آج سے تین ماہ پہلے جب لتا منگیشکر کی موت ہوئی تو پوری دنیا میں اُس کا غم منایا گیا ، خاص طور سے بر صغیرپاک و ہند میں تو ہر مکتبہ فکر کے افرادنے انہیں ہدیہ تبریک پیش کیا ،دو ارب کی آبادی کے اِس خطے میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگاجس نے لتا جی کے فن کی تعریف نہ کی ہو۔ اُن کی وفات پر اخبارات میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے اورٹی وی پر خصوصی پروگرام نشر ہوئے۔اِس موقع پر لوگوں نے ایک دوسرے کو لتاکے یادگار گیت اور نغمے بھی بھیجے جبکہ کچھ دوستو ں نے لتا جی کے انٹرویو شئیر کیے جن میں اُن کے فن کے علاوہ ذاتی زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے تھے۔ ایسا ہی ایک انٹرویو مجھے کسی نے بھیجا، وہ انٹرویو آج بھی میرے موبائل فون میں محفوظ ہے ، میں جب کسی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتا ہوں یا مجھ پرآزردگی کا دورہ پڑتا ہے تو میں وہ انٹرویو نکال کر دیکھتا ہوں جس کے بعد میری مایوسی ختم ہو جاتی ہے ۔ اِس انٹرویو میں میزبان نے لتا جی سے سوال کیا کہ کیا آپ اگلے جنم میں بھی لتا منگیشکر ہی بننا چاہیں گی تو لتا جی نے جوجواب دیا وہ من و عن پیش ہے:’’ مجھے پہلے بھی کسی نے پوچھا تھا، تو وہی جواب میرے پاس ہےکہ، نہ ہی جنم ملے تو اچھا ہے، اگر واقعی جنم ملا مجھے ،تو میں لتا منگیشکر بننا نہیں چاہوں گی ، نہیں ، کیونکہ لتا منگیشکر کی جو تکلیفیں ہیں وہ اُس کو ہی پتا ہیں ۔‘‘بظاہر اِس جواب میں مایوسی بھری ہے مگر حقیقت اِس کے برعکس ہے ۔ لتا منگیشکر وہ عورت تھی جس نےتیرہ برس کی عمر سے گانا شروع کیا اور پھر اپنی موت تک کبھی زوال نہیں دیکھا ، ہمیشہ عروج ہی پایا ،بانوے برس کی بھرپور زندگی گذاری ، اور اِس زندگی میں انہیں دنیا جہان کے اعزازات اور تمغوں سے نوازا گیا، کبھی انہیں بلبل ہند کہا گیا تو کبھی اُن کی آواز کو صدی کی سب سے خوبصورت آوازقرار دیا گیا۔ اُن کے ہم عصر گلوکاروں کی زندگی میں کچھ نشیب و فراز آئے مگر لتا منگیشکر کے حصے میں بظاہر کوئی ناکامی نہیں آئی ، جب اُن کی عمر ڈھل گئی تو بھی اُن کے پاس کام کی کمی نہیں ہوئی،خود انہوں نے گانے سے معذرت کی ہو تو اور بات ہے ورنہ بھارتی فلم انڈسٹری ، جہاں کسی عمر رسیدہ آرٹسٹ کو نہیں پوچھا جاتا ، وہاں لتا جی کی آن بان آخری وقت تک قائم رہی ۔یہ سب عروج ، کامیابی ، دولت، شہرت اور عزت دیکھنے کے بعد اگر لتا منگیشکر کہے کہ میں اگلے جنم میں لتا نہیں بننا چاہوں گی تو پھر ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں !یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے مایوسی اور آزردگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔مگر کیسے؟
اگر ہم ایک منٹ کے لیے فرض کرلیں کہ خوشی کا پیمانہ کامیابی ہے اور کامیابی کا پیمانہ دولت ہے تو اِس دنیامیں دولت مند افراد کا تناسب نکال کر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر ’خوش ‘ہیں ۔۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد کے پاس ایک ملین ڈالر یا اس سے زائد دولت ہے ، یاد رہے کہ ایک ملین ڈالر وہ ’نشان‘ ہے جس تک پہنچنے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ بندہ اب ہر قسم کی معاشی فکر سے آزاد ہو جائے گا۔اِس کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جن کے پاس ایک لاکھ ڈالر سے ایک ملین ڈالر تک کی رقم ہے ، دنیا میں اِن کی تعداد نصف ارب سے کچھ زیادہ ہے ، پھر دس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر والی مڈل کلاس آتی ہے جو پوری دنیا میں پونے دو ارب کے قریب ہے اور آخر میں دس ہزار ڈالر سے کم اثاثے رکھنے والے غریب لوگ ہیں جو پونے تین ارب کی آبادی ہے ۔اصولاًدنیا کی نصف آبادی کو خدا کاشکر اداکرنا چاہئے کہ وہ اُس نچلے نصف حصے میں شامل نہیں جس کے پاس دس ہزار ڈالر سے بھی کم سرمایہ ہے مگر شکر ادا کرنے کی بجائے یہ نسبتاً آسودہ حال لوگ زیادہ مضطرب رہتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو لتا منگیشکر کا انٹرویو۔ ہم نہیں جانتے کہ لتا جی نے اپنی زندگی کے حوالے سے یہ بات کیوں کی کہ وہ دوبارہ لتا کے روپ میں جنم نہیں لینا چاہیں گی مگر ایک بات طے ہے کہ دنیاوی دولت، عزت اور شہرت نے انہیں وہ خوشی نہیں دی جس کی وجہ سے وہ اسی زندگی کی دوبارہ تمنا کرتیں۔لارڈ رسل پھر یاد آگئے ۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب The Conquest of Happiness میں اِس آزردگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے رسل لکھتے ہیں کہ اکثر لوگوں کے لیے زندگی جہد مسلسل سے عبارت نہیں ہوتی بلکہ وہ محض مزید کامیابی کی خواہش میں اسے ایک جدو جہد کا نام دے دیتے ہیں ،’’لوگوں کا اِس بات کو خوف نہیں ہوتا کہ انہیں اگلے دن کا کھانا نصیب ہوگا یا نہیں بلکہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے آگے نکل پائیں گے یا نہیں !‘‘ یہ بات کہہ کر رسل نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے ۔ہمارے ایک بزرگ اسی بات کو’’نناوے کا چکر ‘‘کہتے تھے ۔بندہ جب ایک مرتبہ اِس چکر میں پڑ جاتا ہے تو پھر اُس میں سے نکل نہیں پاتا، نناوے سے سو تک پہنچ بھی جائے تو پھر اگلے سو کی ’جدو جہد‘ شروع کر دیتا ہے اور وہیں سے اُس آزردگی کی شروعات ہوتی ہے جس سے نجات پانے کے لیے فلسفی کتابیں لکھتے ہیں اور موٹیویشنل اسپیکر تقریریں کرتے ہیں ۔یہ سیلف ہیلپ کی کتابیں اور تقریریں دنیا کی نسبتاً آسودہ حال آبادی کے لیے ہی کی جاتی ہیں تاکہ انہیں مزید ’کامیابی ‘ کے لیے ابھار کر اگلے سو کا ہندسہ پار کرنے کی ترغیب دی جائے ۔دنیا کی پسی ہوئی آبادی کو تو موٹیویٹ کرنا ممکن ہی نہیں ، بھلا کرہ ارض کے اُن ایک ارب افراد کو آپ کیا بتا کر موٹیویٹ کر سکتے ہیں جو روزانہ ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم پیسوں میں گزارا کرتے ہیں ! اِس دنیا میں تقریباً اسّی کروڑ لوگ رات کو بھوکے پیٹ سوتے ہیں اور پچیس ہزار افراد روزانہ بھوک سے مرجاتے ہیں ۔ سیلف ہیلپ کی کتابیں اور موٹیویشنل اسپیکرز کی تقاریر اِن لوگوں کے لیے نہیں ہوتیں کیونکہ یہ دنیا کا وہ پسا ہوا طبقہ ہے جس کی اِن چیزوں تک رسائی ہی نہیں۔
لتا منگیشکر کا انٹرویو ایک قسم کا ’اینٹی ڈپریسنٹ ‘ ہے ، اردو میں جسے ’ضد افسردگی‘ کہیں گے ، اِس انٹرویو کو دیکھنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر لتا منگیشکر جیسی کامیاب عورت کوزندگی میں طمانیت نہیں مل سکی تو پھر دنیا کےکسی انسان کونہیں مل سکتی ، یہ وہی اضطراب ہےجس کا ذکر رسل نے کیا اور یہ وہی آزرددگی ہے جس کے بارے میں دیگر فلاسفہ بھی ہزاروں سال سے لکھ رہے ہیں ۔لتا منگیشکر نے اپنی آزردگی کا اعتراف کرکے دیانت داری کا ثبوت دیا جس کا کم از کم مجھے ضرور فائدہ ہوا ہے ۔ مجھے زندگی میں جب بھی کوئی دھچکا لگتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اگر زندگی اِس دھچکے کے بغیر بہترین انداز میں بھی گزر رہی ہوتی تو اُس صورت میں بھی اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ میں مطمئن ہوتا، لہذا بہتری اسی میں ہے کہ چُپ چاپ خدا کا شکر ادا کیا جائے کہ ہم دنیا کی اُس آبادی میں شامل ہیں جسے با عزت زندگی گزارنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا ۔اگر آپ کا گھر اپنا ہے اورآپ مناسب قسم کی گاڑی کے مالک ہیں ، بچے معقول انداز میں پڑھ رہے ہیں ، دوستوں کے ساتھ شام اچھی گزر جاتی ہے اور آپ کو یا اہل خانہ کو صحت کا کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں تو پھر سمجھیں کہ آپ اکیسویں صدی کی جنت میں رہتے ہیں ۔اور اگر آپ اِس طرز زندگی کو جنت نہیں سمجھتے تو میں کہوں گا کہ آپ لتا منگیشکر کا انٹرویو میری نظر سے دوبارہ دیکھیں، افاقہ ہوگا!
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم)
فیس بک کمینٹ