انتخابی نتائج تو جانے کیا ہوں گے مگر پہلی بار ایک وائرل ویڈیو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کشمور جیسے پسماندہ دیہی علاقوں میں نوجوان روایتی سیاسی امیدواروں سے کسی اور سہولت کی نہیںبلکہ تعلیمی سہولتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے تبدیلی آ رہی ہے۔
مگر پاکستان کی موجودہ سیاسی، اقتصادی و سماجی انتشاری فضا میں چند دردمند افراد اور این جی اوز یا فلاحی اداروں کو چھوڑ کے کیا کوئی اہم سیاسی گروہ یا طبقہ ایسے بنیادی اقدامات کی شدید خواہش رکھتا ہے کہ جن کے ذریعے پہلی جماعت سے اعلی سطح تک تعلیمی معیار بتدریج بہتر ہوتا چلا جائے اور ہم اپنے تعلیمی اداروں سے خواندگی کے نام پر ہر سال ایک بے مصرف تازہ ہجوم سماجی کڑھاؤ میں انڈیلنے کے بجائے ایک تربیت یافتہ علم دوست و جدت پسند نسل پروان چڑھا سکیں۔
گمان ہے کہ سرکاری سیکٹرز میں محکمہ تعلیم روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔مگر اہلیت ، انتخاب اور جوابدہی کے تناظر میں سب سے کمزور شعبہ بھی یہی ہے۔میرا مشاہدہ ہے کہ پولیس کے بعد جس محکمے میں سب سے زیادہ سیاسی مداخلت ہے وہ تعلیم ہے۔اگر آج آغاخان ٹیسٹنگ سروس جیسے کسی جانچ ادارے کے ذریعے اسکول سے لے کر سرکاری یونیورسٹیوں تک اساتذہ اور منتظمین کی قابلیت پرکھی جائے تو مجھے یقین ہے کہ کم ازکم نصف تعداد اپنے مضمون پر مناسب عبور اور پڑھانے کی اہلیت کی بابت نااہل ثابت ہوگی۔اس بوجھ کے ہوتے اگر فرشتے بھی بہترین نصاب مرتب کر دیں اور تنخواہوں و مراعات میں بھی سو فیصد اضافہ کر دیا جائے تب بھی ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا۔
ظلم یہ ہے کہ ہزاروں ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں جن کے پاس مطلوبہ قابلیت و صلاحیت ہے جوتیاں چٹخاتے گھوم رہے ہیں۔اگر انھیں ٹیچنگ کی جدید پیشہ ورانہ تربیت دے کر ملازمت دی جائے تو یقیناً تدریسی معیار میں فرق پڑنا شروع ہو جائے گا مگر سیاسی مصلحت محکمہ تعلیم میں بھرے نااہلوں سے جو ہرِقابل کے لیے جگہ کیسے خالی کروائے گی ؟
دوسرااہم مسئلہ نصاب کی تشکیل کا ہے۔نصاب ایک نسل کو خونخوار بھی بنا سکتا ہے اور نصاب ہی ایک نسل میں انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبے کو بھی کوٹ کوٹ کر بھر سکتا ہے۔نصاب ہر سال تیزی سے بدلتی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مسلسل نظرِثانی اور اساتذہ کو جدت کاری کا عادی بنانے کے لیے ریفریشر کورسز و تربیت کا متقاضی ہے۔
پاکستان کے سرکاری تعلیمی ادارں میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے وہ اتفاق سے زیادہ نفاق کی تعلیم دیتا ہے۔وہ عشروں پرانے حقائق اور فارمولوں پر استوار بے رنگ و بے بو و بے ذائقہ پلندہ ہے۔جن کے اپنے ہجے درست نہیں وہ اردو اور انگریزی پڑھا رہے ہیں ، جو بنا کیلکولیٹر سادہ جمع تفریق نہیں کرپاتے انھیں بچوں کے پڑھانے کو الجبرا تھما دیا جاتا ہے۔اس کا ثبوت آپ کسی بھی قصبے کی بک شاپ میں جا کے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ فروخت گذشتہ برسوں کے حل شدہ امتحانی پرچوں اور انگریزی ، اردو ، میھتس کی گائیڈ بکس کی ہے۔یعنی استاد سے تو کچھ ملنا نہیں اس لیے رٹا لگاؤ اور تینتیس نمبر حاصل کر کے کامیاب ہو جاؤ۔یہی نظام ہے جو حاضری لگا کے گھر بھاگنے یا متبادل نوکری یا ٹیوشن کا کاروبار کرنے والی مافیا کو بھاتا ہے۔
کسی بھی بچے کو پہلی بار اسکول اور تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے چمکیلے رنگ، نرم چہرے والے مسکراتے اور طفلانہ نفسیات سمجھنے والے اساتذہ چاہئیں۔ یعنی کنڈرگارٹن اور پرائمری لیول کے استاد و استانی کا جس قدر باصلاحیت اور جاذب ہونا ضروری ہے اتنا کسی اور درجے کے استاد کے لیے ضروری نہیں۔کیونکہ اسی استاد کے کندھوں پر ایک اور تازہ نئی نسل کی تعلیمی بنیاد رکھنے کی سب سے نازک ذمے داری ہوتی ہے۔اگر اس بنیادی مرحلے پر خالص میرٹ پر اچھی تنخواہ والے اساتذہ کو رکھا جائے تو ان کے ہاتھوں رکھی جانے والی بنیاد پر بچہ خود بخود اپنے مشفقوں کی نگرانی میں اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کرتا چلا جائے گا۔
مگر ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے زیادہ نظر انداز اوربے وقعت طبقہ پرائمری اساتذہ کا ہے۔ان اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قدرتی آفات کے موقع پر رضاکاری بھی نبھائیں ، ووٹرز لسٹ اور مردم شماری کی مہم سے لے کر ویکیسینشن تک کی مہم میں اپنا اصل کام چھوڑ کر ہاتھ بٹائیں اور پھر یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ بہتر تعلیمی نتائج بھی پیدا کر کے دیں۔سوچئے جب معمار ایسا تھکن سے چور اور اکتاہٹ کا مارا ہوگا تو بنیاد کیسی رکھے گا اور اس بنیاد پر اعلی تعلیم کی عمارت کتنا وزن سہار پائے گی۔
باقی دنیا میں ’’ بنیاد اچھی ہونی چاہیے‘‘ کے اصول پر سب سے زیادہ تعلیمی بجٹ پرائمری تعلیم کی مد میں رکھا جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں سب سے زیادہ بجٹ اعلی تعلیم کی مد میں مختص کیا جاتا ہے۔یعنی کرتا شاندار لیکن پاجامہ غائب۔
ہمارے ہاں مادری زبان کی جس طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے وہ ایک سانحے سے کم نہیں۔پاکستانی بچے پر دوہرا تہرا عذاب ہے۔گھر میں وہ پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، بشتو ، بلوچی بولتا ہے مگر پورا نصاب اردو یا انگریزی میں ہے۔ یعنی بچپن سے ہی اس پر تین زبانیں لاد دی جاتی ہیں۔اور گھر والے بھی چونکہ احساسِ کمتری کے مارے ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی اسے مادری زبان سے زیادہ اردو اور غلط سلط انگریزی میں الجھا کر رہا سہا حوصلہ بھی پست کر دیتے ہیں۔
ہمارے اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ ہونے کی سب سے بڑی وجہ غربت نہیں بلکہ لسانی اعتبار سے اول جلول تعلیمی نظام ہے۔اگر پرائمری لیول تک تمام بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم ملے اور پرائمری کے بعد انھیں اردو اور انگریزی ’’ کام چلانے کی زبان‘‘ کے طور پر سکھائی جائے تو ڈراپ آؤٹ بچوں کا تناسب حیرت انگیز طور پر کم ہو سکتا ہے۔کون جانے کہ کتنے ہی آئن سٹائن اس لیے کسی مستری کی دوکان پر چھوٹے بن جاتے ہیں کہ ان سے بچپن میں ہی تعلیم کے نام پر ان کی مادری زبان چھین لی جاتی ہے۔
مگر یہاں قابل اور بااعتماد نئی نسل کسے چاہیے ؟ سیاستدان کو ؟ نہیں۔کیونکہ یہ بچے کہیں اس سے کوئی مشکل سوال نہ کر دیں ؟ حکمران اشرافیہ کو ؟ ہرگز نہیں ؟ پھر اشرافیہ کے اپنے بچوں کے محفوظ و ریزرو مستقبل کا کیا ہوگا ؟ اسٹیبشلمنٹ کو ؟ نہیں؟ کیونکہ اسی نسل نے کل کلاں ہوش سنبھال کر یہ پوچھ لیا کہ ہمارا حصہ کہاں ہے تو کیا ہوگا ؟
لہذا تعلیم کی زبوں حالی کا رونا روتے رہو اور صوبائی و قومی حقوق کی آڑ میں نصاب اور اندازِ تعلیم کی بندر بانٹ کرتے رہو ، اپنے کمداروں اور منشیوںکے بچوں کو سرکاری ٹیچری تھماتے رہو اور پھر سارا الزام یہود و ہنود و نصاریٰ پر رکھ دوجوپاکستان کو ہرگز ہرگز ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
پاکستان خیرات و چندہ دینے والے دریا دل ممالک میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہے۔مگر یہ چندہ فقیر کو جاتا ہے ، دائمی زیرِ تعمیر مسجد و مدرسے و روحانی درباروں کو جاتا ہے یا پھر بریانی کی دیگیں بانٹنے پر صرف ہو جاتا ہے۔اگر یہی چندہ اور زکوات و خیرات کسی ڈسپلن کے تحت خوف ِ خدا اور خوفِ مستقبل رکھنے والوں کی نگرانی میں جمع اور خرچ کیا جائے تو تین برس بعد کوئی بچہ اسپتال کی سیڑھیوں پر پیدا نہیں ہوگا ،کوئی بچہ ڈراپ آؤٹ نہیں ہوگا۔بلکہ اتنے بچے چلے آئیں گے کہ ہر اسکول میں صبح شام کی دو دو شفٹیں کرنا پڑیں گی۔یوں اہل مگر بے روزگار نوجوانوں کو بھی کوئی تعمیری روزگاری مصروفیت ہاتھ آ جائے گی۔مگر وہ سرمایہ کاری اور سخاوت کس کام کی جو میڈیا پر نظر نہ آئے۔ معیاری تعلیم تو ویسے بھی ایک خاموش ، صبر آزما اور دیر سے پھل دینے والی انویسٹنمنٹ ہے۔
بنیادی بیماریوں کا علاج کرنے کے بجائے باتوں کی مرہم پٹی سے دل اور وقت تو بہل جائے گا لیکن جب تک منصوبہ بند نا اہلی کا کتا تعلیم کے کنوئیں میں موجود ہے اصلاحات کے نام پر چالیس ڈول نکال لیں یا ڈال لیں کچھ نہ ہونے کا۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ