"غزل”اہل مشرق کی تہذیبی شناخت ہے ۔اس کا فنی سفر عربی قصیدے سے شروع ہوا اور پھر اہل فارس اس کے پہلے محافظ ٹھہرے۔فارس سے یہ پاک و ہند کے مسلمانوں کی پہچان بنی۔ڈاکٹر وزیر آ غا نے "اردو شاعری کے مزاج” میں تاریخی،تحقیقی اور تنقیدی شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ غزل مسلم شعراء کی محبوب صنف ہے اور اس کی جنم بھومی ہندوستانی سرزمین نہیں جبکہ یہاں کی تہذیبی شناخت گیت نگاری ہے ۔گیت نے خالصتا ہندوستانی ماحول سے اپنا خمیر پایا ہے ۔گیت کے مزاج کو ہندوستانی تہذیبی وثقافتی اور وسیبی ماحول راس ہے ۔جو بے ساختہ اظہار گیت میں ہو سکتا ہے شاید کسی اور صنف کو وہ اظہار نصیب نہیں ۔گیت میں چونکہ بے ساختہ جذبات ہوتے ہیں اس لیے گیت ہی کی صنف اس کے ساتھ فنی مطابقت رکھتی ہے ۔گیت میں قافیہ ردیف،لفظیات اور عروضی جکڑ بندیاں اس طرح نہیں ہوتیں جیسی کہ غزل میں ہوتی ہیں۔غزل اپنے مزاج میں بہت حساس اور کئی فنی باریکیوں کی متقاضی ہوتی ہے اس لیے اس کے عقب میں ایک خاص طرح کا علمی،فنی اور لسانی شعور کارفرما ہوتا ھے اور یہ شعور عربی ،فارسی اور اردو ایسی زبانوں ہی کی بدولت ممکن ہے ۔اگر کسی اردو شاعر کے ہاں کثیرأللسان السنہ کا شعور موجود ہو تو وہ سچا ،کھرا اور بڑا غزل گو شاعر بن سکتا ہے ۔ہمارے تمام کلاسکی اردو شعراء کے ہاں اس شعور کے ورثے کو بآ سانی دیکھا جا سکتا ہے ۔عہد حاضر میں ہمارے پاس بڑی مثال اسلم انصاری کی غزل گوئی کی ہے ۔اسلم انصاری کا شمار ہمارے ہاں ان شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو غزل کو ایک وقار اور اعتبار بخشا،اور ثابت کیا کہ غزل ایک ایسی صنف ہے جو اپنی تخلیقی اور فنی توانائی کی بدولت زندہ ہے اور تاابد زندہ رہے گی،وہ کہتے ہیں:
گداز جاں سے لیا میں نےپھر غزل کا سراغ
کہ یہ چراغ تو جیسے کبھی بجھا ہی نہ تھا
اسلم انصاری نے اپنی غزل کو جو انفرادیت دی ہے اس کے پس منظر میں ان کے لسانی شعور کا بڑا عمل دخل ہے ۔آ پ کو ایک ہی وقت میں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آ پ شاعری کے فن کے مشرقی علوم اور مشرق ومغرب کے انتقادی اصولوں کے ماہر تھے اسی لیے آ پ کی غزل لسانی اور فنی دونوں حوالوں سے میچورٹی کی انتہا پر ہے ۔آ پ کی مستعمل اصطلاحیں،تراکیب ،مرکبات ،کومل لفظیات ،قوافی،ردیفیں،استعارے ،کنائے اور تشبیہیں ان کی غزل کو ایک بڑےتخلیقی حسن سے ہمکنار کرتی ہیں۔انسانی نفسیات کا اظہار اور موجودہ عہد میں پائی جانے والی سماجی بیگانگی اور تنہائی کے کرب کو بھی آ پ خوب جانتے تھے :
ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے
دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے
ڈرتا ہوں آ ئینہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤ ں
اک لو سی ہوں چراغ کی،کوئی بجھا نہ دے
یوں لگتا ہے
اسلم انصاری کو کسی بڑے وچھوڑے یا کرب کا سامنا تھا جس کا اظہار ان کی غزل میں کثرت سےدکھائی دیتا ہے :
کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں
اسلم انصاری نے ہمیشہ اپنا بسیرا انسانوں ہی میں بسائے رکھا انھیں انسان کے بنیادی اور قلبی معاملات سے ہی سدا دلچسپی رہی۔ آ پ کا ہر شعر کسی نہ کسی باطنی کیفیت کا غماز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آ پ کی غزل اور آپ کامزاج آپس میں لازم وملزوم ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کا مزاج اور غزل :اصل میں دونوں ایک ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ آپ ، آ پ کی غزل کے تعارف کا بنیادی حوالہ ٹھہری ہے ۔
فیس بک کمینٹ