
یہ بات عظیم روسی ادیب الیگزنڈر سولزے نتسن نے کہی تھی کہ انصاف اور ضمیر ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ یہ ذاتی ضمیر کا نہیں سارے انسانی ضمیر کا معاملہ ہے۔ وہ لوگ جو اپنے ضمیر کی آواز کو جانتے ہیں‘ وہ عموماً انصاف کی آواز کو بھی پہچانتے ہیں۔ 1935ء کا زمانہ تھا۔
امریکا میں معاشی کساد بازاری اس انتہاکوپہنچی ہوئی تھی کہ درجنوں ارب پتی دیوالیہ ہوچکے تھے اور بہتوں نے خودکشی کر لی تھی۔ لوگ ایک ایک نوالے کو ترس رہے تھے۔ یہ زمانہ عرفِ عام میں ’گریٹ ڈپریشن‘یا ’’عظیم کساد بازاری‘‘کا دورکہلاتا ہے۔ ان ہی دنوں نیو یارک کے ایک نہایت غریب محلے میں ایک ڈبل روٹی کی چوری کا مقدمہ پیش ہوا۔ اس زمانے میں عدالتیں دو وقت لگتی تھیں۔اسلیے کہ لاکھوں مقدمے فائلوں میں نہ دفن رہیں، تاریخوں پر تاریخیںنہ پڑتی رہیں اور سائلین انصاف ملنے کے انتظار میں جان سے نہ گزر جائیں۔
بات ہو رہی تھی1935ء کے امریکا میں ہونے والی عظیم کساد بازاری کی جب ارب پتی آن کی آن میں آسمان سے زمین پر آرہے تھے۔ امیر فقیر ہوگئے تھے اور بہتوں نے قرض خواہوں کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لیا تھا۔ ایسے میں جنوری کی ایک نہایت سرد سہ پہرکو نیویارک کے ایک غریب محلے میں ایک مفلوک الحال عورت عدالت میں پیش کی گئی۔ اس کے چہرے پر ان گنت جھریاں تھیں، کمر جھکی ہوئی تھی اور تن پر ناکافی کپڑے تھے جن میں وہ ٹھٹھر رہی تھی۔ کمرۂ عدالت میں اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ چور اُچکے، لفنگے جن پر چھوٹی موٹی چوریوں اورغنڈہ گردی کا الزام تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جن کی شکایت پریہ لوگ گرفتارہوئے تھے۔
مقدمہ شروع ہوا تو ایک نان بائی اُٹھا اور اس نے کہا کہ اس عورت نے میری بیکری سے روٹی چرائی تھی، یہ چور ہے اور مجھے انصاف چاہیے، جج نے اس عورت کی حالت زار دیکھتے ہوئے۔ نانبائی سے کہاکہ وہ اگر اپنا مقدمہ واپس لے لے تو اچھاہولیکن نان بائی کا کہنا تھا کہ اگر چور کو سزا نہیں ملی تواس سے دوسرے چوروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ بحث ابھی چل رہی تھی کہ وہاں سے نیویارک کے میئرکا گزر ہوا۔ اس کا نام لاگارڈیا تھا اور وہ نیویارک کے شہریوں کا بہت محبوب میئر تھا۔ سنکی کہلاتا۔ فائرانجن میں سفرکرتا، پولیس والوں کے ساتھ مل کر چھاپے مارتا، یتیم خانوں سے یتیموں کواکٹھا کرتا اور انھیں تفریحی دوروں پر لے جاتا۔
یہی وجہ تھی کہ وہ نیویارک کے عام شہریوں کا لاڈلا تھا۔ جنوری کی اس سرد سہ پہر میئر لاگارڈیا اپنی عادت کے مطابق اس عدالت میں جا پہنچا۔ وہاں اس نے جب روٹی چوری کرنے والی تباہ حال بڑھیا کودیکھا تو اس نے جج سے کہا کہ اس مقدمے کی شنوائی وہ خودکرے گا۔ یہ بات خلاف قانون نہیں تھی اس لیے جج نے اپنی کرسی لاگارڈیا کے لیے خالی کردی۔ کمرۂ عدالت میں موجود ہر شخص کی دلچسپی اب مقدمے میں بڑھ گئی۔ انھیں یقین تھا کہ ان کا میئر اس سادہ سے مقدمے میں واقعی انصاف کرے گا۔
لاگارڈیا نے بڑھیاسے پوچھا کہ کیا واقعی تم نے روٹی چرائی تھی۔ بڑھیانے کہا جی جناب میں نے روٹی چرائی تھی۔ میئر نے پوچھا کہ کیا تم بھوکی تھیں اس لیے روٹی چرائی؟بڑھیا نے کہاکہ جناب میرا داماد نکھٹوہے، میری بیٹی بیمار ہے اورمحنت مزدوری نہیں کرسکتی۔ اس کے بچے تین وقت کے فاقے سے ہیں اور بھوک سے بلک رہے ہیں۔ ان کی بھوک نے مجھے مجبور کیاکہ میں نان بائی کی دکان سے روٹی چراؤں۔ میں اورکچھ نہیں کر سکتی تھی۔ کمرۂ عدالت میں موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
ایسے میں نان بائی نے چیخ کرکہا لیکن جناب قانون‘ قانون ہے، اسے توڑا نہیں جا سکتا۔ لاگارڈیا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سرہلایا اورکہاکہ ہاں قانون تو قانون ہے۔ اس نے سامنے بیٹھے ہوئے جج سے پوچھاکہ اس جرم کی سزا کیا ہے؟جج نے کہاکہ جناب اس بڑھیا پردس ڈالرکاجرمانہ ہوگا اوراگریہ جرمانہ ادانہ کر سکی تو اسے دس دن کے لیے جیل جانا ہوگا۔
یہ سن کر بڑھیا آہ وزاری کرنے لگی کہ حضور اگرمیرے پاس جرمانہ اداکرنے کے لیے روپے ہوتے تومیں چوری کیوں کرتی۔ میں جرمانہ ادا نہیں کرسکتی۔ اگرآپ مجھے دس دن کے لیے جیل بھیج دینگے تومیرے ننھے ننھے بچے بھوک سے مر جائینگے۔ یسوع مسیح کے نام پر مجھ سے انصاف کیجیے۔ میئر لاگارڈیا نے خاموشی سے اپنی جیب سے دس ڈالرکا نوٹ نکالا اور بیلف کے حوالے کیا۔
میئر نے کہاکہ یہ وہ جرمانہ ہے جو ادا ہوگیا ہے اور اب اس بوڑھی عورت کوجیل بھیجنے کی ضرورت نہیں لیکن ایک جرمانہ اس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کو ادا کرنا ہوگا، یہ 50سینٹ کاجرمانہ ہے۔ سب سے پہلے یہ جرمانہ نان بائی اداکری گا اور پھر دوسرے لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں اور انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے علاقے میں بھوک کی ماری ایک ایسی بڑھیا رہتی ہے جو اپنے فاقہ زدہ بچوں کے لیے ڈبل روٹی چرانے پر مجبورہوئی۔
اس روزکمرۂ عدالت میں موجود ہرشخص کی آنکھیں نم تھیں اور ان سب نے خاموشی سے 50 سینٹ کا جرمانہ اداکیا۔ ان میں نان بائی کے دیے ہوئے 50سینٹ بھی شامل تھے۔ یہ کُل رقم 47 ڈالر 50سینٹ تھی جو اس بڑھیا کودے دی گئی۔ یہ لاگارڈیا کاانصاف تھا جو سنکی اور جھکی مشہورتھا۔ بڑھیا اورنان بائی کا نام کسی کی یادداشت میں محفوظ نہیں لیکن لاگارڈیا آج بھی نیویارک والوں کویاد ہے جب کہ اس کی ہڈیا ں بھی سُرمہ ہوچکیں۔ وہ اپنے شہر والوں کو اتنا پیارا تھا کہ انھوں نے اسے 1934ء سے1945ء کے دوران تین مرتبہ اپنا میئر منتخب کیا۔
اسی نے نیویارک شہرکوایک نئے ایئرپورٹ کا تحفہ دیا جسے شہریوں نے اپنے محبوب میئرکے نام سے منسوب کردیا۔ آپ جب نیویارک کے لاگارڈیا ایرپورٹ سے سفرکررہے ہوں تواس شخص کوضرور یاد کیجیے گا جو ہسپانوی نژاد تھا، تارک وطن کے طور پر امریکا آیا تھا اور جس نے ’عظیم کسادبازاری‘ کے زمانے میں ایک فاقہ زدہ بوڑھی عورت کے ساتھ انصاف کیا تھا۔
ہم الف لیلہ کی کہانیاں پڑھیں توہمیں بہت سے قاضیوں کا ذکر ملتاہے جن کا انصاف ضرب المثل بن گیا۔ ان ہی میں سے ایک مقدمہ دوماؤں کا ہے جوایک شیرخوار بچے پر دعویٰ رکھتی تھیں۔ ان کا مقدمہ جب قاضی کی عدالت میں پہنچا تو اس نے دونوں عورتو ں کی فریاد سن کرکہا کہ ان میں سے کوئی ایک بچہ کی حقِ مادریت سے دستبردار ہوجائے لیکن ان میں سے ایک عورت جب چیخ چیخ کر کہنے لگی کہ یہ اس کا بچہ ہے اور وہ اسے لیے بغیرنہیں جائیگی، تب قاضی نے کہا کہ اس بچے کوآرے سے چیردیا جائے اور دونوں ماؤں کو دے دیا جائے۔ یہ سن کرایک عورت چیخ پڑی اوراس نے کہا کہ میں اس شیرخوار پر اپنے دعوے سے دستبردار ہوتی ہوں۔ بچہ دوسری عورت کودے دیا جائے۔
یہ سنتے ہی قاضی نے چوب داروں کوحکم دیا کہ بچہ شور مچانے والی عورت سے چھین لیا جائے کیونکہ یہ اس کی حقیقی ماں نہیں۔ ایک ماںاپنے بچے کے دوٹکڑے ہونے کا سن کر ہی نیم پاگل ہوجائے گی۔ جھوٹا دعویٰ کرنے والی عورت کو میری نگاہوں کے سامنے سے لے جاؤاور اسے 80درے لگاؤتاکہ اسے اپنے جھوٹ کی قرار واقعی سزاملے اوردوسرے عبرت پکڑیں۔
اسی طرح ایک ہسپانوی نژاد جج بالتھا زارگارزوں یادآتا ہے۔ اس نے بہت سے ایسے فیصلے دیئے جن کی بناء پر انصاف سربلندہوا۔ حالیہ دنوں میںاس کا سب سے سنسنی خیز فیصلہ چلی کے سفاک اور خونیں ڈکٹیٹر جنرل آگسٹوپنوشے کے بارے میں تھا۔ جنرل پنوشے نے آلندے کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سزاسے بچنے کے لیے لندن میں پناہ لے رکھی تھی۔
جج بالتھازارگارزوں نے فیصلہ دیاکہ ریٹائرڈ جنرل پنوشے کووطن واپس لایا جائے اورواپسی کے بعد اس پر غداری اورہزاروں ہم وطنوں کی ہلاکت اور ان پر زندانوں میں کی جانیوالی غیر انسانی عقوبتوں کاحساب لیا جائے۔ ایک اورامریکی جج ولیم جوزف برینان جونیئرکا خیال آیا۔ غریب ماں باپ کا بچہ‘ اس نے سرکاری اسکولوں میں پڑھا۔ذہانت‘ محنت اور دیانت کی بنیاد پر ترقی کرتاگیا۔
امریکی صدرآئزن ہاور نے اسے سپریم کورٹ کاجج مقررکیا۔ وہاںپہنچ کر اس نے برقی کرسی کے ذریعے دی جانے والی سزائے موت کی سخت مخالفت کی۔ اس کاکہنا تھا کہ موت کی یہ سزا غیرآئینی ہے کیونکہ اس کے ذریعے دی جانے والی موت اور کھمبے سے باندھ کر جلادی جانے والی موت میں کوئی فرق نہیں۔
ہمارے یہاں بھی جسٹس کانسٹنٹاین، جسٹس کارنیلیس، جسٹس رستم کیانی اور جسٹس بھگوان داس گزرے ہیں۔ ان کانام آئے تو ہم احترام سے سرجھکا دیتے ہیں جب کہ ہمارے بعض جج ایسے بھی ہیں جن کانام لیتے ہوئے خود جج حضرات بھی شرمندہ ہوتے ہیں۔ کاش ایسے ججوں کی فہرست میں مزید اضافہ نہ ہو ۔پاکستان کوبھی کسی لاگارڈیا کی ضرورت ہے لیکن یاد رہے کہ یہ جمہوریت تھی جس نے لاگارڈیا کو پیدا کیا تھا۔ ہم اپنے ملک میں جمہوریت کی جڑیں کاٹ کر کسی لاگارڈیاکی محض آرزواور حسرت ہی کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)