کئی ہفتے پہلے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اختیاری تکونئیت ( ٹرائیکاٹومی ) کے بارے میں رولنگ محفوظ کر لی تھی۔دو روز قبل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں چیئرمین صاحب کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’’ اختیار مسلسل سویلین ڈھانچے سے نادیدہ سٹرکچر کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور نیا سیاسی و پارلیمانی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کا اثر سینیٹ انتخابات پر براہ راست پڑ سکتا ہے ‘‘۔اس پر چیئرمین صاحب نے کہا کہ وہ بہت جلد رولنگ دینے والے ہیں۔
گذشتہ روز سینیٹ کے چیئرمین نے حکم دیا کہ حکومت سعودی عرب میں مزید فوجی دستے بھیجنے کے فیصلے کی وضاحت کرے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے وعدہ کیا کہ وہ پیر کو اس بابت ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ نے بھی اس فیصلے کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین وہ محرکات جاننا چاہتے ہیں جن کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا حالانکہ اپریل دو ہزار سولہ میں پارلیمنٹ متفقہ قرار داد منظور کر چکی ہے کہ پاکستان یمن بحران اور خلیجی چپقلش میں غیر جانبدار رہے گا اور صلح جوئی کی کوششیں کرتا رہے گا۔
آئی ایس پی آر کی ظاہر کردہ معلومات کے مطابق انیس سو بیاسی سے نافذ دو طرفہ دفاعی تعاون معاہدے کے مطابق گیارہ سو اسی فوجی اور افسر پہلے ہی سے سعودی عرب میں متعین ہیں ۔ تازہ کمک بھی ’’ مشاورتی اور تربیتی مقاصد ‘‘ کے لیے اسی مینڈیٹ کے تحت بھیجی جا رہی ہے۔پاکستانی فوجی سعودی عرب کے اندر ہی تعینات رہیں گے۔
آئی ایس پی آر ذرایع سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق تازہ پاکستانی دستے بھیجنے کا فیصلہ سعودی سفیر نوافی المالکی اور بری فوج کے سربراہ کے درمیان ملاقات میں ہوا۔مگر آئی ایس پی آر نے یہ نہیں بتایا کہ یہ فیصلہ اچانک کرنا پڑا یا اس کا تعلق پچھلے دو ماہ میں بری فوج کے سربراہ کے ریاض کے دو دوروں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور بری فوج کے سربراہ پرنس فہد بن ترکی سے بات چیت ، قطر کے امیر شیخ تمیم التہانی سے دوہا میں غیر اعلانیہ ملاقات اور فیصلے کے اعلان سے کچھ پہلے قطر کے اتحادی ترکی اور ایران کے سفیروں سے ملاقات سے بھی ہے ؟
فیصلے کا پس منظر یا محرکات کچھ بھی ہوں۔کیا یہ قومی امیج کے لیے بہتر نہ ہوتا کہ اس کی خبر آئی ایس پی آر کے بجائے وزارتِ دفاع یا وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہوتی تاکہ سول ڈھانچے کی اظہر من الشمس بے چارگی تھوڑی بہت تو ڈھنپی رھ جاتی۔
ہدایت کار کے لیے ضروری تو نہیں کہ ہیرو کا کردار بھی کرے۔اس کا تو نام ہی کافی ہوتا ہے۔اگر یہی جتانا مقصود ہے کہ اختیارات کا پانی کس طرف بہہ رہا ہے تو اس کے اور احسن طریقے بھی تو ہو سکتے ہیں۔اندرونِ بیرونِ ملک سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کیا ہے۔لیکن بار بار یہ سب جتوانا کیا بہت ضروری ہے۔جو بھی مقاصد ہوں وہ سوٹ ٹائی والے پیشہ ور سفارت کاروں کو آگے رکھ کے بقلم خود تصویر میں آئے بنا بھی تو حاصل ہو سکتے ہیں۔کم ازکم کہنے کو تو رھ جائے کہ فیصلے حکومت کرتی ہے ہم تو محض ان فیصلوں کے پابند ہیں۔
اس وقت پاکستان کو کئی چومکھیوں کا سامنا ہے۔لائن آف کنٹرول مسلسل دہکی ہوئی ہے۔ڈیورنڈ لائن کا ٹمپریچر مسلسل گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔فوج کی بیشتر ڈیپلائمنٹ دونوں سرحدوں پر مستقل ہے۔اندرونِ ملک بیرونی انٹیلی جینس ایجنسیوں سے بھی پنجہ چھکا چل رہا ہے اور ’’ وار آف شیڈوز‘‘ عروج پر ہے۔ شدت پسندی اور فرقہ دشمن جہادی چیلنج ایک اور اندرونی حریف ہے۔
امریکا کی گرم گرم پھونکیں پاکستان کی گردن پر مسلسل بڑھ رہی ہیں۔سی آئی اے ، ڈیفنس انٹیلی جینس ایجنسی ، ایف بی آئی سمیت سترہ بڑی امریکی ایجنسیاں متفق ہیں کہ پاکستان سے تعلقات ایک کھردری ڈھلوان پر ہیں اور ڈھلوان کے دوسرے سرے پر چین بانہیں پھیلائے کھڑا ہے۔
سٹرٹیجک نقشہ یوں بن رہا ہے کہ ایک طرف امریکا ، افغانستان اور بھارت ہیں تو دوسری جانب امریکا ، اسرائیل، مصر اور سعودی عرب کا غیر علانیہ اتحاد ہے۔ایک سعودی حریف قطر کے اتحادی ترکی اور ایران ہیں اور سعودی عرب کے جنوب میں واقع یمن سعودی اتحاد کے لیے عسکری دلدل میں تبدیل ہو چکا ہے۔بلکہ اب تو وہاں ایرانی حمایت یافتہ ہوثیوں سے لڑنے والے یمنی آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ایک گروہ کو سعودی اور دوسرے گروہ کو اماراتی حمایت میسر ہے۔شام سے خلیج تک ایران ، ترکی اور روس کے مفادات اس وقت ایک ہیں۔
جہاں تک برادر خلیجی ممالک اور پاکستان کے موجودہ تعلقات ہیں تو متحدہ عرب امارات سے تعلقات اگر خراب نہیں تو گرم جوش بھی نہیں۔بلکہ پچھلے ایک برس میں اماراتی بھارت تعلقات میں گرم جوشی زیادہ بڑھی ہے۔ اومان جو اب تک بھارت اور پاکستان کے مابین مناقشے میں غیرجانبدار تھا۔اب یہ غیر جانبداری بھی قصہِ پارینہ ہو رہی ہے۔اسی ہفتے نریندر مودی نے اومان کا تین روزہ دورہ کیا اور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے بالمقابل اومانی بندرگاہ دوقام کے بارے میں باضابطہ طے پا گیا کہ بھارتی بحریہ اور فضائیہ بندرگاہی اور فضائی سہولتیں بحیرہ عرب کی نگرانی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔عملاً وہاں پچھلے ستمبر سے ہی بھارتی آبدوزوں اور نگراں طیاروں کو ٹھہرنے کی سہولت حاصل ہے۔دوقام کے نیشنل اکنامک زون میں بھارت کے صنعتی گروپ اڈانی نے ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر کی صنعت کاری کا بھی معاہدہ کر لیا ہے۔
بظاہر یہ علاقائی شطرنج بھارت اور چین کے درمیان ہے۔ چین نے پہلے تو برما ، نیپال ، سری لنکا کو روایتی بھارتی اثر و نفوذ سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی اب اثر و رسوخ کی تازہ لڑائی جزائر مالدیپ پر ہو رہی ہے۔
اگر امریکا سے پاکستان کی نہیں بنے گی تو پاکستان کی موجودہ امریکی اتحادیوں سے بھی نہیں بن سکتی۔ ایسے میں پاکستان چاہے نہ چاہے اسے ایک سمت چننا ہی پڑے گی۔اس سفاک دنیا میں کسی کا کسی کو برادر ملک کہنے اور سمجھنے سے کام نہ چلا ہے نہ چلے گا۔پر اب بھی لگتا ہے کہ دو کشتیوں میں سواری ، اندرونِ ملک اپنی مرضی کا سیاسی استحکام ایجاد کرنے ، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر داخلہ و خارجہ فیصلے کرنے ، بیرونی دباؤ پڑنے پر ہی نیند سے بیدار ہونے کی عادت ترک کرنے اور چلمن سے ہٹنے کو جی نہیں چاہ رہا۔
تمام اندرونی و بیرونی گیمز میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر وقت ہے۔اگر آپ ہر موڑ پر اسے اعتماد میں لینا نہیں سیکھیں گے ، اس کی عزت نہیں کریں گے ، اس کی سرگوشیوں پر دھیان نہیں دیں گے تو وہ آپ کا ساتھ کہیں نہیں دے گا اور آپ یونہی پالیسی سازی کے لق و دق میں بنی اسرائیل بنے پھرتے رہیں گے۔کیا میں نے کوئی مشکل بات کہہ دی؟
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ