گزشتہ روز ایک رکشہ کے پیچھے اشتہار پڑھا ۔ جلی حروف میں لکھا تھا کہ ’’ ظالمو تیار ہوجاؤ پرویز مشرف آ رہا ہے ‘‘ اورمشرف صاحب ، مصطفےٰ قریشی والے انداز میں چادر اوڑھے ، سینہ تانے تصویر میں نظر آرہے تھے ۔میں حیران رہ گیا یہ عوام کیسے ہیں ؟کیا یہ لوگ نفسیاتی ہیں ؟ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ ایسے کئی سوال میرے ذہن میں فوراََ در آئے ۔وہ شخص جس نے ملک میں جمہوریت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء نافذ کیا ۔ جس نے آئین کی بالا دستی کا مذاق اڑایا ۔ جس نے پاکستانی ائیر بیس امریکہ کے حوالے کر دیئے ۔ جس نے ہر آن امریکہ کی خوشنودی کا خیال رکھا اور پاکستانی عوام کی آراء کو جاننے تک کی کوشش نہ کی۔ ہاں میں اسی شخص کو خوش آمدید کہنے کا اشتہار پڑھ رہا تھااور دل ہی دل میں دعا بھی کر رہا تھا کہ اے کاش ایسا حقیقت میں ہو جائے اور مشرف صاحب پاکستان لوٹیں تو ان کو خوش آمدید کہنے ان کی مرحوم پارٹی نہیں بلکہ عدالت خود ائیر پورٹ پہنچے ۔ میں نے جب مسئلہ کشمیر کی تاریخ کی ورق گردانی کی تو مجھے مشرف کے نقطہ نظر پر بہت حیرت ہوئی تھی ۔لیکن میں بھی کن باتوں میں پڑ ا ہواہو ں کہ وہ جنرل جو اپنے حلف سے ہی دستبردار ہو جائے اور جو ملک کا آئین ہی توڑ دے کیا وہ جنرل ، جنرل رہتا ہے؟ اگر خدانخواستہ مشرف صاحب کے سیون ریجن فارمولے (7 Region Formula ) پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر دونوں کا حال ایک سا ہوتا اور وادی ء جموں وکشمیر آج کے افغانستان کی تصویر پیش کر رہے ہوتے ۔صد شکر کہ مشرف صاحب کے افکارِ پریشاں پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور یہ خطہ نئی جنگ سے بچ گیا ۔مگر یہ بات ضرور تسلیم کرنا ہوگی کہ یہ مارشل لاء پاکستان کی تاریخ کا انوکھا مارشل لاء تھا کیونکہ اس میں جدت اور روشن خیالی کو فروغ دینے کے لیے مقدور بھرکوششیں کی گئیں ۔ نصاب کو تبدیل کیا گیا ،صحافت کو آزادی دی گئی ،حقوق نسواں کے سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے اور اس مارشل لاء کے باعث ہی دہشت گردی پاکستان میں شدت اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ۔ پاکستان نے طالبان کے خلاف محاذ آرائی بھی مشرف صاحب کے دور میں کی اور اس حرکت کی تمام تر ذمہ داری بھی اُن ہی کی ہے جس کا خمیازہ پاکستان کو دھماکوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ضیائے حق سے پاکستانی قوم جو مشرف با اَمن ہوئی اسے واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک جنرل صاحب نے طالبان کو پروان چڑھایا جبکہ دوسرے جنرل صاحب نے ان کے خلاف ہی جنگ کا اعلان کر دیا اور جب ٹھوکر لگی توماسوائے مشرف صاحب دیگر جرنیلوں کو نہ صرف احساس ہوا بلکہ انہوں نے عمل بھی کیا ۔ جن کی عظمت کو ہم سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید۔ ان جرنیلوں میں ہم صرف جنرل راحیل شریف صاحب اور موجودہ جنرل قمر باجوہ صاحب کا نام سرِفہرست رکھتے ہیں کہ جنہوں نے ہمیں ایسے وقت میں سہارا دیا جب ہماری تمام تر امیدیں حسرتوں میں تبدیل ہو چکی تھیں ۔
کیا بات ہے کہ آج کل مشرف صاحب دبئی میں کی تقریبات میں کمردرد کے باوجود ناچتے ہیں اور کوئی وقت تھا جب وہ اقتدار میں تھے تو امریکہ کے اشاروں پر ناچتے تھے ۔ رسی جل گئی مگر بل نہ گیا ،امید ہے کہ وہ آئندہ بھی ناچتے رہیں گے اور ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے ۔
اس رکشہ کے اشتہار نے آج مقدس کتاب قرآنِ پاک کے فیصلے کو ثابت کر دیا کہ جیسی عوام ویسا حکمران ۔ان لو گوں کو ایسے ہی حکمران چاہئیں جیسا کہ ان پر مسلط ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ ابھی بھی مشرف صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ خدا ہی حافظ ہے اس قوم کا ورنہ
فیس بک کمینٹ