گزشتہ سے پیوستہ
ذوالفقار علی بھٹی سے ملاقات کا ایک وسیلہ منٹو کے مزاج اور فکر سے یکسر مختلف وضع کے ایک شخص اسلم انصاری صاحب بھی بنے۔۔۔معاملہ یہ تھا کہ ان دنوں کومل جذبوں اور فکری لطافتوں کے عکس گر یہ شاعر اور نقاد ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے میں کالج کے ابتدائی دنوں ہی سے ان کی شاعری کا مداح بن چکا تھا جب وہ گورنمنٹ کالج ملتان میں اردو کے استاد ہوا کرتے تھے ۔ اب منٹو کے ساتھ نئی نئی سنگت اور دوستی نے ادیبوں کی محفل میں بیٹھنے کا جو حوصلہ فزوں کیا تھا اس کے باعث جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ملتان کے اہل ادب دانش سے بھی نئے انداز میں ملاقاتیں ہونے لگی تھیں اور ان میں سے بعض کے ساتھ تعلق میں بھی ایک نئی استواری سی پیدا ہونے لگی تھی۔ اسی دریافت نو کے سفر میں پروفیسر اسلم انصاری سے ملاقات ہوئی تو ان کی شاعری اور شخصیت کے کئی نئے گوشے سامنے آئے۔ ہوا یہ کہ میرا دوست احمد فاروق مشہدی ، ناصر کاظمی پر اپنا ایم ے اردو کا مقالہ لکھ رہا تھا۔ وہ اس سلسلے میں رہنمائی کے لئے اسلم انصاری سے ملنا چاہتا تھا کیونکہ ناصر کاظمی سے انصاری صاحب کا خاص تعلق اور دوستانہ رہاتھا۔۔۔ ہم دونوں انصاری صاحب سے اکٹھے ہی ملے انہوں نے ناصر کاظمی کے علاوہ منٹو کے فن پر بھی بہت بصیرت افروز گفتگو کی یوں ان سے تعلق کے قیام میں بھی منٹو صاحب کی مہربانی شامل حال رہی ۔اکرچہ انصاری صاحب اہل زبان کی مانند بہت نستعلیق انداز میں اردو بولتے تھے لیکن تھے تو پکے ٹھکے ملتانی اس لئے بہت جلد ان سے دوستی ہو گئی اور کلام بھی ملتانی زبان میں ہونے لگا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا منٹو پر تحقیق کا جنوں تھا اسلئے اپنی نومولود علمی پیاس بجھانے کےلئے انصاری صاحب جیسے عالم فاضل شخص کے پاس ملتان آرٹس کونسل جاکر ادبی مکالمہ ایک معمول بن گیا۔ ایک روز اسی سلسلے میں آرٹس کونسل پہنچا تو انصاری صاحب اپنے دفتر میں موجود نہیں تھے، میں واپس لوٹنے ہی لگا تھا کہ ایک بے تکلف سی آواز نے میرے قدم روک لئے
"سائیں ، آرٹس کونسل میں صرف اسلم انصاری صاحب ہی نہیں ہوتے کچھ اور لوگ بھی ہیں ۔۔۔۔!”
میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک طرف برآمدے میں کچھ لوگ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے یہ آواز ایک سادہ سے دیہاتی وضع قطع کے نوجوان کی تھی جو اب اپنے ساتھ ہی بیٹھے انورجٹ (اس وقت سٹیج کے نامور فن کار) کی کسی پھبتی پر پورا منہ کھول کر ہنس رہا تھا ۔ 1960/80 کے تین عشروں میں ملتان کی کوئی بھی ثقافتی تقریب انور جٹ مرحوم کی موجودگی کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی تھی ۔میرے قدم بے اختیار اس محفل کی طرف اٹھتے چلے گئے اور پھر کافی دیر میں اس محفل زندہ دلاں کا حصہ بنارہا یہ محفل پروفیسر اسلم انصاری سے ملاقات سے یکسر مختلف تھی جس میں موسیقی و مصوری اور فائن آ رٹس کے دیگر شعبوں پر بات چیت کے ساتھ لطائف وظرائف، جملے بازی اور پھکڑ پن سب کچھ تھا ۔۔۔ ذوالفقار بھٹی اور انور جٹ سے یہ میرا پہلا بالمشافہ اور بے تکلف تعارف تھا۔۔۔ لیکن میں منٹو صاحب سے ڈر بھی رہاتھا اس لئے کنکھیوں سے میں نے منٹو کی طرف دیکھا، مجھے لگا منٹو صاحب کو بھی یہ محفل اچھی لگی ہے کیونکہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی مجھے لگا کہ انھوں نے اس محفل کا حصہ بننے کی بھی آشیرباد مجھے دے دی ہے۔۔۔میں نے جب اس محفل میں منٹو سے اپنی دوستی کا ذکر کیا تو بھٹی نے بے ساختہ کہا
"منٹو واقعی ایک بڑا فن کار ہے یار!۔۔۔ میرا اس سے ایک رشتہ یہ ہے کہ اس کی چھوٹی بیٹی نصرت منٹو نیشنل کالج آف آرٹس میں میری کلاس فیلو تھی ۔۔۔”
منٹو کے تذکرے پر بھٹی کافی پر جوش دکھائی دے رہاتھا، اس نے جوش کے اسی عالم میں اعلان کیا، "شاہ جی میں تمہارے تھیسز کے سرورق کے لئے منٹو کا ایک اچھا سا سکیچ بنا کر دوں گا !”
اب مجھے بھٹی سے ملنے کا یہ جواز،بھی مل گیا۔ اس کے نعد بھٹی سے ملاقاتوں کا ایک بے انت سلسلہ۔۔۔ اگرچہ اس فن کار سے دوستی تو آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی لیکن اس کا یہ وعدہ بھی اس کے کئی دیگر "پر جوش وعدوں” کی طرح کبھی پورا ہونے والا نہیں تھا اور اب تک یہ وعدہ ءفردا ہے ۔۔۔ اس نے ایک عرصے بعد خفت مٹانے کے لیے خود اس درویش کا پورٹریٹ مصور کرنے کا بھی بالکل ایسا ہی پرجوش وعدہ کرلیا لیکن وہی نامکمل وعدہ ءفردا۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اس سے کہا بھی کہ اب تو گردش دوراں نے اس درویش کے چہرے پر پورٹریٹ کے لئے مطلوبہ گہری گنجل دار لکیریں بھی ڈال دی ہیں لیکن تمہاری ادھر توجہ ہی نہیں اس کی طرف سے پھر ایک پرجوش وعدہ اور پھر ایک لمبی چپ۔۔!
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹی سے کوئی کام کروانا ہو، خاص طور پر مصوری کے سلسلے میں ۔۔۔ تو یہ کوئی کوئی آسان مرحلہ نہیں ایک دور میں ملتان بھر کے ادیب و شاعر اس سے اپنی کتابوں کے سر ورق/ٹائٹل بنوانے کی خواہش کیا کرتے تھے اور اس نے لاتعداد سرورق بنائے بھی جن میں ملتان کے نامور شاعر عرش صدیقی کی کتابوں کے سرورق یادگار ہیں۔۔۔ لیکن بھٹی صرف اسی وقت کام کرتا تھا جب سائل اس کے گھر آکر پلتھی مار کر بیٹھ جاتا اور ٹلنے کا نام تک نہیں لیتا تھا پھر نہ جانے اس سے "متاثر ہوکر” یا اسے رخصت کرنے کے لئے لکیریں کھینچنے بیٹھ جاتا ملتان کے اکثر ادیبوں سے اس کی دوستی کی ایک اہم وجہ اس کی یہی سہل انگاری بھی رہی کیوں کہ اسی باعث یہ لوگ بار بار اس کے پاس آنے پر مجبور ہوتے اور یہ تعلق بہت جلد دوستی میں بدل جاتا ۔۔۔ لوگوں کو لگتا کہ بھٹی نے ان کا کام دوستی ہی میں کردیا ہے کیونکہ ایسے سرورق بنانے کا نہ اس نے کبھی کسی سے معاوضہ طلب کیا اور شاید نہ ہی کبھی کسی نے کچھ دینے کی کوشش کی اگرچہ ان دنوں اس طرح کے کام کرتے ہوئے یہ جملہ بارہا اس کے منہ سے سنا کہ ” یار یہ مجھے پروفیسر عاصی کرنالی صاحب (مرحوم کیا وضعدارانسان اور قادرالکلام شاعر تھے) کی طرح سہرے لکھنے نہیں آتے لیکن یار لوگ یہ کام مجھ سے کروا لیتے ہیں ” اس کا کہنا تھا کہ سرورق بنانا سہرا لکھنے کی طرح ہوتا ہے، فرمائش کسی کی ۔۔۔خیال کسی اور کا ۔۔۔ اور برش میرا، جب کہ اصل مصوری ۔۔۔ پورٹریٹ، لینڈ سکیپ وغیرہ غزل یا نظم لکھنے کی طرح ہے جس میں آرٹسٹ کو تخلیقی آزادی میسر ہوتی ہے تجربہ اور خیال بھی اپنا اور فن بھی اپنا ۔۔۔ ا س کو اس طرح کھپتے دیکھ کر میں چپکے سے کہتا لیکن تم تو اپنے آزادی کو اپنی گمراہیوں کی نذر کر دیتے ہو باقاعدگی سے کوئی چیز کا کام ہی کرلو کبھی۔۔۔! میرے اس بات سے اختلاف کرنے کی جرات اسے کبھی نہیں ہوئی لیکن کبھی اس نے اس طعنے سے کوئی مثبت اثر بھی نہیں لیا اس لئے اس کا فنی اثاثہ کافی محدود ہے، اب جب کہ کسی اور ہلے گلے کی توفیق محدود ہوتی جارہی ہے اسے اس طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے شاید ملتان اس آرٹسٹ کی زرخیزی سے فیض یاب ہو سکے۔
میں کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگیا، بات ذوالفقار علی بھٹی اور انور جٹ کے ساتھ پہلی ملاقات کی ہورہی تھی تو جناب راوی کہتا ہے کہ اس پہلی نشست ہی میں ہم تکلف کی حدیں پار کر کے دوستی کی مملکت جگت داد میں داخل ہو چکے تھے اور اس کے بعد ملتان آرٹس کونسل میں میری آمدورفت کی اصل ترغیب یہ سادہ لوح لیکن بے حد ذہین، طباع اور جملے باز دیہاتی نوجوان بن گیا تھا۔۔۔ ایک طرف پروفیسر اسلم انصاری کی نفیس اور پرتکلف وضعداری اور شستہ و شائستہ دانشورانہ گفتگوئیں تھیں اور دوسری طرف بے تکلف لوکیئل ملتانی میں گپ شپ اور جملے بازی جس میں اکثر انور جٹ بھی شریک ہوجاتا اس محفل کے رنگ ہی اور تھے ۔۔۔ اب انصاری صاحب کو گلہ ہونے لگا کہ
"تم آکر ان چھوکروں میں بیٹھ جاتے ہو”
اگرچہ ان "چھوکروں ” کی ذہانت اور طباعی کے وہ خود بھی بہت مداح تھے اور آ رٹ اور موسیقی پر ان سے گاہے بگاہے مکالمہ کیا کرتے تھے ( انور جٹ موسیقی کے رموز سے اس قدر گہری آگہی رکھتا تھا کہ موسیقی کے کئی استادوں کو اس کی بہت عزت کرتے دیکھا۔) جب انصاری صاحب، انور جٹ سے موسیقی پر گفتگو کرتے تو وہ ہارمونیم اور طبلہ لاکر بیٹھ جاتا اور موسیقی کے رموز پر نظری و عملی مکالمہ شنیدنی و دیدنی ہوتا۔ اسی طرح بھٹی سے استا اللہ بخش اور شاکر علی پر گفتگو ہوتی اگرچہ زوار حسین (ملتان کے نامور مصور) کی طرح دانشورانہ گفتگو کرنے سے بھٹی کی روح فنا ہوتی تھی۔۔۔ انصاری صاحب بھٹی اور انور جث کی صلاحیتوں کے قائل تھے لیکن ان دونوں کی لاپروائی کا شکوہ بھی وہ اکثر کرتے اس پر مجھے بہت ہنسی آتی کیونکہ موصوف خود اس اپنی مثالی لاپروائی میں ایک شہرت الدوام رکھتے تھے۔۔
جیساکہ پہلے بھی اشارہ کیا گیا کہ انصاری صاحب اردو کے پروفیسر اور شاعر تھے اور پرانے ملتانی ہونے کے باوجود اہل زبان کی سی نستعلیق اردو بولتے تھے ۔محض یہی نہیں مشہور تھا کہ وہ اردو سے کم کسی سے بات ہی نہیں کرتے۔۔۔ لیکن شاید انہی دوستوں کی برکت تھی یا انصاری صاحب کو اس درویش کے پینڈو پنے پر ترس آگیا یا انہوں نے مجھ سے کچھ زیادہ اپنائیت محسوس کی کہ اپنی نستعلیق اردو چھوڑ کر (ایسا انہوں نےشاید ہی کبھی کیا ہو ) اس درویش سے اپنی دلکش شہری ملتانی میں کلام کرنا شروع کردیا جس سے ان کے ساتھ میری اپنائیت اور محبت میں اضافہ ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بعد میں سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں انصاری نے بطور ایڈوائزر (شاید2009تا 20013) کام کیا تو سرائیکی زبان و ادب کے کئی مسائل کی تفہیم میں اس درویش کو ان کی مسلسل رہنمائی میسر رہی ، یہاں سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں ذوالفقار بھٹی بھی آ شامل ہوا ، پہلے وہ سنٹر میں بطور ایڈوائزر آیا اور پھر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی پریس میں مینجر کے طور پر اس کے تقرر نے یاران نکتہ داں کو ایک بار پھر اکٹھا کردیا اس کا تذکرہ پھر سہی۔
(جاری ہے )
فیس بک کمینٹ