کبھی لالو کھیت مرکز کی حکومت بدل دیا کرتا تھا۔ اب یہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتا۔
کیسی بلندی کیسی پستی۔ ہر حکمران کی کوشش ہوتی تھی کہ لالو کھیت تسخیر کرے۔
گوہر ایوب اپنے والد کی فتح کا جلوس یہیں سے لے کر گزرے۔ دلوں میں گلیوں میں آگ لگادی۔
بھٹو صاحب نے سپر مارکیٹ اور زمیں دوز راستہ بناکر لالو کھیت فتح کرنے کی کوشش کی۔ اور جب افتتاحی تقریب میں بعض لوگوں نے جوتے دکھائے تو کمال حاضر دماغی سے انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔جنرل ضیا کے خلاف تحریک کا آغاز بھی لالو کھیت سے ہی ہوا تھا۔
کسی کی ریلی تین ہٹی اور ڈاکخانے سے گزرنے میں کامیاب ہوجاتی تو اسے فاتح عالم سمجھا جاتاتھا۔لالو کھیت کا تھانیدار ہونا بھی کالے پانی کی سزا ہوتا تھا۔ یہاں کے نوجوان بزرگوں کو قائل کرنا کسی بھی ایس ڈی ایم کے لیے اپنی عملداری کی معراج سمجھا جاتا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لالو کھیت کے لیڈر لالو کھیت میں ہی رہتے تھے۔ ڈیفنس کلفٹن میں نہیں ۔ وہ یہاں کے دُکھ درد میں غمی شادی میں شریک ہوتے تھے۔ جنازے کو کندھا دینے میں پیش پیش۔کراچی کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ طاقت گھٹ گئی ہے۔
شہر پھیل گیا ہے۔ زور سمٹ گیا ہے۔
تجارت زوروں پر ہے۔ متانت منہ چھپائے پھرتی ہے۔
دُنیا میں ساحلی شہر راج کرتے ہیں۔ نیو یارک امریکا کی سیاست اور معیشت کنٹرول کرتا ہے۔ا گر چہ دارُالحکومت واشنگٹن ہے۔ بھارت میں صدر مقام دہلی ہے۔ لیکن بات بمبئی کی چلتی ہے۔
شہر قائد کو آخر کیا ہوا ہے۔ جسے پورے پاکستان کی قیادت کرنی چاہئے تھے اب وہ خود قیادت سے محروم ہے۔ اس شہر کا تو چھوڑیے اس کے توگلی محلّے قیادت کو ترس رہے ہیں۔ تقسیم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ایک ضلع سے پانچ اضلاع۔پھر 18ٹاؤن۔ پھر کچھ اضلاع۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد جن سیاسی جماعتوں کا یہاں غلغلہ تھا۔ اب ان میں سے کوئی بھی پیش منظر میں نہیں ہے۔ کہاں ہے اس وقت کی مسلم لیگ۔ کیا کیا ہستیاں تھیں۔ لیاقت علی خان۔ چوہدری خلیق الزماں پھر جماعت اسلامی نے غلبہ حاصل کیا۔ پروفیسر غفور احمد۔ پروفیسر محمود اعظم فاروقی۔ منور حسن۔ جمعیت علمائے پاکستان ۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ شاہ فرید الحق۔ یہ شخصیتیں نکلتی تھیں تو دائیں بائیں نوجوان مقرر ہوا کے تازہ جھونکوں کی طرح۔ ظہور الحسن بھوپالی یاد آتے ہیں۔ دوست محمد فیضی۔ حافظ تقی۔
بائیں بازو کے کراچی بدر طلبہ۔ فتحیاب علی خان۔ معراج محمد خان۔ علامہ علی مختار رضوی۔ نفیس صدیقی ۔ جوہر حسین۔
ایشیا سرخ ہے۔ ایشیا سبز ہے۔ اب تو ایشیا صرف زرد ہے۔
کراچی سے دارُالحکومت چھین لیا گیا ہے۔ لیکن کراچی سے اس کی مرکزیت۔ اہمیت اور اقتصادی وقعت نہیں چھینی جاسکی۔ کراچی میں روزانہ اربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ روزانہ کروڑوں کا ٹیکس وفاق اور صوبے کو ملتا ہے۔ کراچی کو سندھ کا صدر مقام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں پشاور سے زیادہ پشتون۔ کوئٹہ سے زیادہ بلوچ۔ لاہور سے زیادہ پنجابی۔ ملتان سے زیادہ سرائیکی ۔ مظفر آباد سے زیادہ کشمیری۔ گلگت سے زیادہ بلتی۔فاٹا سے زیادہ قبائلی بستے ہیں۔ سندھیوں کا تو یہ اپنا شہر ہے۔ نئے پرانے سندھی نہیں اب سب صوبائی حیثیت میں سندھی۔ اور قومی حوالے سے پاکستانی ہیں۔
آج یہ شہر قیادت کو ترس رہا ہے۔ سب کی نظریں اس پر ہیں۔ کبھی اس پر لاہور سے سیاسی لشکر کشی ہوتی ہے ۔ کبھی پشاور سے۔ کبھی اندرون سندھ سے۔ اس کی زمینوں پر سب کی نگاہیں ہیں۔ اس کے ساحلوں کا حرص ہے لیکن اس کا درد کوئی نہیں بانٹتا۔ تین دہائیاں قبل اس کے شہریوں کو ایک شناخت دی گئی ۔ نشترپارک میں جلسہ ہوا۔ موسلا دھار بارش میں سب جم کر بیٹھے رہے۔ پھر آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ کیا صوبہ کیا وفاق۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ حکومت بنتی تھی۔ نہ حکومت برطرف ہوتی تھی۔ اس نے اپنے حقوق بھی حاصل کیے۔ اختیارات بھی۔ لیکن جب سیاست میں لسانی شدت پسندی غالب آتی گئی۔ اسلحے کا استعمال ہونے لگا۔ پاکستانی پاکستانی کو ہلاک کرنے لگا۔ مہاجر مہاجر کو مارنے لگا۔ لسانی بنیادوں پر خون بہنے لگا۔ مائوں کی گود اُجڑنے لگیں۔ باپوں سے ان کے سہارے چھینے جانے لگے تو یہ طاقت کمزور ہوتی گئی۔ شناخت دھندلی ہونے لگی۔ یہ شہر ایک طویل عرصے بعد خوبصورت شاہراہیں حاصل کررہا تھا۔ ہرے بھرے پارک۔ روزگار کے مواقع۔ سب زبانیں بولنے والے آپس میں گھل مل رہے تھے۔ اس شہر کے ہاتھوں میں طاقت کا مرکز آرہا تھا۔یہ طاقت تکبر میں بدل گئی۔ یہ کامیابی دماغ کو ماؤف کرگئی۔
اب کل کے طاقت ور۔ سب سے کمزور ہیں۔ ملک پر راج کرنے والے اب محلّوں میں بھی قابل قبول نہیں ہیں ۔ جس طرح خراب حکمرانی نے پورے پاکستان میں بے سکونی۔ بے چینی اور افرا تفری پیدا کی ہے۔ کراچی میں بھی اب یہی حال ہے۔
یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اب روزانہ لاشیں نہیں گرتیں۔ اب اس کی شاہراہیں بوری بند میتیں پیش نہیں کرتیں۔ سب سے بڑے تجارتی و صنعتی مرکز کی روشنیاں بحال ہوگئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے پھر دھواں نکلنے لگا ہے۔ اب اچانک شہر بند نہیں ہوتا۔ کئی کئی روز کی ہڑتالیں نہیں ہوتیں۔دفعتاََ دکانوں کے شٹر گرنا شروع نہیں ہوتے۔ کالج اسکولوں یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ نہیں رکتا۔
لیکن ملک کی اس سب سے بڑی آبادی کا قائد کون ہے۔ شہروں میں رونقیں۔ تجارتی سرگرمیاں ۔ صنعتی گہما گہمیاں۔ بازاروں میں ہجوم۔ سب کی ضرورت ایک فعال قیادت ہوتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس شہر کو پورے ملک کی قیادت فراہم کرنی چاہئے۔ یہ بجا طور پر منی پاکستان ہے۔ پاکستان کی روح ہے۔ یہاں وفاق کی وحدتوں کی نمائندگی بھی ہے۔ دوسرے علاقوں کی بھی ۔ یہاں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں بانیٔ پاکستان کی جائے ولادت بھی ہے۔ مدفن بھی۔ یہاں بانیان پاکستان کی اولادیں بڑی تعداد میں ہیں۔ نئے وطن کے لیے اپنے بستے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کی نسلیں یہاں سانس لے رہی ہیں۔
ملک میں سب سے زیادہ محنت کش۔ کارکن یہاں ہیں۔ کارپوریٹ ایگزیکٹو یہاں ہیں۔ آجر یہاں ہیں۔ ملک بھر کی صنعت و تجارت کے ایوانوں کا وفاق یہاں ہے۔ پھر یہاں سے ملک کو قیادت کیوں نہیں مل سکتی۔ جدید ترین ٹیکنالوجی یہاں دستیاب ہے۔ کال سینٹرز ہیں۔ سافٹ ویئر یہاں تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے امراض قلب کے ادارے کو توسیع دے دی ہے۔ جگہ جگہ اس کے مراکز قائم کررہی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی ہو۔ مذہبی تنظیم ہو۔ این جی او ہو۔ یونیورسٹیاں۔ ان کو جائزہ لینا چاہئے کہ دُنیا کے اکثر ملکوں میں ایسے شہروں سے وابستہ ذہین شخصیات قوموں کو آگے لے جانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ کراچی سندھ کا غرور ہے۔ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔
منفی سوچ دم توڑ رہی ہے۔ مثبت ہوائیں چل رہی ہیں۔ واٹر کمیشن اس کے پانی کو بہاؤدینے کے لیے جدو جہد کررہا ہے۔ سپریم کورٹ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے فیصلے دے رہی ہے۔ شہر کی رونقیں واپس آرہی ہیں۔ اسکی قائدانہ اہلیت بھی واپس آنی چاہئے۔ دل بڑا کرنے۔ انا کے خول سے باہر نکلنے کا لمحہ آگیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ