اے بے قرار دل!
زندگی نے تیرا بار بار امتحان لیا۔ تجھے طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ تو نے بار بار خود کو حالات کے حوالے کیا اور بار بار تجھے ناکامی اور مایوسی سے واسطہ پڑا۔ تو نے جس جس پر بھروسہ کرنا چاہا وہ امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ جانے تو کس چیز کا متلاشی تھا۔ تجھے سمجھنا آسان نہ تھا۔ بس وہ خاموش درد و کرب محسوس ہوتے جس سے پتہ چلتا کہ کہیں نہ کہیں تیرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ناانصافی کس نے کی؟ سما ج نے؟ جس نے تمہاری قدر نہیں جانی اور ہمیشہ تمہاری کامیابیوں کو کمتر جانا اور تمہارے اندر کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے سے انکار کیا۔ تمہارا مقابلہ دوسروں سے ہمیشہ کیا گیا اور تم کو ہی پسماندہ سمجھا گیا۔ ذلّت اور توہین کا یہ احساس تجھے چکنا چور کرتا۔ غصّہ سے تو ابل پڑتا۔ غم و یاس کا دورہ مہینوں تک رہتا۔ یہ مادہ پرست معاشرہ کب سمجھے گا کہ دل میں صداقت سب سے انمول شے ہے۔ اسی صداقت سے خدا کا نور دل کو منور کرتا ہے اور یہی نور دنیا کے ذرّے ذرّے کو چمکاتا ہے۔ یہ پسماندہ سماج کب جانے گا کہ اس میں بسنے والا ہر دل منفرد ہے اور خدا کی وحدت کا بین ثبوت ہے جس نے فرصت سے ہر دل کی تخلیق کی اور اس دل کو بینائی بخشی۔ سماج نے قدم قدم پر اپنے آئین و آداب سے تجھے بدلنا چاہا۔ اس سے تجھے تکلیف ہوئی کیونکہ تم جیسے بھی ہو ناقبول قرار دئے گئے۔
ناانصافی ہر اس شخص نے کی جس پر تو نے بھروسہ کرنا چاہا اور توقع کی کہ وہ تجھے اپنائے گا۔ اے دلِ ناداں تو کیا ڈھونڈھ رہا ہے؟ سہارا؟ اپنا پن؟ کیوں؟ تجھے اکیلے پن کا احساس ستاتا ہے۔ تاریکی سے تو گھبراتا ہے۔تجھے اپنا نور کھونے کا خوف ہے۔ اس اثنا میں تو ہر ایک سے التماس کرتا کہ وہ تجھے سینے سے لگائے اور تمہارے اندر امڈ رہے سیلاب کو روکے۔ اے معصوم دل وہ لمحہ کتنا اذیت ناک تھا جب تجھے احساس ہوا کہ زندگی کے سفر میں ہر کوئی دو ست اور خیرخواہ نہیں ہوتا۔ مفاد پرستی سے جب تو دوچار ہوا تو اس وقت تجھ پر کیا کیا نہ گذری۔ مجھے افسوس ہے کہ تو اکیلے میں تلملاتا تھا۔ آہ وزاری کرتا تھا مگر کسی نے تیری چیخ وپکار نہیں سنی۔ تجھے دلاسہ دینے والا کوئی نہ تھا۔ حالات کے سرد تھپیڑوں سے محفوظ رکھنے والا کوئی موجود نہ تھا۔ جو بھی ملا تجھے اپنے طنز اور عداوت کا نشانہ بناتا چلا گیا۔ ان زخموں کے داغ کو دیکھ کر آج بھی نفرت کی آگ تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ناانصافی تواپنوں سے شروع ہوئی۔ جنہوں نے کبھی تمہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ان کی نظر میں تم میں لاتعداد نقص تھے۔ تم تو کبھی ان کی امیدوں پر پورا نہ اتر پائے۔ ان کی دلنوازی پانے کے لئے تم نے کیا کیا کوششیں نہیں کیں۔ ان کو بیش بہا عنایتوں سے نوازتے رہے۔ اے شکستہ دل تو تو رحم اور سخاوت کا لبادہ اوڑھے دلکشائی میں منہمک رہا اور بدلے میں دل برداشتہ رہا۔ تیرا دکھ تو یقیناًگہرا ہے۔ اپنوں سے ملی تکلیف ہی دلآزاری کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ جب اپنوں نے ہی نہیں اپنایا تو دنیا کیسے اپناتی۔اس درد و کرب سے تو نے جتنی دل خراش صدائیں نکالیں وہ کسی نے نہیں سنی۔ وقت کے ساتھ تو نے سیکھ لیا کہ اپنوں کے سامنے رونا بے سود ہے۔ اس لئے تو نے اپنوں سے گوشہ نشینی اختیار کی۔ تجھ کو کسی نے نہ سمجھا اور اس علیحدگی کے لئے بھی تجھے صلوا تیں سنائی گئیں۔ مگر اے مغموم دل ممکن ہے تو نے کبھی خود کو سمجھا ہی نہیں۔ تو نے دنیا کی پرواہ کی اور خود سے بے سوادی کی۔ تجھے چاروں طرف اس لئے ٹھکرایا گیاتاکہ تجھے احساس ہو کہ تیرا دلدار تیرا خدا ہے جس نے کبھی تجھ سے منہ نہیں موڑا۔ تجھے آفتوں سے محفوظ رکھا۔ تیرے رازق نے سدا تیرا خیال رکھا۔ تجھے سراہا اور صحیح وقت پر صحیح لوگوں کو تمہاری راہ میں لا کر تمہارا کام آسان کیا اور تیرا بیڑا پار لگایا۔ تمہارے مخالفین نے تو تجھے یہی سکھایا کہ لوگوں پر توقع نہ رکھو۔دنیا خدا کے بھروسے چلتی ہے۔اے دلِ بسمل یاد رکھ خدا کے حکم کے بغیر دنیا میں ایک پتّہ تک نہیں ہلتا۔ ان لوگوں کو معاف کرجنہوں نے تجھے دل برداشتہ کیااور تمہاری دلآزاری کی۔ ان کے دئے ہوئے دکھوں کو پلکوں پر بٹھانا نادانی ہے۔ معاف کر دے۔ انہیں جانے دے۔ مت بھول خدا تجھے اسی طرح معاف کرتا ہے جس طرح تم دوسروں کو معاف کرتے ہو۔ غم ومایوسی کی آڑ میں جیتے جیتے تمہیں ان دکھوں کو گلے لگانے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ یہ نہیں ہونگے تو تم اور بھی تنہا ہو جاؤ گے۔ جانے دو انہیں۔ غم کی شب کو الوداع کہو گے تبھی امید کی صبح کا خیر مقدم کر پاؤ گے۔
تم انصاف کے طلبگار ہو۔ اس لئے معاف کرنے سے قاصر ہو۔ اے دلِ ناداں دشمن تمہیں کیا دے سکتے ہیں جو تم آس لگائے بیٹھے ہو کہ تجھے انصاف ملے اور جیت تمہاری ہو۔ فیاضی تو خدا کے راستے پر چلنا ہے۔ سب سے بڑا بدلہ تو یہی ہے کہ ان کو دل سے نکال دو اور اس در د کی تلافی احساسِ استحسان سے کرو۔ شکر کرو اپنے خدا کا جس نے تیرا خیال رکھا۔ تجھے پیدا کیا اور اپنی ذمے داری سے کبھی غافل نہیں ہوا۔
ڈر اور درد کے بادل کو چیر کر آگے بڑھنا جان لیوا تجربہ ہوتا ہے۔ مگر اے بے خبر دل یاد رکھ یہی تیرے زخموں کا مرہم ہے۔ دنیا والے بھلے تجھے نہ اپنائیں تو اپنا ساتھ ہرگز نہ چھوڑنا۔ تیری طاقت تیرے خدا نے تمہارے اندر ازل سے رکھی ہے۔ تجھے سہارے کی ضرورت نہیں۔ توکمزور نہیں ہے۔ تو جیسا ہے کاتبِ تقدیر کی صنائی کی بہترین مثال ہے۔ شیر اکیلا چلتا ہے۔ اس ڈر کو جانے دے۔ یہ تیرے کسی کام کا نہیں۔ تو محبت کا مجسمہ ہے۔ اے دلِ منتظر جس پیار کو تو دوسروں میں ڈھونڈھ رہاہے وہ تیرے اندر ہے۔ جو محبت تو دوسروں کو دیا کرتا تھا اس کی سب سے زیادہ ضرورت تجھی کو ہے۔ خود کو اپنا لے۔ خود سے پیار کر لے۔ پھر دوسروں کو محبت کی نظروں سے دیکھ پاؤ گے۔ تیرے دکھوں کا یہی مداوا ہے۔ اے بے قرار دل۔۔۔ اے جان سے عزیز دل۔۔۔
فیس بک کمینٹ