ہونے پر مشتعل ہو جاتا ہو اور تب تک بے نقط بھونکیلیت سے اپنی محرومی اتارتا ہو جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے؟
کہیں اسے یہ جبلی وہم تو نہیں کہ ابھی جو گاڑی فراٹے بھرتی سامنے سے گذری ہے دراصل اس سے خوفزدہ ہو کر بھاگی ہے ۔کوئی تو ہے جو مجھ سے بھی ڈرتا ہے لہذا یہ دلچسپ کھیل ہر گاڑی پر آزمانا چاہیے۔
ایک بات میں نے اور نوٹ کی۔ سڑک پر پلنے والا کتا بھلے کتنا ہی اجڈ ہو مگر وہ رات میں بھی ہر راہگیر پر نہیں بھونکتا۔ وہ بھکاری و نشئی یا غریب الشکل کے ڈنڈے اور گالی کو بالکل خاطر میں نہیں لاتا مگر بابو لوگوں کے ساتھ دور کی علیک سلیک ہی برتتا ہے ۔حالانکہ بابو لوگوں کے ہاتھ میں بظاہر ڈنڈہ بھی نہیں ہوتا۔ کیا آوارہ کتا بھی جانتا ہے کہ کس راہ گیر کی کیا اوقات ہے اور اسے اسی حساب سے پروٹوکول دینا چاہیے؟
اور یہ بازارو کتے تاریکی میں ہمیشہ غول کی شکل میں کیوں گھومتے اور حملہ آور ہوتے ہیں اور سپیدہِ سحر نمودار ہوتے ہی غول اپنے اپنے خول میں کیوں سمٹ جاتا ہے؟ کیا اتحادِ سگاں تاریکی میں ہی برقرار رھ سکتا ہے؟
ایک ذاتی مشکل بھی آن پڑی ہے۔ ملالہ تو چار دن میں ہی چلی گئی، اب کس پے بھونکوں؟