سانحہ نیوزی لینڈ نے پوری اُمت مسلمہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، مسجد میں ہونے والی دہشت گردی میں 9پاکستانیوں سمیت 50سے زائد مسلمان بے دردی کے ساتھ شہید کر دئیے گئے مگر یورپ کی طرف سے بدترین دہشت گردی کے واقعہ کو دہشت گرد کا انفرادی فعل قرار دینا بھی دہشت گردی کی بدترین شکل ہے ، سوال یہ ہے کہ اگر کلیسا پر حملہ ہوتا تو کیا پورے یورپ میں آسمان سر پر نہ اٹھا لیا ہوتا ؟۔ ایک سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان جس دہشت گردی کا شکار ہوتے آ رہے ہیں اگر اسباب پر غور کیا جائے تو کیا اس کا باعث امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک نہیں ؟ بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونگی تو دنیا میں پائی جانے والی تمام دہشت گردی کے سب سے بڑے مجرم امریکہ اور اس کے اتحادی ہونگے ۔ عجب بات ہے کہ حکومت کی طرف سے اتنے بڑے واقعہ پر وہ احتجاج نہیں ہوا جو کہ ہونا چاہئے ، اسی طرح بلوچستان میں جعفر ایکسپریس دہشت گردی کا شکار ہوئی ،پانچ بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیں مگر حکومت نے ابھی تک اس بارے موقف جاری نہیں کیا اگر اس طرح کا واقعہ بھارت میں ہوتا تو اس کا الزام پاکستان پر ڈال دیا جاتا ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر الزام بھارت پر ڈالا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کی معرفت بھارت بلوچستان میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا ہے ،حکومت کو مکمل تحقیق کرنی چاہئے اور اگر دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملیں تو پھر حقیقت کے اظہار کیلئے کسی طرح کی مصلحت یا خاموشی مناسب نہیں ۔ ایک اور مسئلے پر حکومت کی خاموشی پر بات کروں گا کہ ہیڈ راجکاں چولستان میں درندگی کا واقعہ ہوا ، پورا وسیب اس واقعے کے خلاف سراپا احتجاج ہے مگر حکومت ابھی تک خاموش ہے۔ درندگی کا واقعہ اس مقامی آبادی کے خلاف ہوا جنہوں نے تبدیلی کی اُمید پر عمران خان کو ووٹ دیا ۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تک میسج بھجوائے گئے ، وزیراعلیٰ جب ملتان تھے تو اس وقت بھی احتجاجی مظاہرے کی چینل لائیو کوریج دے رہے تھے مگر حکومت ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ چند دن پہلے چولستان کی خواتین کے خلاف درندگی کا یہ واقعہ ان دنوں ہوا جب خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ یہ بھی دیکھئے کہ عمران خان کی حکومت نے ایک صوبائی وزیر سے محض اس بنا ء پر وزارت سے استعفیٰ لے لیا کہ اس نے غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف نازیبا کلمات ادا کئے ۔ چولستان کے مظلوم لوگ بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں میڈیا کے سامنے رو رو کر یہ کہہ رہے تھے کہ صوبائی وزیر کو برطرف کیا جا سکتا ہے تو طارق بشیر چیمہ کو کیوں نہیں مجھے ایک مقامی ایم این اے نے بتایا کہ چولستان واقعے کا سب کو علم ہے مگر خاموشی اس بنا پر ہے کہ (ق) لیگ تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین اور قانون کسی کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اتحادی ہونے کی بناء پر انسانوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم کرے؟اس موقع پر مجھے زرداری دور یاد آیا کہ لوگوں نے وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے خلاف شکایت کی کہ ریل کا بھٹہ بیٹھ گیا، اس بارے کچھ کریں تو زرداری صاحب نے کہا کہ وہ ہمارے اتحادی ہیں ہم ان کی وزارت میں مداخلت نہیں کریں گے۔ پھر اگلے الیکشن میں زرداری صاحب کو اس کاووٹ کی پرچی سے جواب دیا۔ حکومت سے خاموشی ختم کرنے کی استدعا کے ساتھ میں واقعے کی تفصیل بتانا چاہوں گا کہ ہیڈراجکاں 23چک چولستان میں 100 سالہ قدیم آبادی ٹبہ جناح کالونی پر ایک وفاقی وزیر کے گروپ کی جانب سے حملہ 25 گھروں کو مسمار کرکے آگ لگا دی۔ خواتین پر اس قدر تشدد ہوا کہ وہ لہولہان ہو گئیں اور ان کی ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ گئیں، وفاقی وزیر کے دباؤ پر بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے علاج سے لیت و لعل سے کام لیا اور پولیس پرچے کے اندراج سے گریزاں رہی۔ بعدازاں عوامی دباؤپر پولیس نے مقدمہ درج کرکے خانہ پری کر دی مگر کوئی ایک ملزم بھی گرفتار نہیں ہوا۔ تشدد اور چولستانی آبادیوں کو مسمار کرنے کے واقعات احتجاجی مظاہرے اور ریلیوں کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے سرائیکی رہنماؤں راشد عزیز بھٹہ و دیگر نے کہا کہ ہیڈراجکاں یزمان میں وفاقی وزیر کے غنڈوں نے باپردہ خواتین کو تھپڑ اور ڈنڈے مارے گئے وحشیانہ تشدد کے دوران 25 سے زائد خواتین شدید زخمی ہوگئیں دو خواتین کے بازو ٹوٹ گئے۔ قبضے کے بعد گھروں کو آگ لگا دی گئی مطالبہ کیا کہ عمران خان فوری طور پر وزارت سے استعفیٰ لیں رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی وزیر چولستان بہاولپور ڈویژن میں چولستانیوں کی دوہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کرچکے ہیں۔ مطالبہ کیا گیا وفاقی وزیر کے چولستان میں غیرقانونی قبضوں کو فوری ختم کیا جائے یہ بھی کہا گیا کہ طارق بشیرچیمہ نے اپنی سفارش پر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین اور سی او کو تعینات کروایا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کے نام چولستان کی زمینوں کو الاٹ کروا سکے رہنمائوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اور سی او چولستان کو ہٹایا جائے۔ مطالبات کئے گئے کہ وفاقی وزیر کو وزارت سے برطرف کیا جائے ،تمام ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے،بربریت کا شکار ہونیوالی خواتین کا سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے،جن گھروں کو آگ لگا کر مسمار کردیا گیا ہے کی فوری دوبارہ تعمیر کی جائے۔ چولستان میں قبضہ گیروں اور پانی چوروں کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے،چولستان کی زمینیں چولستان کے اصل وارثوں کو دی جائیں ،لینڈ مافیا کا قلع قمع کیا جائے،بدمعاشی راج ختم کیا جائے۔اس موقع پر رہنماؤں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائی کورٹ سے بھی از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔رہنماؤں نے کہا کہ صوبہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر صوبہ تو کیا دینا تھا وسیب کے اصل باسیوں کا جینا بھی محال کردیا گیا۔ اتنے بڑے سانحہ پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم جائے سانحہ پر پہنچتے اور مظلوموں کی داد رسی اور اشک شوئی کرتے مگر ایسا نہیں ہوا، لوگ بجا طور یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں شہبازشریف ایسے موقع پر ضرور پہنچتے تھے۔ اس واقعہ پر پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما، سابق ایم پی اے بابو نفیس انصاری کا یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود وسیب کے مظلوموں کی داد رسی نہ ہونا کسی المیے سے کم نہیں اور اس مسئلے پر حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ