تاریخ گواہ ہے کہ سامراج اور اس کے پروردہ پِٹھوؤں کے لیئے مزدوروں، کسانوں اور ترقی پسند طلبہ کا اتحاد ہمیشہ ہی ایک خطرہ رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ دنیا میں جہاں جہاں یہ اتحاد نظر آیا ادھر تاریخ نے عوامی جمہوری انقلاب ہی دیکھا۔14 جولائی 1877 ء کو امریکہ میں بالٹی مور اور اوہایئو کی گارمنٹ ورکرز کی کال پر مغربی ورجینیا کی خواتین کارکنان نے ’عظیم ریل روڈ ہڑتال‘ منعقد کی کیونکہ ایک ہی سال میں تیسری مرتبہ ان کے معاوضہ جات کئی گنا گھٹا دیئے گئے تھے۔ اِس ہڑتال کے نتیجے میں امریکہ کی عظیم انقلابی ٹریڈ یونیئسٹ روزا شنائڈر نے انٹرنیشنل لیڈیز گارمنٹ ورکرز یونین کی بنیاد رکھی۔ اِس یونین کی انقلابی جدوجہد کوسوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 28 فروری 1909 ء کو نیویارک میں پہلا خواتین کا عالمی دِن منایا۔ اِس دن نیو یارک کی سڑکوں نے خواتین کے کام کرنے کے بد ترین حالات کے خلاف ایک تاریخ ساز مظاہرہ دیکھا۔
1910 ء میں کوپن ہیگن میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی سوشلسٹ انٹرنیشنل میں فیصلہ کیا گیا خواتین کی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور چونکہ عوامی جمہوری انقلاب میں عورتوں اور مردوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہو سکتا، اِس لیئے عورتوں کی جِدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔ اِس انٹرنیشنل میں 17یورپی ممالک سے شریک ہونے والی 100 خواتین ایسی تھیں جِن میں سے تین فِن لینڈ کی باقاعدہ پارلیمںٹ کی رکن تھیں۔ تاہم، اِس کانفرنس میں خواتین کا عالمی دِن منانے کی تاریخ طے نہ کی جاسکی۔
کوپن ہیگن میں لیئے گئے اقدامات کا یہ نتیجہ ہوا کہ 19 مارچ 1911 ء کو آسٹریا، ڈنمارک، سوٹزرلینڈ اور جرمنی میں خواتین کا بین الاقوامی دِن منایا گیا اور مختلف ریلیوں میں لاکھوں خواتین نے شرکت کی۔ ان کے مطالبات یہ تھے کہ ۔۔۔۔
خواتین کو ووٹ کا حق دیا جائے
خواتین کو مردوں کی طرح گھر سے باہر مزدوری کرنے کا حق دیا جائے
خواتین کو بھی فنی تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جائے
اور
خواتین کو برابری سے جینے کا حق دیا جائے۔
1913 سے 1914 کے دوران فروری کی آخری اتوار سے لیکر 8 1914 تک یورپ اور امریکہ میں خواتین کے بین الاقوامی دن کے حوالے سے روس، یورپ اور امریکہ میں مختلف ریلیاں منعقد کی گئیں اور انکا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہ تھا سامراجی تسلط پر مبنی پہلی جنگِ عظیم کو فی الفور ختم کیا جائے۔
1917 کے انقلابِ روس کے دوران ایک مرتبہ پھِر روس کی خواتین نے فروری کی آخری اتوار کو صدائے احتجاج بلند کی، جِس کا نعرہ ’روٹی اور امن‘ تھا۔ اِس مظاہرے کے نتیجے میں زارِ روس خواتین کو ووٹ کا حق دینے پر مجبور ہو گیا۔
بلآخِر لینن کی قیادت میں روس میں انقلاب برپا ہوا، جِس میں مردوزن نے برابری کی بنیاد پر حصہ لیا مگر اقوامِ متحدہ کبھی بھی خواتین کے عالمی دِن کے اعلان پر رضامند نہ تھی۔
1975، جسے خواتین کے عالمی سال کے طور پر دنیا بھر میں منایا گیا، اسی سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دِن مقرر کیا گیا۔
اِس دہایئوں پر مشتمل جِدوجہد کا تعلق صرف اور صرف خواتین کی انقلابی جدوجہد سے تھا اور اِس میں حصہ بھی صرف بائیں بازو کی جماعتوں نے لیا تھا۔ بائیں بازو کے لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ سامراج جنس کی بنیاد پر صرف اس لیئے خواتین کا استحصال کر رہا ہے کہ خواتین اپنی انقلابی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ نہ چل سکیں۔
قارئین، سامراج کے ساتھ بائیں بازو کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ گورنر ہاؤسوں میں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں مقتدر طبقات کی خواتین جو چائے کی میز پر اکٹھی ہوتی ہیں، ان کا اِس ساری جدوجہد سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ آج پاکستان کی مزدور اور کسان خواتین اور ترقی پسند طالبات کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر اپنے خلاف ہونے جبر و استحصال کے خلاف اِس تقسیم کو ختم کر دیں اور مزدوروں کے تمام دِنوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہ کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔
فیس بک کمینٹ