کوئی بھی مسئلہ دو طرح سے حل ہو سکتا ہے۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ اسے حل کر دیا جائے ، دوسرا یہ ہے کہ اسے مسئلہ ہی نہ سمجھا جائے۔جیسے اکتوبر دو ہزار سولہ میں کسی غیر ذمے دار اخبار میں نہیں بلکہ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوا کہ لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کمپلیکس میں گردے کے ڈائلیسس کے چھپن مریض ایچ آئی وی پازیٹو ( ایڈز کے وائرس میں مبتلا ) پائے گئے۔ان میں سے چھتیس مریض نہ صرف ایچ آئی وی بلکہ ہیپاٹائٹس سی کا بھی شکار تھے۔بعد ازاں باضابطہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ڈیڑھ ہزار بستروں پر مشتمل بالائی سندھ کے اس سب سے بڑے میڈیکل کمپلیکس کا اپنا کوئی بلڈ بینک یا بلڈ اسکریننگ کا نظام نہیں تھا ( آج بھی ہے کہ نہیں، میں تصدیق نہیں کر سکتا )۔
چنانچہ مریض اسپتال کے باہر کمرشل بلڈ بینکوں سے خون خرید کے لانے پر مجبور تھے۔اگرچہ ان پر اسکرینڈخون لکھا ہوتا تھا مگر چونکہ اسپتال کے پاس پرائیویٹ بلڈ لیبس کی اسکریننگ رپورٹوں کے تجزیے کو کراس چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں تھا لہذا یہ خون استعمال ہوا۔اس خون نے نہ صرف ڈائلسس کے آلات کو آلودہ کیا بلکہ مریضوں کی زندگیوں کو بھی ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس سی کے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں تین میں سے دو بلڈ بینکوں کو غیر معیاری قرار دے کر سیل کر دیا گیا اور کچھ عرصے بعد انھیں دوبارہ کام کی اجازت مل گئی۔
یہ داستان تھی دو ہزار سولہ کی۔آئیے فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں تین برس اور مئی دو ہزار انیس میں آجاتے ہیں۔ پانچ روز پہلے روزنامہ ڈان میں شائع متعدی امراض کی سرکردہ ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مضمون سے معلوم ہوا کہ دو ہزار سولہ کے سانحے سے عبرت پکڑتے ہوئے اب تک کے تین برسوں میں صاف و صحت مند خون کی ترسیل کے شعبے میں کیا کیا ’’ انقلابی پیش رفت‘‘ ہوئی۔
ڈاکٹر صاحبہ فرماتی ہیں کہ لاڑکانہ میں ایک عرصے سے منشیات کے عادی افراد استعمال شدہ سرنجیں نشے کی جسم میں ترسیل کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ان میں سے لگ بھگ ستائیس فیصد افراد ایچ آئی وی پوزیٹو پائے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے خون فروخت کرتے ہیں۔یہ خون جو لیبارٹریاں اسکرین کرتی ہیں ان کے پاس بلڈ ٹیسٹنگ کٹس کس معیار کی ہیں اور کب سے استعمال ہو رہی ہیں؟یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ پھر یہ مشکوک اسکرینڈ ِخون نجی بلڈ بینکس کے ذریعے مریض خریدتے ہیں۔
گزشتہ ماہ جب خبر آئی ہے کہ لاڑکانہ کے معروف قصبے رتو ڈیرو میں ایک ڈاکٹر کو استعمال شدہ سرنجوں کے ذریعے ایچ آئی وی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد پہلے میڈیا کے کیمروں اور تنقیدی توپوں کا رخ رتو ڈیرو کی جانب ہوا۔ پھر میڈیا کے تدارک کے لیے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے جھرجھری لی اور پروگرام مینجر ڈاکٹر سکندر میمن کے بقول ’’ صوبائی وزیرِ صحت محترمہ عذرا پیچوہو اور ہیلتھ سیکریٹری کی خصوصی ہدایت پر علاقے میں ہنگامی بلڈ اسکریننگ کیمپس قائم کیے اور ماشااللہ صورتحال کنٹرول میں ہے‘‘۔ ( اناللہ وانا الیہ راجعون )۔
اب تک صرف رتو ڈیرو اور آس پاس کے علاقوں میں ’’خصوصی ہدایت ’’ پر اسکریننگ کے نتیجے میں ساڑھے پانچ سو نئے ایچ آئی وی پازیٹو کیسز سامنے آئے ہیں اور ان میں سے لگ بھگ ساٹھ فیصد دو سے پانچ برس کی عمر تک کے بچے ہیں ( جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے گا شائد تعداد اور بڑھ چکی ہو )۔
اب یہ کم سن بچے کیسے ایچ آئی وی پازیٹو ہو گئے۔کیا یہ ڈاکٹروں کی استعمال شدہ آلودہ سرنجوں کا شکار ہوئے یا والدہ سے وائرس منتقل ہوا یا پھر یہ معصوم بچے بلڈ ٹرانسفیوژن کے راستے برباد کیے گئے۔
گویا دو ہزار سولہ میں جو حالات تھے آج اس سے بھی بدتر ہیں۔بلڈ اسکریننگ کا نظام تب بھی چوپٹ تھا آج بھی چوپٹ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام انیس سو چورانوے سے کام کر رہا ہے۔سندھ میں محفوظ خون کی اسکریننگ کا قانون انیس سو ستانوے میں منظور ہوا اور سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی انیس سو اٹھانوے سے کام کر رہی ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کوئی ناگہانی ہے یا کوئی سونامی اچانک ہمارے شہروں میں گھس آیا۔انیس سو چورانوے میں اندازہ تھا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی پازیٹو آبادی چالیس ہزار ہے۔آج سرکاری طور پر ایک لاکھ پینسٹھ ہزار تسلیم کی جاتی ہے۔مگر متاثرہ آبادی کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ریکارڈ، سروے یا فالواپ کا کوئی رواج یا انتظام نہ تھا نہ ہے۔
دو ہزار سترہ میں اقوامِ متحدہ کے صحت ذرائع کا اندازہ تھا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی پازیٹو کے سالانہ بیس ہزار نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔اور ایشیا میں فلپائن کے بعد پاکستان دوسرا نیا ملک ہے جہاں ایچ آئی وی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی ، سی اور ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے کوئی تسلی بخش حکمتِ عملی نہیں۔تینوں وائرس کم و بیش یکساں حالات و وجوہات کے سبب پھیل رہے ہیں۔(اور جس وائرس کے خاتمے کے لیے حکومت سنجیدہ ہے اسے کچھ لوگوں کے عقلی نابینا پن نے یرغمال بنا رکھا ہے۔یعنی پولیو )۔
لاڑکانہ تو آج کل صرف اس لیے مرکزِ نگاہ ہے کیونکہ اس وقت میڈیا کی اسپاٹ لائٹ اس پر ہے۔اور میڈیا یہ دیکھ رہا ہے کہ جب بھٹو خاندان کے گڑھ میں صحت و اسکریننگ کا یہ حال ہے تو باقی علاقوں کا کیا کہا جائے۔میڈیا کے دباؤ میں ہی نواحی ضلع شکار پور میں بھی اسکریننگ کیمپ لگ گئے۔ وہاں بھی نتائج لاڑکانہ سے مختلف نہیں۔بلوچستان کا ضلع کیچ لاڑکانہ سے بہت دور ہے مگر وہاں سے بھی اطلاع آ رہی ہے کہ ماہانہ اسکریننگ کی مارچ رپورٹ کے مطابق ایک سو سات ایچ آئی وی پازیٹو کیسز سامنے آئے اور اپریل کے مہینے میں تین سو دس نئے کیسز سامنے آئے۔
اگر ریاست واقعی درست اور اپ ٹو ڈیٹ تصویر چاہتی ہے تو پھر اسے پوری آبادی کو اسکرین کرنا پڑے گا۔مگر سیمپلنگ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پورا پاکستان یا کم ازکم پورا سندھ ہی لاڑکانہ ہے۔اس وبا کو پھیلانے والوں میں یو ایس ایڈ سروے کے مطابق پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے چھ لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹر پیش پیش ہیں۔
مگر جب سے میں نے یہ خبر پڑھی ہے کہ رتو ڈیرو کا جو ڈاکٹر چھ بچوں کو آلودہ سرنجوں کے استعمال سے ایچ آئی وی پازیٹو کرنے کا ذمے دار ہے اس کی تعلیم ایک تسلیم شدہ میڈیکل کالج کی ہے۔ میں اب غفلت و لالچ سے مسلح موت و معذوری بانٹنے والے اس دستے میں اب اتائیوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کو بھی شامل کرنے پر مجبور ہوں۔
یہ سب یوں ہو رہا ہے کہ نگرانی اور جواب دہی کا ڈھانچہ صحت کے انتظامی انہدام سے بہت پہلے ہی منہدم ہو گیا۔اس کے بعد بھی اگر کچھ بچ گیا ہے تو معجزہ جانو۔
اچھا بھاڑ میں جائے یہ سب۔یہ فرمائیے کہ کیا نیب زرداری صاحب پر عید سے پہلے ہاتھ ڈالے گا کہ عید کے بعد؟ڈالر اور کتنا اونچا جائے گا؟ عمران خان کی ازدواجی زندگی کیسی چل رہی ہے ؟ سنا ہے اس بار لان کے جو ڈیزائن مارکیٹ میں آئے ہیں وہ پچھلے سمر سیزن سے بہت بہتر ہیں؟ اس وقت سب سے اچھا ڈرامہ سیریل کون سے چینل پر ہے ؟ یار یہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کیا ہو گیا ہے ؟ ورلڈ کپ کیسے نکالیں گے۔ذرا سوچو یار۔۔۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ