فادر یونس عالم سرائیکی وسیب خصوصاً ملتان کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی تاریخ کا حوالہ ہیں۔ آج ہی میں ڈیرہ غازیخان سے واپس آیا ہوں، پہلی ملاقات فادر یونس عالم سے ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ڈی جی خان کی دو روزہ کامیاب سرائیکی کانفرنس کی کامیابی پر مبارکباد دینے آیا ہوں مگر میرا دل بہت دکھی ہے کہ ہماری عید ایسٹر پر سری لنکا میں دہشت گردی کے واقعات پیش آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کل آپ کا کالم بھی پڑھا، آپ نے بجا اور درست کہا کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے یقینا اس کا باعث بھی عالمی طاقتیں ہیں لیکن اب انسانیت پر رحم کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ فادر یونس عالم بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں، فلاسفی میں ماسٹر کیا ہے مگر ہمیشہ پنجابی بولتے ہیں، بڑے بڑے اجتماعات میں سرائیکی صوبے کی کھل کر حمایت کرتے ہیں مگر اُن کا خطاب پنجابی میں ہوتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم جس دھرتی پر رہتے ہیں وہاں بہتری ہو گی تو ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہو گا۔ فادر یونس عالم سرائیکی صوبے کی جدوجہد میں شریک ہیں گو کہ آج کل مالی مشکلات کا شکار ہیں مگر ایک وقت انہوں نے اس تحریک پر بہت سرمایہ خرچ کیا۔ سرائیکی تحریک کے حوالے سے خواجہ غلام فرید کوریجہ کے علاوہ وہ پروفیسر شوکت مغل سے بہت متاثر ہیں وہ کہتے ہیں کہ میری نرینہ اولاد نہیں لیکن میں اپنی بیٹیوں کو پروفیسر شوکت مغل صاحب کی شاگردی میں دوں گا کہ انہوں نے 60 سے زائد کتابیں سرائیکی لسانیات کے حوالے سے رقم کرکے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کی خدمات کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں سب سے بڑا مسئلہ انتقال آبادی تھا ۔آزادی کے بعد دونوں حکومتوں نے تبادلہ آبادی کی سکیم تیار کی لیکن غیر دانشمندی کا ثبوت یہ دیا گیا کہ انتقال آبادی کا محفوظ پلان تیار نہ ہو سکا ، پھر دونوں ملکوں میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں طرف سے لاشیں گرنے لگیں ۔ ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب سے سب سے زیادہ مہاجرین آئے ،ایک اندازے کے مطابق 70 لاکھ آبادی کا ہندوستان سے انخلاء ہوا ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سپین سے تین لاکھ مسلمانوں کو وطن چھوڑنا پڑا۔ روس اور جرمنی سے 70 ہزار یہودی نکالے گئے اور فلسطین سے ڈیڑھ لاکھ مسلمان ملک بدر ہوئے ۔ پاکستان سے جانیوالے ہندوؤں کی تعداد ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھی ۔ جب انتقال آبادی ہوا تو ایک بوڑھی عورت نے بڑی بات کی کہ ’’ بادشاہ بدلتے سب نے دیکھے ، رعیت بدلتے ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ۔ ‘‘ مجھے یاد ہے کہ 14 اگست یوم آزادی کے موقع پر سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے منعقد کی گئی تقریب میں فادر یونس عالم کا خطاب نہایت ہی جاندار تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ 11 اگست کا دن نہایت اہمیت کا حامل تھا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بنیاد جمہوریت پرہے اور ہم جمہوریت کے ذریعہ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ہمیں کسی بھی لحاظ سے جمہوری اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، سب کو برابر حقوق ملنے چاہئیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی دن اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا تھا کہ بلا رنگ ، نسل و مذہب پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق مساوی ہونگے۔ قائد اعظم کے خطاب سے اقلیتوں کو بہت حوصلہ ملا تھا لیکن 1973 ء کے آئین میں بہت سی دفعات پر اقلیتوں کو تحفظات ہیں ۔ ان تحفظات کو دور کیا جانا ضروری ہے کہ اگر پاکستان میں امتیازی قوانین ہونگے تو اس کا نقصان ہندوستان اور دیگر ملکوں میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کو ہوگا کہ ایک لحاظ سے وہ بھی امتیازی قوانین بنائیں گے ۔ سٹیٹ ماں ہوتی ہے اور اس میں رہنے والے سب بیٹے تو ماں کو سب سے برابر پیار ہوتا ہے اور ماں کے بیٹے بھی اپنی ماں دھرتی کو مقدس جانتے ہیں ۔ گلستان کی خوبی اس کے مختلف پھولوں ‘ مختلف رنگوں اور مختلف خوشبوؤں سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کو بھی اسی طرح کا گلدستہ ہونا چاہئے ۔ 11 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے اقلیتیوں کے مساویانہ حقوق کی بات کی ، انہوں نے اپنی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا ۔ قیام پاکستان کے دو سال بعد جوگندر ناتھ منڈل نے استعفیٰ دیدیا ۔ انہوں نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو استعفیٰ کی چٹھی میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں خصوصاً ہندؤوں سے ناروا امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور میں ان کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکا ۔ لہٰذا مجھے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ جوگندناتھ منڈل کے حوالے سے دو باتیں توجہ طلب ہیں ، ایک یہ کہ قائد اعظم نے خود ایک غیر مسلم کو وزیر قانون بنایا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو انتہا پسند سٹیٹ نہ بنانا چاہتے تھے ۔ لہٰذا 1973ء کے آئین میں اقلیتیوں کے خلاف جو امتیازی قوانین بنے ، وہ قائد اعظم کی سوچ کے بر عکس تھے ۔ دوسرا یہ کہ 11 اگست اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا تو جاتا ہے مگر حقوق دیئے نہیں جاتے ۔ فادر یونس عالم سے پرانی نیاز مندی ہے وہ میرے دوست میرے کالموں کی وجہ سے بنے، بہت ہی صاف گو آدمی ہیں وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے ددھیال فیصل آباد سے اور ننھیال مظفرگڑھ سے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ غالباً 1860ء میں انگریزوں کے ساتھ آئے اور وہ صفائی کا کام کرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایم اے کرنے کے ساتھ 8 سال چرچ میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور میں نے فادر کا لقب حاصل کیا، میرے والد صادق عالم اور والدہ نے بہت دکھ دیکھے۔ 13 مارچ 1964ء کو میں پیدا ہوا تو میرے ہوش سنبھالنے پر مجھے اپنی اماں، اپنے گھر اور اپنے وسیب کی غربت کے بارے میں بتاتی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں قدم قدم پر غریبوں کے پاس دکھ کے سوا کچھ نہیں، اس لئے میں غریبوں سے محبت کرتا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ سرائیکستان قومی اتحاد میں میری شمولیت ماں دھرتی سے محبت کے حوالے سے ہے، انڈس ویلی صوفی سنگت کا میں صدر ہوں اس پلیٹ فارم سے ہم انسان دوستی کے پیغام کو عام کرتے ہیں، ایک ہماری تنظیم مینارٹی موومنٹ فارڈیموکریسی ہے ، اس تنظیم کا ایک شعبہ ریسرچ فار مینارٹی ہے، میں نے تیس کے قریب اردو، انگریزی اور سرائیکی میں ریسرچ پیپر تیار کرائے اور ان کو کتابی صورت میں شائع کیا۔ 200 سے زائد مذاکرے، مباحثے، سیمینارز اور امن ریلیاں اس حوالے سے نکالیں کہ انسانیت کو امن اور انصاف ملے۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ