بھارتی سیکورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں فائرنگ کرکے درجن بھر سے زائد نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر ہلاک کردیا۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کے حملوں میں چار شہری اور ستر سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ مشتعل مظاہرین کے حملوں اور کارروائیوں کے نتیجہ میں تین بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس طرح سری نگر کے جنوب میں واقعہ علاقوں میں دن بھر کی کارروائیوں میں 20 سے زائد افراد بھارتی حکومت کی عاقبت نااندیشانہ پالیسی اور فوج کی طرف سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت اس غلطی کا اقرار کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ کشمیری عوام کے جائز نمائیندوں کے ساتھ مذ اکرات کرنے اور کشمیر میں بھڑکی ہوئی احتجاج کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تحریک خود ارادی کو دہشت گردی اور پاکستان کی تخریب کاری کہتے ہوئے اصل مسئلہ سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ بھارتی سرکار کی طرف سے ہر ممکن کوششوں کے باوجود قابو میں نہیں آسکا ہے۔ برہان وانی کو دو برس قبل دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر شہید کیا گیا تھا حالانکہ اس نوجوان کی صداقت اور درست عزم کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ خود مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ حسینہ معین نے اس سانحہ کے بعد یہ اعتراف کیا تھا کہ اگر انہیں یہ علم ہوتا کی سیکورٹی فورسز برہان کو ہلاک کردیں گی تو وہ کبھی اس کی اجازت نہ دیتیں۔ اگر یہ بیان سیاسی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہو تو بھی یہ بات تو واضح ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج جن نوجوانوں کو عسکریت پسند یا پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتی ہے، وہ دراصل حریت پسند ہیں اور کشمیری عوام بھی ان کی معصوم اور جرات مندانہ جد و جہد کو جائز اور درست مانتے ہیں۔ اسی لئے ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ برہان وانی کوئی مجرم نہیں تھا اور نہ ہی غدار تھا بلکہ وہ کشمیری عوام کے دل کی دھڑکن تھا۔
خبروں کے مطابق آج ضلع شوپن میں شروع ہونے والا تشدد بھی فوج کی ایسی ہی کا رروائی کے خلاف مظاہرہ کے بعد دیکھنے میں آیا ہے جس میں بھارتی فوجی دستوں نے چند کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر ان پر چڑھائی کردی۔ علاقے کے شہریوں کو اس حملہ کی خبر ہوئی تو وہ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور بھارتی فوج کےخلاف مظاہرہ کرنے لگے۔ سیکورٹی فورسز نے صورت حال کی نزاکت اور حساسیت کو سمجھنے اور وہاں سے پسپائی اختیار کرنے کی بجائے نوجوانوں کے گروہ کے علاوہ مظاہرہ کرنے والوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یہ حکمت عملی غیر انسانی اور ناجائز تھی لیکن دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار بننے والی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والی بھارتی سرکار کو آزادی اور حق خود اختیاری کا مطالبہ کرنے والے نوجوانوں پر انسانیت سوز ظلم کرتے ہوئے کسی اصول یا عالمی معاہدوں کا خیال نہیں آتا۔ اسی کٹر رویہ کی وجہ سے بھارت کی حکومت کشمیرکو متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود ’اٹوٹ انگ‘ قرار دینے پر اصرار کرتی ہے۔ ہزاروں انسانوں کا خون بہانے اور کشمیر پر فوجی طاقت کی بنا پر تسلط برقرار رکھنے کے باوجود بھارت کے نہاد جمہوری رہنما یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ سچ وہ نہیں ہے جو وہ بھارتی عوام اور دنیا کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اصل سچ وہ ہے جو کشمیری عوام آئے دن مقبوضہ وادی کی گلیوں میں اپنے خون سے رقم کرتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس بھارتی کارروائی کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ افسوس دنیا میں انسانی حقوق نافذ کروانے کا پرچم اٹھانے والی مغربی طاقتیں اس قسم کے سانحات پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور برصغیر میں کشمیر کے عوام کی آواز برحق ہونے کے باوجود عالمی اداروں کے بلند ایوانوں تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہے۔ شاید یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وقت کے ساتھ آزادی کی یہ آوازیں مدھم پڑ جائیں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیری اور فلسطینی عوام ستر برس سے آزادی کی مشعل اٹھائے ہوئے ہیں اور استبد اد ر ظلم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ ایک کے بعد دوسری نسل قربانی کے ایک نئے جذبہ سے آزادی کے لئے آگے بڑھتی ہے۔ بھارت کشمیری عوام سے اقوام متحدہ کے ذریعے استصواب کروانے کا وعدہ کرنے کے باوجود اس سے انحراف کررہا ہے۔ عالمی ادارہ اپنی قرار دادوں کے باوجود بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اقتصادی اورسفارتی اثر و رسوخ کی وجہ سے کوئی عملی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ کے اسی دوہرے کردار کی وجہ سے کمزور اور ترقی پذیر اقوام میں یہ تاثر یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ یہ ادارہ طاقت ور ملکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے کلب کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جہاں کشمیر یا فلسطین کے لئے اٹھنے والی اکا دکا آوازوں کو کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے جارحانہ رویہ اور عوام کے مطالبہ کو مسترد کرنے کی وجہ سے ہی نوجوان نسل عسکریت پسندی کی طرف رجوع کرنے اور پتھروں سے اسرائیلی اور بھارتی افواج پر جوابی حملے کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ دنیا میں تشدد کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ ان نوجوانوں کی آواز کو سنا جائے اور طاقت ور ملکوں کے ظلم کو ختم کروانے کے لئے پوری دنیا یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ