ونسٹن چرچل نے ’دی سیکنڈ ورلڈ وار‘ کے نام سے چھ جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی، 1953میں اس کتاب پر چرچل کو ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا، اس کی پہلی جلد The Gathering Stormکے نام سے ہے، اس میں چرچل لکھتا ہے کہ جب پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا کا خیال تھا اب ایسی جنگ کی حماقت کبھی نہیں ہو گی، تمام ممالک میں امن کی شدید خواہش تھی، اس مقصد کے لیے لیگ آف نیشن بنائی گئی، یورپ میں سرحدوں کی نئے سرے سے حد بندی کی گئی، جرمنی کو چونکہ شکستِ فاش ہوئی تھی اس لیے ورسائی معاہدے (Treaty of Versailles) میں ایسی شقیں رکھی گئیں کہ جرمنی دوبارہ کبھی سر نہ اٹھا سکے، یہی نہیں بلکہ جرمنی کے ایک ہزار ملین پاؤنڈ کے اثاثے بھی فاتح ممالک نے آپس میں تقسیم کر لیے۔ مگر چند سال بعد ہی امریکہ نے جرمنی کی تعمیر نو کے لیے اسے بھاری قرضے دینا شروع کر دیے، ورسائی معاہدے کی شقیں بھلا دی گئیں اور پھر وہ لمحہ بھی آیا جب 1932کی تخفیف اسلحہ کانفرنس کے موقع پر جرمنی نے مطالبہ کیا کہ اسے دوبارہ مسلح ہونے کا حق دیا جائے، اس مطالبے کی برطانوی اخبارات نے حمایت کی کہ یہ مطالبہ ریاستوں کے مابین برابری کے اصول کے عین مطابق ہے، نتیجے میں فرانس کی فوج پانچ لاکھ سے کم کر کے دو لاکھ کر دی گئی اور جرمنی کی فوج اسی تناسب سے بڑھا دی گئی۔ وہی عالمی لیڈران جن کا خیال تھا کہ اب کبھی جنگ نہیں لڑی جائے گی محض سات سال بعد دوبارہ ایک عالمی جنگ لڑنے پر آماد ہ ہو گئے۔ چھ کروڑ لوگ اس جنگ میں مارے گئے۔
جوہری ہتھیارحاصل کرنے کے بعد بھارت پاکستان کا بھی یہی خیال تھا کہ اب چونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹم بم ہے اس لیے کوئی بھی ملک دوسرے پر حملہ کر کے روایتی جنگ کرنے کی حماقت نہیں کرے گا، مگر پچھلے کچھ دنوں کے واقعات نے یہ خیال کسی حد تک غلط ثابت کر دیا ہے۔ پلوامہ حملے کے ردعمل میں بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی حماقت کی اور گولہ بارود جو بھی کہہ لیں گرا کر چلے گئے، مقصد اس کا یہ باور کروانا تھا کہ ہم جب چاہیں تمہاری حدود میں داخل ہو سکتے ہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ بات پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی چنانچہ پاکستان نے ایسا ردِعمل دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ہندوستان کو باور کروا دیا جائے کہ پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی قیمت چکانا پڑے گی مگر ردعمل ایسا ہو کہ جس کے نتیجے میں جنگی ماحول نہ بنے۔ پاکستانی طیاروں نے اپنی حدو د کے اندر رہتے ہوئے بھارت کی فوجی تنصیبات کے پاس خالی جگہ کو نشانہ بنایا اور دورانِ جنگ بھارتی فضائیہ نے جوابی کارروائی کی کوشش کی تو اُن کا ایک جہاز مار گرایا اور پائلٹ پکڑ لیا۔ پاک فضائیہ کو اس کارنامے پر جتنی شاباش دی جائے کم ہے، بے حد کم وسائل کے ساتھ اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کرنا کسی بھی طور چھوٹا کارنامہ نہیں۔ ہندوستان کی دوسری سُبکی اسلامی ممالک کی تنظیم میں ہوئی، جو قرارداد او آئی سی میں منظور ہوئی اس میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر قابض دہشت گرد کہا ہے، یقیناً او آئی سی پہلے بھی اس قسم کی قراردادیں منظور کرتی رہی ہو گی مگر اس دفعہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بطور مہمان او آئی سی کے اجلاس میں شریک ہو کر اس تنظیم پر بھارتی انگوٹھا لگا دیا اور اسے legitimacyدے دی، اب بھارت او آئی سی کو طعنے دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس تنظیم کی قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔
اب ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا جائے۔ پوری قوم اس وقت وطن سے محبت کے گیت گا رہی ہے، ملک کے دفاع کے لیے نعرے لگا رہی ہے، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، سوشل میڈیا پر علیحدہ سے لوگ چھریاں کانٹے تیز کر کے بیٹھے ہیں کہ بھارتی ٹرولز کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ سب ٹھیک ہے مگر ملک کا دفاع خالی خولی نعرے لگانے سے نہیں ہوتا، اب جنگیں گھوڑوں پر بیٹھ کر یا تلواریں لہرا کر نہیں لڑی جاتیں، معمولی سا جہاز بھی کئی ملین ڈالر مانگتا ہے، آج کے دور میں کسی بھی ملک کا دفاع اس بات پر منحصر ہے کہ اس ملک کی مڈل کلاس اور اشرافیہ اپنی کمائی کا کتنے فیصد ٹیکس کی شکل میں ادا کرتی ہے کیونکہ اسی ٹیکس سے حکومت چلتی ہے، سول انتظامیہ کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، سڑکیں، پُل، اسکول اور اسپتال تعمیر کیے جاتے ہیں اور ملکی دفاع پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، اس اعتبار سے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ سو بہتر ہو گا کہ محض نعرے بازی کے بجائے اگر پاکستانی قوم ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے، قانون کی پاسداری کرے، ادارے آئین کی حدود میں رہیں، سیاستدان جمہوریت کو مضبوط کریں تو یہ چار باتیں ہی ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیں گی۔ جب بھی پاک بھارت جنگی ماحول بنتا ہے کچھ متعصب اور گھٹیا ذہنیت کے لوگ ہندو مذہب کو نشانہ بنا کر ہندوؤں کی تذلیل شروع کر دیتے ہیں، ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت چالیس لاکھ ہندو بستے ہیں (پاکستان ہندو کونسل کے مطابق اسّی لاکھ)، وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم، ان کے مذہب کو گالیاں دیتے وقت کیا ہم اپنے مذہب کی تعلیمات بھول جاتے ہیں، ہمیں تو یہی کہا گیا ہے کہ کسی کے خدا کو برا نہ کہو کہیں وہ تمہارے خدا کو برا بھلا کہنا نہ شروع کر دیں(مفہوم)۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو اسی طرح اس ملک کے محب وطن شہری ہیں جس طرح کسی بھی اور مذہب کے پیروکار، کسی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی کو کسی مسلمان سے حب الوطنی کی سند لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بدقسمتی سے اِس مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان میں اعلیٰ ترین منصب پر براجمان رہے اور اپنا خبث باطن آشکار کرتے رہے۔
دنیا میں جنگیں اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیے، پرانی دشمنی کی بنیاد پر، کسی زمین کے ٹکڑے پر حق ملکیت جتانے کے لیے، دنیا میں اپنی طاقت منوانے کے لیے یا اپنے دشمن کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے پاس یہ تمام وجوہات موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا کو یقین تھا کہ اب جنگ نہیں ہو گی مگر اس کے باوجود یہ دونوں جنگیں ہوئیں اور دس کروڑ سے زائد انسان مارے گئے، پاکستان اور ہندوستان کو تو یہ یقین بھی نہیں کہ اب ان کے درمیان جنگ نہیں ہو گی، اوپر سے دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور آپس میں دشمنی کی بے شمار وجوہات بھی، ایسے حالات میں سرحد کے دونوں طرف جو لوگ آگ بھڑکا رہے ہیں انہیں شاید اندازہ نہیں کہ یہ آگ اگر لگی تو ملک اور مذہب پوچھے بغیر سب کو کھا جائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ