23 مارچ یوم قرارداد پاکستان کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر 58 فوجی اور 66 سول شخصیات کو اعزازات سے نوازا۔ اعزازات حاصل کرنے والوں میں صدر الدین ہاشوانی، وسیم اکرم، وقار یونس، فلم سٹار ریما، میجر جنرل آصف غفور، بابرہ شریف اور دیگر شامل ہیں۔ اعزازات نہایت مستحسن قدم ہے مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو بھی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو میرٹ سے زیادہ اُس کی اپنی ترجیحات زیادہ شامل ہوتی ہیں۔ اعزازات کے موقع پر جہاں دوسرے شعبہ جات کی خدمات کو سامنے رکھا جاتا ہے وہاں اُن سیاسی رہنماؤں کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض اوقات چند ایک سیاسی عمائدین کا بھی نام اعزازات حاصل کرنے والوں میں آجاتا ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ لوگ جو کہ اپنے اپنے خطے کی تہذیب، ثقافت اور حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہے اُن کا نام اس فہرست میں آیا ہو۔ جیسا کہ سرائیکی رہنما بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کی بہت خدمات ہیں مگر حکومتی سطح پر اُن کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان شخصیات کو بھی اعزازات کے موقع پر یاد رکھا جائے۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ 1939ء میں کہروڑ پکا کے دور دراز دیہی علاقے بہار دی گوٹھ میں پیدا ہوئے ، میٹرک بہاولپور اور گریجویشن لاہور اور 1964ء میں بار ایٹ لا کی ڈگری انگلینڈ سے حاصل کی ، تحصیل علم کے بعد وہ کچھ عرصہ حکومت برطانیہ کے قانونی مشیر بھی رہے ۔ دوران تعلیم برطانیہ میں ان کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ اس کے بنیادی رکن تھے ۔ 1970 ء کا الیکشن انہوں نے ممتاز دولتانہ کے خلاف لڑا اور 75000 ووٹ حاصل کئے اور جب تک پارٹی میں رہے ان کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوا اور وہ مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے ۔یہ درست ہے کہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سرائیکی تحریک میں بہت دیر سے آئے مگر پیپلز پارٹی اور بعد ازاں خورشید حسن کی جماعت میں ہوتے ہوئے بھی ان کے دل میں وسیب کی محبت موجود تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلزپارٹی میں ان کو اہم مرتبہ حاصل تھا اور پی پی کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری تھے اور بھٹو صاحب سے بھی ان کو قرب حاصل تھا مگر ان کو بہت بلند مقام و مرتبہ سرائیکی تحریک میں حاصل ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو بھی اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتا ہے ، ماں دھرتی اس کو اعلیٰ و ارفع شان ‘مقام و مرتبہ عطا کرتی ہے۔ سرائیکی صوبہ محاذ ستر کے عشرے میں قائم ہوا اور اس کا کریڈٹ اہل بہاولپور نے حاصل کیا اور سرائیکی صوبہ محاذ کے جنرل سیکرٹری ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ کی انگریزی کتاب ’’ Bahawalpur Province ‘‘ (مطبوعہ 1972ء ) کے صفحہ آخر پر وسیب کے صوبہ کا نقشہ موجود ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ملتان میں 1973ء میں کانفرنس ہوئی ، جس میں بہاولپوری ، ریاستی اور ملتانی زبان وغیرہ کے ناموں کو سرائیکی کا نام دیا گیا ۔ حالانکہ یہ کانفرنس 1973ء میں نہیں، 1962ء میں منعقد ہوئی۔ اس کا حوالہ دیکھیں۔ ’’1962ء میں ہونیوالی کانفرنس میں ارشد ملتانی ، علامہ طالوت، میر حسان الحیدری، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ریاض انور ایڈووکیٹ، مولانا نور احمد خان فریدی ، اختر علی خان بلوچ، غلام قاسم خان خاکوانی ، سیٹھ عبیدا لرحمن بہاولپوری شریک ہوئے ۔ کانفرنس میں ملتانی ، دیروی ، ریاستی ، جھنگوچی وغیرہ کا ایک نام سرائیکی پر اتفاق کیا گیا ۔ ‘‘ ( بحوالہ سرائیکی۔ خاص آوازاں دی کہانی ، مصنف پروفیسر شوکت مغل ، صفحہ 71) ۔ سرائیکی وسیب کسی صوبے کی ایک سمت کا نام نہیں بلکہ وسیب ایک مکمل خطہ ہے ، جس کا تہذیبی ، جغرافیائی و ثقافتی طور پراس کی اپنی پہچان ہے اور سرائیکی وسیب کی صرف عورت ہی نہیں مرد بھی تنزلی و پسماندگی کا شکار ہیں۔آج ہر طرف خاص طبقے کی حکمرانی نظر آتی ہے تو اس کا باعث ان علاقوں کے تعلیمی ادارے ایچی سن کالج ( قائم شدہ 1886) ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ( قائم شدہ 1860ء ) ، پنجاب یونیورسٹی ( قائم شدہ 1882ء ) ، جی سی یونیورسٹی ( قائم شدہ 1864ء ) ، ایف سی کالج ( قائم شدہ 1864ء ) ہیں جو انگریزوں نے قائم کئے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نیا صوبہ بنوا کر ایچی سن ، کنگ ، جی سی اور ایف سی طرز کے ادارے وسیب وسیب میںقائم کئے جائیں ، بصورت دیگر وسیب کے لوگ تعلیمی پسماندگی سے نہ نکل سکیں گے۔ 7 اپریل 2013ء لنگاہ صاحب کی وفات کا دن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی وفات کے ذمہ دار موجودہ و سابقہ حکمران بھی ہیں جنہوں نے صوبے کے لولی پاپ دیئے اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کو سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ۔ پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرارداد منظور کرائی اوروسیب کو شناخت دینے ، سرائیکی بنک اور ملتان میں سپریم کورٹ کا بنچ بنانے کا عہد کیا مگر وہ سب سراب ثابت ہوا ۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے پوری زندگی سرائیکی وسیب کے حقوق کی جدوجہد کیلئے وقف کی ، قومی اور عالمی فورموں پر سرائیکی صوبے کا مقدمہ نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ پیش کیا ۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے 7اپریل 1989ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی ، مورخہ 7اپریل 2013ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ تھی ، رات کو وہ کافی دیر تک انتظامات کے سلسلے میں مصروف رہے ، اور ساتھ ہی وسیب صوبے کے حوالے سے اقتدار پرست جماعتوں کی بے وفائی کا ذکر کرتے رہے اورتحریک کے کارکنوں کو باور کراتے رہے کہ وسیب کے حقوق کی جدوجہد ہمت اور جواں مردی کے ساتھ جاری رکھنی ہے اور جب تک سرائیکی صوبہ نہیں بن جاتا چین سے نہیں بیٹھنا۔یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ کے دن ان کی وفات ہوئی۔ وسیب کے دوسرے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طرح صوبہ ان کا خواب تھا اور ان کی شدید تمنا تھی کہ صوبہ ان کی زندگی میں بنے، افسوس کہ حکمرانوں نے ان کی تمنا اور ان کا خواب پورا نہیں ہونے دیا اور اسی طرح وسیب کی کئی نسلیں یہی آرزو اور تمنا دل میں لے کر اگلے جہان سدھار گئیں ۔ اگر سرائیکی وسیب میں رہنے والے تمام لوگوں نے اپنے حقوق اور اپنے صوبے کیلئے جدوجہد نہ کی تو ہماری آئندہ نسلیں بھی ایسے زندگی گزاریں گی۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ