وفاقی بجٹ کی طرح پنجاب کے صوبائی بجٹ میں بھی وسیب کے مجوزہ الگ صوبے کے صوبائی سیکرٹریٹ کیلئے فنڈز نہیں رکھے گئے حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ دینے کے نام پر الیکشن لڑا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ کے نام پر ووٹ حاصل کئے، نئے بننے والے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو اقتدار میں آنے کے 100دن میں صوبہ بنانے کے تحریری وعدے پر تحریک انصاف کا حصہ بنایا گیا مگر اب 100تو کیا 400دن پورے ہونے والے ہیں تحریک انصاف صوبے کے معاملے پر قطعی طور پر خاموش ہے، کسی بھی جماعت کا منشور اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ کوئی بھی جماعت جس مینڈیٹ پر ووٹ حاصل کرے اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے وعدے اور اپنے منشور پر عمل کرے، وعدہ خلافی کی شکل میں آئین کی دفعہ 62اور 63اس پر لاگو ہوتی ہے اور آئینی اعتبار سے وعدہ خلافی کرنے والا نا اہل قرار پاتا ہے۔ وسیب کے کروڑوں لوگ توقع کر رہے تھے کہ تحریک انصاف اپنے وعدے اور اپنے منشور کے مطابق الگ صوبے کیلئے اقدامات کرے گی اور بجٹ میں صوبائی انفراسٹرکچر کیلئے رقم مختص کی جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ سب سول سیکرٹریٹ کیلئے 3ارب کی رقم مختص کی گئی ہے حالانکہ سب سول سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تحریک انصاف کے منشور میں سب سول سیکرٹریٹ کا تذکرہ ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ سب سول سیکرٹریٹ کیلئے بجٹ تو مختص کر دیا گیا ہے مگر اس کے بھی دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے ،کہا جاتا رہا کہ یکم جولائی کو سب سول سیکرٹریٹ کام شروع کر دے گا، کہاں شروع کرے گا؟ ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔وسیب کے لوگوں کا خیال ہے کہ سب سول سیکرٹریٹ کے ایشو کو وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اب بھی کچھ معلوم نہیں کہ سب سول سیکرٹریٹ ملتان ہوگا، لودھراں یا بہاولپور، سب سول سیکرٹریٹ کے اختیارات کی آئینی پوزیشن کا بھی ابھی تک کسی کو علم نہیں ، وسیب کے لوگ سب سول سیکرٹریٹ کے ڈھونگ کو صوبے کے قیام کو روکنے کا حربہ سمجھتے ہیں۔سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنماؤں خواجہ غلام فرید کوریجہ ، پروفیسر شوکت مغل، مہر مظہر کات، مسیح اللہ خان جام پوری ، ضمیر ہاشمی ، راشد عزیز بھٹہ اور اجالا لنگاہ نے پچھلے دنوں اپنے اجلاس میں اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وسیب کے ساتھ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح یہ حکومت بھی دھوکہ کر رہی ہے اور عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا اور صرف لولی پاپ مل رہے ہیں۔ سرائیکی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ہم صوبہ کیلئے جدوجہد ، احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کریں گے ، سرائیکی جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈے پر متفق ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے آئے ہوئے سرائیکی رہنما ملک اکرام ڈیوالہ نے کہا کہ جس طرح پنجاب کے صوبائی بجٹ میں وسیب کو نظر انداز کیا گیا ہے اسی طرح خیبرپختونخواہ کے بجٹ میں بھی ٹانک و ڈی آئی خان کو نظر انداز کیا گیا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے کی ہماری ڈیمو گرافی تبدیل کی جا رہی ہے۔فوری طور پر ہمیں سرائیکی صوبہ کا حصہ بنایا جائے اور ہم اپنے وسیب سے بار بار یہی فریاد لیکر آتے ہیں کہ مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر ہمیں بھلا نہ دیا جائے ،ہمیں صوبے کا حصہ بنایا جائے،پنجاب حکومت کی طرف سے 35فیصد حصہ وسیب کیلئے مختص کرنے کے اعلان پر ان کا کہنا تھا کہ سابقہ دور میں بھی 35فیصد بجٹ مختص کئے جاتے رہے مگر 10فیصد بھی خرچ نہ کئے گئے ، تحریک انصاف کی ایک سال کی کارکردگی مایوس کن ہے ، جب تک صوبہ کیلئے عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا اور صوبہ کمیشن قائم نہیں ہوتا ہم خاموش نہیں رہیں گے ۔ پنجاب کے بجٹ میں وسیب کو نظر انداز کرنے کی شکایات عام ہیں، مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر محمد اعجاز الحق نے حالیہ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کا راگ الاپنے والے حکمرانوں نے بجٹ میں ضلع بہاولنگر کو نظر انداز کر کے امتیازی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھا ، اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ اپنے علاقے کو نواز رہے ہیں جبکہ بہاولنگر کی پسماندگی کا انہیں کوئی احساس نہیں۔ ہم اس جملہ معترضہ کے ساتھ تائید کرتے ہیں کہ بہاولنگر کو صرف عثمان بزدار نے نہیں بلکہ ضیاء الحق اور ان کی باقیات نے بھی نظر انداز کیا ، البتہ یہ بات درست ہے کہ بہاولنگر واحد ضلع ہے جہاں کوئی انڈسٹری نہیں ، یونیورسٹی تو کیا میڈیکل انجینئرنگ یا کیڈٹ کالج بھی نہیں ، قیام پاکستان کے بعد امروکہ ، بٹھنڈا روٹ کی بندش سے بہاولنگر کو بہت بڑا تجارتی خسارہ ہوا، آج بھی بہاولنگر کو ریلوے کی سہولت حاصل نہیں اور دریائے ستلج کی بندش کے بعد تو بہاولنگر کو بہت نقصان ہوا ۔ سی پیک منصوبے میں بھی بہاولنگر اور بہاولپور سب سے زیادہ نظر انداز ہوئے حالانکہ قیام پاکستان میں سب سے زیادہ قربانیاں ریاست بہاولپور کی ہیں ،کیا قربانیوں کا یہی صلہ ہے؟۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف برملا کہتی تھی کہ وسیب کے مسئلے صوبے کے قیام کے بغیر حل نہیں ہو سکتے ، الیکشن کے دوران سب سے بڑا انتخابی نعرہ صوبہ تھا اور تحریک انصاف کے لیڈران کرام وسیب کی محرومی کا ذکر درد بھری آواز میں کرتے ، مجھے یاد ہے کہ شہباز شریف دور میں سول ججوں کی تعیناتیوں کو بہت اُچھالا گیا اور کہا گیا کہ 500 سول ججوں کی تعیناتی میں سے وسیب کو صرف 27 سول ججز ملے۔ اب گزشتہ روز کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ صوبہ بھر میں ماتحت عدلیہ کیلئے 600سول جج بھرتی کئے جا رہے ہیں ، وکلاء سے 29 جون تک درخواستیں مانگی گئی ہیں، خبر میں کہا گیا کہ سول ججوںکے بعد 300 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھرتی کئے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک ’’انصاف ‘‘کے دور میں ’’انصاف‘‘ کے ادارے سے وسیب کو کتنا انصاف ملتا ہے ؟مگر ہم بات تحریک انصاف کے لیڈران کرام کی ہی دہرائیں گے کہ جب تک صوبہ نہیں بنے گا وسیب کو اس کا حق نہیں ملے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ