میں لالہ موسی سے ملتان کی طرف رواں دواں تھا کہ اچانک میرے سیل فون پر بیل ہوئی ۔میں نے گاڑی سائڈ پر روکی اور فون سننے لگا دوسری طرف ایک اجنبی آواز تھی آپ قمررضا شہزاد بات کر رہے ہیں اس نے مؤدب لہجے میں پوچھا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس اجنبی آواز نے اپنا تعارف ڈپٹی ڈائریکٹر پی این سی اے اسلام آباد کے حوالے سے کروایا اور فرمایا کہ 26دسمبر کو مرزاغالب کی سالگرہ کے حوالے سے ایوان صدر میں کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ جس میں آپ کو بھی مہمان شاعر کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ کیا آپ شریک ہوسکیں گے۔میں ایک لمحے کے لئے ٹھٹھکا اور سوچنے لگا یہ کوئی فیک کال ہے اور کوئی مجھے محض مذاقا فون کر رہا ہے۔ کیونکہ ایوان صدر میں ایسی کوئی بااثر شخصیت میری دوست نہیں جو مجھے مشاعرے میں مدعو کرسکے۔ اور نہ ہی حکومت وقت کے کسی وزیر یا مشیر سے میرا ایسا تعلق ہے۔ جو میرا نام recommend کرے۔ خیر میں نے بھی جواب دیا کیوں نہیں میں ضرور شریک ہوں گا۔ میری آمادگی پر موصوف نے میرے کوائف لئے امدورفت کے معاملات طے کرنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ مشاعرے میں مرزا غالب کے مصرعے پر ہی غزل پڑھنی ہوگی۔
اس دوران شاکر حسین شاکر سے بھی مجھے علم ہوگیا کہ ملتان سے اسے بھی اس مشاعرے کی دعوت دی گئی ہے۔چنانچہ یہ تسلی تو ہوگئ کہ مشاعرہ واقعی ہو رہا ہے۔
ایوان صدر میں جانے کا یہ میرا دوسرا اتفاق تھا اس سے پہلے 1995 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انٹر نیشنل اہل قلم کانفرنس کے موقع پر وہاں ایک ڈنر میں شریک ہوا۔ اس وقت پاکستان کے صدر فاروق لغاری تھے۔ ۔ جنہوں نے بعد میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بر طرف کر کے اپنی ہی پارٹی کے سینے میں خنجر گھونپا تھا ۔
مشاعرے سے ایک یوم قبل میں اور شاکر ایک ہی پرواز سے اسلام آباد پہنچے ۔ جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا ۔ دیگر شعرا بھی وہیں قیام پزیر تھے۔ انور شعور ۔ سحر انصاری ۔ فاطمہ حسن ۔ نصیر ترابی۔ نزیر تبسم ریاض مجید۔ انجم سلیمی ۔ حمیدہ شاہین. محسن شکیل بیرم غوری سے ناشتے پر ہماری ملاقات ہوئی ۔
امجد اسلام امجد بھی دوپہر تک وہیں پہنچ گئے۔ چار بجے کے قریب تمام احباب پی این سی اے پہنچے ۔ جہاں پی این سی کے ہیڈ معروف آرٹسٹ جمال شاہ نے ہمارا استقبال کیا
جبکہ وہاں دیگر اہم شعرا افتخار عارف انور مسعود۔ توصیف تبسم۔ جلیل عالی۔ یاسمین حمید احسان اکبر ۔ نصرت زیدی اوراخترعثمان موجود تھے۔ اس موقع پر منیر نیازی اور پروین شاکر کی برسی کے حوالے سے دونوں شخصیات کے لئے دعا کی گئی۔ پی این سی اے کی طرف سے شعرا کو شال کا تحفہ دیا گیا۔ چائے کے بعد شعرا ایک قافلے کی صورت میں ایوان صدر روانہ ہوگئے۔ سیکورٹی کلیرنس کے بعد شعرا کو مشاعرہ گاہ میں پہنچایا گیا۔ ۔مشاعرہ گاہ سے ملحقہ لابی میں پاکستان کے تمام گزشتہ صدور کی تصاویر آویزاں تھیں۔ جو کہ پاکستان کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سبق بھی دے رہیں تھیں کہ آپ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ۔ بالآخر آپ کو ایک بے جان تصویر کی شکل اختیار کرنی ہوتی ہے۔ ان تصاویر میں ضیا الحق ۔مشرف ۔غلام اسحق خان فاروق لغاری جیسے طاقتور صدور کی تصاویر بھی تھیں ۔ اور فضل الٰہی رفیق تارڑ اور ممنون حسین جیسے محض نام کی حد تک صدور کی تصاویربھی ۔ ان تمام تصاویر کو دیکھ کر مجھے میر کا ایک شعر یاد آرہا تھا
جائے عبرت ہے خاکدان جہاں
تو کدھر منہ اٹھائے جاتا ہے
مشاعرے کا ایک حسن جس نے مجھے متاثر کیا کہ سٹیج پر صرف شعرا براجمان تھے ۔ جبکہ صدر پاکستان عارف علوی اور دیگر وزرا فرشی نشستوں پر سامعین میں تھے
اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عاصمہ شیرازی نے انجام دئیے۔
تقریبا تمام شعرا نے غالب کی زمینوں میں اپنی غزلیں پیش کیں۔ ۔ مشاعرے کے اختتام پر صدر عارف علوی نے بعض سینئر شعرا کے پاس جاکر ان کی نشستوں پر انہیں شیلڈز دیں۔
فاطمہ حسن بتارہی تھیں کہ ایوان صدر میں مشاعروں کی روایت صدر ممنون حسین نے شروع کی۔ جسے اب عارف علوی صاحب آگے لے کر بڑھ رہے ہیں
ہال میں موجود صاحبان اقتدار کے دمکتے ہوئے چہرے اور ان کے گرد ہجوم دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ کل جب ان کا سورج ڈھلے گا۔۔۔۔۔۔ تو یہ ہجوم نئے آنے والوں کے گرد بھی اسی طرح اکٹھا ہوگا۔ اور جانے والے تصویروں میں رہ جائیں گے
بقول عامر بن علی
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتاؤ دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے
فیس بک کمینٹ