شکر ہے کہ انڈیا میں جاوید اختر، ممتا بینرجی اور مایاوتی بھی بول اٹھے ہیں کہ ہمارا سیکولر انڈیا کہاں گیا۔ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ کہنے کو واجپائی بھی بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا دور بہت روشن اور بہت مختلف تھا۔ وہ تو پاکستان بھی آئے تھے اور مینار پاکستان دیکھنے بھی گئے تھے۔ جاوید اختر اردو کے بڑے شاعر اور یہ دونوں خواتین انڈیا کی رانی جھانسی ہیں۔ ان کو بھی پریشانی ہو رہی ہے کہ ملک میں سڑکوں ہی کیا، شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کے نام بدلے جا رہے ہیں اور ایسے بھی جملے سنائی دے رہے ہیں کہ ہندوستان کی 22فیصد آبادی جو مسلمانوں پر مشتمل ہے، اس کا نام و نشان مٹا دینگے۔ گرچہ آج کے حالات دیکھیں تو خود انڈیا میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے کہ مذہب کوئی بھی ہو اگر وہ باہمی رواداری اور خوش خلقی نہیں سکھاتا تو وہ چاہے یہودی ہوں کہ ہندو، وہ خود کو انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ ہمارے ملک میں بھی بھٹو صاحب نے اپنی کابینہ کے اراکین کیلئے باجے والوں جیسے سوٹوں کا انتخاب کیا تھا۔ سب جگہ اس کا مذاق اڑا، آخر ان کے اقتدار کے ساتھ ہی فنا ہوگیا مگر جب انہوں نے کرتا شلوار کو قومی لباس قرار دیا تو سوکھے دھانوں، پانی برس گیا اور ملک بھر کے سفید پوش خوش ہوگئے، کرتا شلوار اتنے مقبول ہوئے کہ فلموں سے لیکر ہمسایہ ممالک سے بھی کرتا شلوار کی فرمائش آتی رہی۔ انڈیا میں اب ایک شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ دھوتی کرتے کو قومی لباس قرار دیا جائے۔ ہمارے برصغیر کے تمام تر دیہات میں دھوتی کرتا عام لباس ہے۔ اب ان ملکوں میں بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان سبھی شامل ہیں۔ اس وقت لال قلعہ دلی میں کئی دیواروں سے سیمنٹ اتارا گیا ہے وہاں مغلیہ دور کی تصاویر نکل آئی ہیں۔ ان تاریخی تصاویر کا یہ جنونی کیا کریں گے۔ سارے انڈیا میں پھیلے مغلوں کے آثار کو کیسے مٹائینگے۔ دنیا میں تاریخی آثار اور مقامات کو محفوظ رکھنے کیلئے سب سے زیادہ توجہ تاریخی مقامات کی جانب دی جاتی ہے۔ چین سے لیکر روس تک میں ہزاروں سال پہلے کے شہر اور مقبرے محفوظ کئے گئے ہیں۔ یورپ اور مصر، عراق، بغداد اور ترکی میں پرانے شہروں کو نہ صرف محفوظ کیا گیا بلکہ ان کو ڈاؤن ٹاؤن کہہ کر ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں مغلوں کو بدنام کرنے کیلئے چوکیداروں کو یہ لباس پہنایا گیا ہے۔
اب جو ہزاروں سال پرانے اجنتا اور الورا کے غاروں کو ڈیجیٹل طریقے پر دوبارہ آراستہ کیا جا رہا ہے۔ وہ تو چونکہ بدھا کے زمانے کے آثار ہیں۔ کیا ان کو بھی انڈیا کے جنونی ختم کرنے دوڑ پڑیں گے۔ ایک طرف مغلئی کھانوں کے ذریعہ انڈیا کی تہذیب کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں، دوسری طرف گوشت کے دشمن پراٹھے اور شیرمال کیوں کھا رہے ہیں۔ یہ بھی تو مغل ہی لائے تھے۔ میں ان کی حامی نہیں کہ وہ بھی مقبرے بناتے رہے، یونیورسٹی کوئی بھی نہیں بنائی۔ یہ سب مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کی ترکیبیں ہیں۔ ورنہ اب تو سعودی شہزادہ سلمان بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم نے مغرب کے کہنے پر دنیا بھر میں مسجدیں بنائی ہیں۔ اس لئے تو جرات ہو رہی ہے کہ ہرکس و ناکس قسم کے پیشوا اپنے خوابوں اور نعوذ باللہ بشارتوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ مسجدوں کو اگر تعلیم کے فروغ کیلئے بنایا ہوتا تو پاکستان کے دیہات کے 53 فیصد بچے ان پڑھ نہ ہوتے، عورتوں کو ووٹ دینے سے منع نہ کیا جاتا اور انڈیا میں بھی پدماوت میں عورت کے ستی ہو کر مرجانے کو یوں glorify نہ کیا جاتا۔
اب میں تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھتی ہوں کہ مراکش کے شہر فاس میں ایک مسجد اور ایک یونیورسٹی 1200 عیسوی سے قائم ہے۔ یہ دو بہنیں تھیں کہ جنہوں نے اپنے ترکے کو اس طرح استعمال کیا کہ مریم جو چھوٹی تھی اس نے مسجد بنائی اور بڑی فاطمہ نے یونیورسٹی بنائی جس میں 4ہزار سے زائد نایاب کتب ہیں۔ 1359 میں اس مسجد کو دوبارہ مستحکم کیا گیا۔ فاطمہ کو خود تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے اس نے اپنے سرمائے سے یونیورسٹی بنائی۔ آج بھی ہزاروں لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی 2016 میں کویت کے عرب بینک کی امداد سے نئی شکل میں کھولی گئی۔ اب جبکہ عراق، بغداد اور موصل کے تاریخی کتب خانے تباہ کردیئے گئے ہیں۔ شام میں حضرت یونسؑ کا مزار بھی منہدم کردیا گیا ہے۔ دمشق کے چپے چپے پر، اسلام سے پہلے اور بعد کے نقوش تھے۔ سب جانتے ہیں کہ کونسی بڑی طاقت نے جان بوجھ کر ان آثار کو ختم کیا ہے اب وہی قوت بیت المقدس کو بھی تقسیم کرنے کے درپے ہے۔
ہم سے لاہور شہر بھی سنبھالا نہیں گیا۔ اس کو بھی کبھی عالمی مالیاتی فنڈ اور آغا خان فاؤنڈیشن ’’ماڈرن‘‘ بنا رہی ہے۔ میرے جیسے بہت سوں کو یاد ہے اندرون شہر کٹری باوا تھی جہاں تقسیم کے بعد زیادہ تر فنکاروں نے بسیرا کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کٹری کو آباد رکھا جاتا اور وہاں سازندے ہوتے، گانے والوں کا جھرمٹ اور سیکھنے والوں کا ہجوم ہوتا۔ غیر ممالک سے آنے والے بھی دیکھتے، سیکھتے، لکھتے۔ واپس جا کر یہ نہ لکھتے کہ سڑکوں کے کنارے حاجت کرنے کی آزادی ہے۔
اگر عمرکوٹ کو اکبر کی پیدائش کا علاقہ قرار دیکر وہاں کچھ مخطوطے، کچھ کفتان، کچھ اکبر کے نورتن بنا کر رکھ دیئے جاتے تو لوگ اس طرح ہی اپنی تاریخ جان جاتے کہ ضیا الحق کے زمانے سے اب تک نہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے نہ جغرافیہ۔ ہمارے بچوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے اس علاقے کا کیا نام تھا۔ پڑھے لکھوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سکھوں اور مندروں کے علاوہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کے نام کیا ہیں۔ ان کی مذہبی کتابوں کے نام کیا تھے۔ دور کیوں جایئے بینظیر انکم پروگرام کا نام تو یہی ہے مگر اس میں سے بینظیر کی تصویر ہٹادی گئی ہے، البتہ ایک کام جو پاکستان میں ’’لفافہ صحافت‘‘ کے نام سے گزشتہ تیس برس سے رائج تھا۔ وہ انڈیا میں بھی قبولیت پا چکا ہے۔ اور وہ قدیم ہندو رسمیں پھر رائج کی جا رہی ہیں جن کا ذکر قدیم مخوطات میں ملتا تھا۔ ہم دونوں ملکوں میں بس رسمیں ہیں انسانیت کہیں نہیں ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ