اس وقت پنجاب کو سموگ نے گھیر رکھا ہے۔ یہ سموگ بھارت اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف چاول کی زیرِ کاشت زمین کو گندم کی بوائی کے لیے تیار کرنے کی خاطر دھان کے ڈنٹھلوں اور بھوسے کو آگ لگانے سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر سال چیخ و پکار ہوتی ہے ۔ تدارک کے لیے متبادل طریقے اپنانے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے ۔ اگلے موسمِ سرما میں پھر کھیتوں میں وہی آگ، دھواں، پروازوں اور ٹرینوں کے اوقات میں تاخیر، سانس کی اضافی بیماریاں اور وہی چیخ و پکار و یقین دھانیاں ۔
دھان کے ڈنٹھلوں اور بھوسے کو جلانے سے جو سموگ پیدا ہوتا ہے وہ تو مہینے دو مہینے میں برابر ہوجاتا ہے مگر ایک اور سموگ بارہ مہینے قومی آسمان پر چھایا رہتا ہے اور ہم سب اس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ زندگی کا لازمی جزو لگنے لگا ہے ۔ہر کچھ عرصے بعد اس سرزمینِ آئین کی بے آئین جاگیر کا وارڈن نئے ہائبرڈ بیج لاتا ہے انہیں ذوق و شوق سے کاشت کرتا ہے، ایک سال فصل اچھی ہوتی ہے، اگلے برس کھاد کم پڑ جاتی ہے، اس سے اگلے موسم میں پانی پورا نہیں ملتا یا کوئی قدرتی آفت آ جاتی ہے، کسی سال زمین پوری طرح صاف یا ہموار نہیں ہو پاتی ۔
ایسی بھی کیا جلدی؟یوں پچھلے کی طرح نئے ہائبرڈ بیج کی پیدواری صلاحیت سال بہ سال کم تر ہوتی جاتی ہے، کبھی پودے چھوٹے رہ جاتے ہیں، کبھی دانے کم بنتے ہیں، کبھی پالا مار جاتا ہے تو کبھی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور نگرانی بیج کا جوہر ہلاک کر دیتی ہے۔ نگراں زمیندار کے پاس اتنا وقت اور صبر نہیں ہوتا کہ اسباب پر دھیان دیا جائے اور ازالے کی عقلی و سائنسی تدبیر کی جائے اور بیج کے قدرتی انداز میں پھلنے پھولنے کی گنجائش مسلسل رکھی جائے۔ اسے بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے یا سمجھائی جاتی ہے کہ یہ بیج بھی خراب نکلا۔ چنانچہ ڈنٹھلوں اور بھوسے کی صفائی کے لیے زمین کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ فضا پھر سموگ سے بھر جاتی ہے۔ ہر بار اتنا گہرا سموگ بنتا ہے کہ سامنے کی دیوار پر یہ موٹا موٹا لکھا بھی دکھائی نہیں دیتا کہ "عقل ِ کل صرف خدا کی ذات ہے”۔ اور سیاہ زمین پر پھر پرانے طریقے سے گوڈی کر کے پھر ایک نیا اور مہنگا ہائبرڈ بیج اس امید پر کاشت کر دیا جاتا ہے کہ اس بار نتائج مختلف نکل آئیں گے ۔ محکمہ زراعت اگر ٹیکنالوجی سے رجوع کرے اور اس کی جانب کسانوں کو راغب کرنے کی مہم چلائے تو دھان کا سموگ ڈنٹھلوں اور بھوسے کو آگ لگانے کے بجائے جڑوں سے اکھاڑ دینے والی جدید مشینری کے استعمال سے باآبسانی ختم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح محکمہ زراعت چاہے تو قومی سیاسی سموگ سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اگر ہائبرڈ بیجوں کی جگہ زمین کو راس آنے والی مقامی فصلوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔ ان پر کیڑے مار ادویات کا بلا ضرورت چھڑکاؤ نہ ہو، کام اور تحقیق میں طاق زرعی ماہرین کے مشوروں پر سنجیدگی سے کان دھرا جائے اور اپنی وقت بے وقت بقراطی کو لگام دے کے رکھا جائے۔ فصل لہلہا سکتی ہے اگر بے صبری اور من مانے نتائج حاصل کرنے کی عجلت پسند طبیعت کو قابو میں رکھتے ہوئے صبح شام ہر پودے کو اکھاڑ کے چیک نہ کیا جائے کہ اس نے زمین میں اب تک جڑ کیوں نہیں پکڑی۔ تو کیا میں سمجھوں کہ اس وقت ہم جس زرعی و غیر زرعی سموگ کی لپیٹ میں ہیں وہ آخری سموگ ہے اور نیا سال سموگ فری ہو گا ؟ کاش میں یہ بات کہہ سکتا۔
( بشکریہ :بی بی سی اردو )