انیلہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور دہائیاں دے رہی تھی کہ اسے مارا پیٹا نہ جائے مگر اس کے بھائی بڑی بے رحمی سے اسے مارے جا رہے تھے۔ وہ کوئی بالکل ہی چھوٹی سی بچی نہ تھی بلکہ ا یک سترہ سال کی جوان لڑکی تھی۔ گھر کا ماحول نہایت ہی کشیدہ اور تناؤ بھرا ہوگیا تھا، آخر کار جب اس کا بھائی اس پر دوبارہ تشدد کرنے لگا تو اس نے بھی چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ کیوں مجھے نوکری پر لگایا تھا جبکہ ابھی تو میں نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے آفس کے مالک تو ابو کے گہرے دوست تھے اور مجھے بیٹی بیٹی کہتے ان کا منہ نہیں تھکتا تھا، پھر انہوں نے جو زیادتی کی وہ گنہگار نہیں ہیں کیا؟ انہیں بلائیں یہاں میرے سامنے اور معلوم کہ انہوں نے کس چالاکی سے مجھے اپنے جال میں پھنسایا اور بلیک میل کرتے رہے، وہ ہمیشہ اپنی عمر کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بیٹی بیٹی کی آڑ میں مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ یہ سنتے ہی ابا جو پریشان بیٹھے تھے ہوش میں آگئے اور اٹھ کر انیل ہ کو مارنا شروع کردیا، ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ بے حیا زبان چلاتی ہے ہماری ناک کٹوا دی سارے زمانے میں بدنام کردیا تو نے ہم تو کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ گئے۔
انیلہ کچھ دنوں سے عجیب کیفیت کا شکار تھی جو کھاتی تھی قے ہو جاتی تھی، سر چکرانے لگتا تھا، کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ آفس بھی نہیں جا رہی تھی، لہذا اس کی والدہ اسے قریبی اسپتال لے گئیں، جہاں لیڈی ڈاکٹر نے اس کی روداد سن کر کچھ ٹیسٹ کرا نے کو کہا، جن کا نتیجہ آنے پر ڈاکٹر صاحبہ نے معلوم کیا کہ آپ لڑکی کی کون ہیں، انیلہ کی والدہ نے کہا کہ میں اس کی ماں ہوں، تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ مبارک ہو آپ کی بیٹی ماں بننے والی ہے، یہ سننا تھا گویا دونوں ماں بیٹی کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ ان کی گھبراہٹ کو بھانپ گئیں کہنے لگیں کہ پریشان نہ ہوں شروع کے دنوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، مگر ان دونوں کے کانوں میں تو کوئی آواز گویا پہنچ ہی نہیں رہی تھی۔
جیسے تیسے لشتم پشتم گھر پہنچیں۔ گھر پہنچ کر انیلہ کی والدہ نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو اس نے بتایا کہ آفس کے مالک جاذب صاحب اس کے ساتھ مسلسل زبردستی کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تقریبا ایک سال سے چل رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچی ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ تم نے انہیں روکا نہیں، اس نے کہا کہ میں نے بہت روکا، بہت احتجاج کیا مگر وہ شروع شروع چھٹی والے دن ارجنٹ کام کے بہانے سے بلا کر لنچ کے دوران مشروب میں چپکے سے کچھ ملا دیتے تھے۔
جسے پینے کے بعد مجھے کچھ گھنٹے تک اپنی سدھ بدھ نہیں رہتی تھی۔ اور وہ اس دوران اپنا شیطانی کھیل رچا لیا کرتے تھے۔ بعد میں مجھے ڈرایا دھمکایا کرتے تھے کہ میں نے تمہاری نازیبا حالت میں ویڈیوز اور تصاویر بنا لی ہیں، اگر تم نے کچھ کرنے یا کسی کو بتانے کی کوشش کی تو میں تمہیں بدنام کر دوں گا۔ یہ سب انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردوں گا۔ میں کیا کرتی ڈر گئی اور وہ میرے خوف کا فائدہ اٹھا کر میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے جس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
دراصل جاذب برنی انیلہ کے والد کے گہرے دوست تھے اور ایک ٹریول ایجنسی چلاتے تھے، وہ انیلہ کے والد کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے کیونکہ انیلہ کے والد بھی ایک فضائی کمپنی میں ملازم تھے۔ لہذا جاذب کا ان کے گھر خوب آنا جانا تھا، انیلہ ایک نہایت ہی حسین لڑکی تھی، جاذب جب وہ چھوٹی تھی تب ہی سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک تو وہ اس قدر حسین ہو گئی تھی کہ جسے لاکھوں میں ایک کہا جا سکتا تھا۔ لمبا قد، گوری رنگت، ستواں ناک، بھرا بھرا جسم، غرض وہ حسن کا شاہکار تھی۔ جاذب اکثر اس کے بارے میں سوچتا رہتا تھا، مگر عمر کے فرق کی وجہ سے خود کو محدود کئے رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انیلہ کا پورا گھرانہ لالچی اور دولت پسند ہے، لہذا اس کے شیطانی دماغ نے ایک منصوبہ بنایا ایک دن جب وہ انیلہ کے والد کے ساتھ ان ہی کی بیٹھک میں تھا تو انیلہ چائے لے کر آئی جاذب کو سلام کیا، تو وہ پوچھنے لگا کہ بیٹا کیسی ہو،؟ کیا کر رہی ہو آج کل؟ تعلیم کیسی چل رہی ہے؟ انیلہ نے بتایا کہ انکل ابھی تو میٹرک کا امتحان دیا ہے، اور نتیجہ کی منتظر ہوں۔ تو وہ کہنے لگا کہ بھئی کالج میں داخلے تک کچھ آفس میں کام کرنے کا تجربہ ہی حاصل کر لو، دنیا بھر میں بچے یونہی انٹرن شپ یا پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرتے ہیں، تم چاہو تو میرے دفتر سے یہ تجربہ حاصل کرسکتی ہو، تمہیں آنے جانے کی سہولت کے ساتھ کچھ جیب خرچ یا وظیفہ بھی ملتا رہے گا۔ یعنی کام بھی سیکھ لوگی اور اپنی تعلیم کا خرچہ بھی نکال لو گی، یہ سن کر انیلہ کے والد کے کان کھڑے ہوگئے، بنیادی طور پر لالچی ہونے کی وجہ سے جونہی پیسوں کا نام آیا وہ فورا متوجہ ہوگئے، اسطرح انیلہ دفتر جانے لگی اور جاذب اپنے مکروہ مشغلہ کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہوگیا، اس نے لانے لے جانے کی سواری کا بندوبست کر دیا تھا، اکثر لنچ بھی دفتر کی طرف سے مل جاتا تھا۔ ساتھ ساتھ بلاوجہ کے بونس بھی ملنے لگے تھے سب گھر والے خوش تھے، اور ان پیسوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے کہ یہ مصیبت آن پڑی۔ مگر انیلہ کے گھر والے بہت ہی گھاگ اور مال خور طبیعت کے تھے انہوں نے اس میں بھی مال بنانے کی ترکیب نکال ہی لی، جاذب کو معلوم ہی نہ ہونے دیا کہ معاملہ کیا ہے اور ایک خاص منصوبے کے تحت خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
آخر کار جاذب کا فون آیا کہ انیلہ کئی دن سے دفتر نہیں آرہی کیا بات ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اور اس کا فون چارج نہیں اس وقت، ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئیے ہیں جن کیلئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ جاذب نے کہا کہ اچھا میں شام کو آ کر مل بھی لیتا ہوں۔ انہوں نے بالکل ظاہر کئے بنا اس کو گھر آنے کا کہا۔ شام کو جب جاذب گھر آیا تو انیلہ کا باپ اور سارے بھائی تیاری کے ساتھ اس کے منتظر تھے، اس کو بڑے تپاک سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کمرے کی کنڈیاں بند کرکے گن اور ڈنڈے نکال لئے، اس سے پہلے کہ جاذب سمجھ سکے انیلہ کے والد نے اسے تھپڑوں اور لاتوں پر رکھ لیا، اس دوران انیلہ کے بھائی بھی مسلسل گالم گلوچ کرتے رہے۔ جاذب اس چو طرفہ حملہ سے حد سے زیادہ گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ مجھے مارو مت بلکہ یہ بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے۔ تب انیلہ کے باپ نے رپورٹس اس کے سامنے پھینک دیں اور کہا کہ یہ دیکھو تمہارے کارنامے، ہم تو تیری جان لے لیں گے، تو ہماری عزت سے کھیلتا رہا، دوست بن کر اتنا بڑا دھوکہ، تجھے نہ صرف پولیس میں دیں گے بلکہ بدنام بھی کریں گے۔ جاذب کا کیا اس کے سامنے آگیا تھا جس طرح وہ انیلہ کو بلیک میل کرتا تھا آج خود بالکل اسی طرح بلیک میل ہو رہا تھا۔ یہ دیکھ تیری شروع سے ہی ویڈیو بن رہی ہے، میں تیرے خاندان کو جانتا ہوں سب کو بتاؤں گا کہ تونے ہمارا دوست بن کیا ظلم اور گناہ کیا ہے۔ ایک تو پٹائی دوسری ان لوگوں کی دھمکیاں اور پھر مسلسل بنتی ہوئی ویڈیو نے جاذب کے سارے کس بل نکال دیئے، وہ فورا ہی مطلب پر آگیا ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ جو آپ کہیں گے میں کرنے کو تیار ہوں۔ تمام علاج معالجے کا خرچہ اٹھانے کو تیار ہوں، تو انیلہ کے والد نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہا کہ صرف علاج معالجہ ارے جو تونے بے عزت کیا ہے اس کا کیا ہوگا۔ تو وہ کہنے لگا کہ میں وہ ہرجانہ بھی بھرنے کو تیا ر ہوں، تب انہوں نے کہا کہ علاج کے خرچے کے ساتھ ساتھ تم تیس لاکھ روپے کیش بھی دو گے وہ بھی آج شام تک، جاذب گڑگڑانے لگا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں تو انہوں نے مل کر اس کو مارنا شروع کردیا کہ اگر یہ زیادہ ہیں تو ہم پولیس کو بلا کر اپنا معاملہ خود ہی طے کر لیتے ہیں۔ تب وہ رونے اور التجائیں کرنے لگا کہ غلطی ہو گئی، مگر انیلہ کے والد اور بھائی بالکل بھی نہیں مانے، تب اس نے دونوں طرح کے پیسوں کی ادائیگی کی حامی بھر لی۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ تمہاری گاڑی ہمارے پاس تب تک گروی رہے گی جب تک تم پیسے لے کر نہیں آجاتے، جاذب ایک بہت ہی مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر آیا تھا، مجبورا گاڑی چھوڑ کر جانا پڑی۔ رات تک وہ کیش لے کر آگیا، اور اس طرح اس وقت اس کی جان بچ گئی۔
جاذب کا دوست صارم دبئی میں کاروبار کرتا تھا اور اس کی بھی انیلہ پر نگاہ تھی، مگر جاذب کی وجہ سے ہمیشہ ہی دل مسوس کر رہ جاتا تھا، اب جو جاذب اس سے کیش مانگنے گیا تو پوری بات بتانی پڑی صارم کے شیطانی دماغ نے بھی فورا ہی تانے بانے بننا شروع کر دیئے۔ صارم نے جاذب سے انیلہ اور اس کے باپ کے نمبرز حاصل کرلئے، کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد اس نے انیلہ کے والد کو فون کیا اور تعارف کرایا، اور یہ بھی کہا کہ میں پاکستان آیا ہوا ہوں کچھ بھرتیوں کے سلسلے میں میرے دبئی میں کئی بزنس ہیں، جاذب کے دفتر گیا تھا دیکھا تو آپ کی بیٹی دفتر میں نہ تھیں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے نوکری چھوڑ دی ہے، میں نے سوچا کہ ایک بہترین موقع ہے دبئی میں اعلی ترین ماحول میں کام کرنے اور کمانے کا، آپ کی بیٹی میں وہ صلاحیت ہے کہ ہم ان کو اپنے کام کے مطابق تربیت دے کر تیار کر سکتے ہیں۔ جس کام کیلئے ہم انہیں منتخب کر رہے اس کا تعلق خالص عورتوں کے بناؤ سنگھار سے ہے یعنی بیوٹی سیلون کا کام ہے۔ مگر انیلہ کے باپ نے سختی سے منع کردیا۔ صارم نے بھی ہمت نہیں ہاری وہ مسلسل ان کو منانے کی کوشش کرنے لگا، آخر انہوں نے ایک دن اسے گھر بلا ہی لیا، اس نے کہا کہ جناب سوکھی سوکھی تنخواہ بچے گی کیوں کہ رہائش، کھانا پینا علاج اور سفر سب کمپنی کے ذمہ ہے، سال میں دو بونس بھی ہیں، سال پیچھے پندرہ چھٹیاں، جہاز کا ٹکٹ پوری تنخواہ کے ساتھ، اس کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی جگاڑ بھی بن سکتی ہے۔ سب کے مستقبل بن جائیں گے۔ آپ میری آفر پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور پھر جواب دیں۔ انیلہ کے گھر والوں کی رگ لالچ ایک بار پھر پھڑکی اور سب نے مل کر یہ طے کیا کہ صارم کو ہاں کردی جائے، انیلہ نے بڑا واویلہ کیا مگر معاملہ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کا ہو کر رہ گیا، اور انیلہ کو دبئی جاتے ہی بنی، وہاں بھی معاملہ وہی تھا، کچھ دن کام سیدھا چلتا رہا پھر صارم اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹ آیا، انیلہ کافی پریشان رہی کہ دوبارہ اسی مصیبت کا شکار ہوگئی تھی جس سے بہ مشکل نجات پائی تھی، اور اب تو دیار غیر تھا، وہ بالکل اکیلی تھی، کچھ وقت گزرا تو صارم نے اس کی ڈیوٹی ایک مردانہ مساج سینٹر میں لگا دی، پہلے پہل تو وہ بہت گھبرائی مگر آہستہ آہستہ وہ یہ کام بھی سیکھ ہی گئی، وہاں اس کی ملاقات ایک عرب تاجر مغیرہ الاحجازی ہوگئی، مغیرہ کو انیلہ بہت اچھی لگی، اس نے انیلہ سے کہا کہ تم یہ کام چھوڑو اور مجھ سے شادی کرلو۔ مغیرہ ایک جاذب نظر درمیانی عمر کا شخص تھا، انیلہ بھی مائل ہوگئی، دونوں نے نکاح کیا اور انیلہ نے مساج سینٹر کی نوکری چھوڑ کر مغیرہ کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ یہ بات صارم کو ایک آنکھ نہ بھائی اس نے امیگریشن والوں سے رابطہ کرکے انیلہ کو ملک بدر کروادیا۔ مغیرہ نے بہت کوشش کی مگر صارم اس سے پہلے ہی وار کر چکا تھا، انیلہ ایک بار پھر گھر لوٹ آئی مگر اس بار وہ بہت ساری دولت، اور قیمتی اشیاء کے ساتھ آئی تھی تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوا سب نے اپنی آنکھیں اور کان بند کرلئے صرف یہ دیکھنے لگے کہ کتنا مال لے کر آئی ہے۔ مغیرہ مسلسل انیلہ کا خیال رکھ رہا تھا، اس کو ہر مہینے ایک بڑی رقم جیب خرچ بطور بھیجتا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ کوشش بھی کر رہا تھا کہ جلد اس کا ویزہ لگ جائے مگر صارم ایک شاطر آدمی تھا اس نے انیلہ کو ڈی پورٹ کراتے وقت ایسے الزامات لگائے تھے کہ امیگریشن والے آسانی سے ویزہ دینے پر راضی نہیں ہو رہے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انیلہ کی ملاقاتیں دوبارہ اپنے ہمسائے شکیل سے ہونے لگیں اور وہ دونوں آہستہ آہستہ قریب آنے لگے۔ شکیل ایک ان پڑھ، ہڈ حرام کام چور، مفت خورہ تھا ، انیلہ کی دولت پر اس کی بڑی گہری نظر تھی۔ وہ انیلہ کے پیسے پر خوب مزے کرنے لگا۔ دونوں اکثر شہر میں گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ کہ ایک دن جاذب نے اسے ایک ریسٹورنٹ میں ساتھ کھانا کھاتے دیکھ لیا، اس نے وہیں سے صارم کو فون کیا کہ بھئی یہ کیا ماجرہ ہے، تو صارم نے سارہ قصہ اسے کہہ سنایا، کیوں کہ جاذب انیلہ کے پورے گھرانے کو جانتا تھا وہ فورا سمجھ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے صارم کو نہ صرف ساری بات بتا دی بلکہ کچھ تصاویر بھی بھیج دیں۔ صارم نے وہ تصاویر مغیرہ کو بھیج دیں۔
مغیرہ آگ بگولہ ہو گیا اس نے انیلہ کو فون کرکے معلوم کیا کہ یہ کیا چل رہا ہے، تو انیلہ نے اسے جھوٹ بتا دیا کہ یہ میرا بھائی ہے، مگر جاذب ان دونوں کے پیچھے لگ گیا تھا، اس نے ایک ملازم کی ڈیوٹی ان دونوں کی جاسوسی کرنے اور تصاویر بنانے پر لگا دی تھی۔ چند ہی دنوں میں اس بندے نے بڑی تعداد میں تصاویر اور ویڈیو کلپس جاذب کو فراہم کر دیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک پریمی جوڑا کبھی شاپنگ کر رہا ہے، تو کبھی مختلف تفریحی مقامات پر گھوم پھر رہا ہے، کبھی ساحل سمندر پر تنہائی میں ساتھ وقت گزار رہا ہے۔ جاذب نے وہ تمام مواد صارم کو بھیج دیا اور صارم نے وہ سب کچھ مغیرہ کو بڑھا دیا۔ مغیرہ یہ دیکھ کر سخت ناراض ہوا، اور اس نے انیلہ سے بات کی پہلے تو وہ مکر گئی مگر جب اس نے وہ ساری تصاویر و ویڈیوز بھیجیں تو اس کو ہاں کرتے ہی بن پڑی، مغیرہ نے اسے فوراً ہی طلاق دیدی اور وہ تمام مراعات جو دیا کرتا تھا روک لیں۔ انیلہ نے عدت گزارنے کے بعد جب شکیل سے کہا کہ اب وہ شادی کر لیتے ہیں تو وہ یکدم مکر گیا وہ جانتا تھا کہ اب انیلہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، جو کما کر لائی تھی وہ گھر والوں نے ہتھیا لیا تھا اور جو مغیرہ بھیجتا تھا وہ خود اس نے اڑا دیا تھا، شکیل نہایت بے رخی سے کہنے لگا کہ میں ایسی عورت سے کیسے شادی کر سکتا ہوں جو شوہر کے ہوتے ہوئے دوسرے مردوں کے ساتھ وقت گزارتی ہو۔ آج تم مجھ سے شادی کرلو گی اور کل وقت کسی اور کے ساتھ گزارو گی۔ نہیں میں تم سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ کہہ کر وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔
فیس بک کمینٹ