موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ ہم اخلاق کے کس درجے پر ہیں کہ کسی کی موت پر بھی عجیب بحث کرنے لگتے ہیں۔ اس کی سزا جزا کا فیصلہ کرنے میں لمحوں کی دیر نہیں کرتے بلکہ روزِ جزا کا انتظار کیے بغیر جہنمی بھی قرار دے دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں نامور خاتون وکیل عاصمہ جہانگیر کی موت سے لے کر نمازِ جنازہ پڑھنے تک ہر طرح کی آرا پڑھنے اور سننے کو ملیں۔ وہ کون تھیں، کیا تھیں انتقال کے بعد ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے ، جن کے لیے انہوں نے فلاح کے کام کیے وہ تعریف کررہے تھے۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو مرنے والی کو کانٹوں میں گھسیٹ رہے تھے۔ وقت گزرا معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔
پچیس فروری کی صبح اٹھے تو بالی وڈ کی اداکارہ سری دیوی کی ناگہانی موت کی خبر سن کر کچھ لمحے یقین نہیں آیا، شدید افسوس بھی ہوا۔ پیاری موہنی صورت والی، چلبلی، تیکھی آواز اور سرو قد اداکارہ، فن اداکاری کے ساتھ رقص کی بھی ماہر تھی۔ بہت سی مشہور فلمیں ہماری نگاہوں میں گھوم گئیں مثلاً ہمت والا، چالباز، نگینہ، صدمہ، مسٹر انڈیا، چاندنی، لمحے ، انگلش ونگلش، مام وغیرہ ایک ریِل سی نگاہوں کے سامنے چلنے لگی۔ سوشل میڈیا کھولا اور دوستوں کی طرف سے فیس بک پر سری دیوی سے متعلق پوسٹس دیکھ رہے تھے ۔ ہم نے بھی افسوس کے جملے لکھ دیئے لیکن کچھ کمنٹس پر نظر پڑی تو چونک گئے کسی کی رائے تھی چونکہ وہ ہندو تھیں تو انھیں RIP نہ لکھا جائے ۔ ہندو کے مرنے پر ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں، جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ پڑھ کر بہت کوفت ہوئی۔ ایک مشہور آرٹسٹ جس کی ایک آدھ فلم تو ہر ایک نے دیکھی ہوگی اس کی موت پر تعزیت کرنے والوں کو لعن طعن کر رہے تھے۔ کچھ لوگ شام میں مرنے والے خواتین و بچوں کے قتل پر بات کرنے کوکہہ رہے تھے ۔ ارے اللہ کے بندو ایک پالتو بلی یا پرندہ بھی مر جاتا ہے تو افسوس ہوتا ہے، وہ تو پھر انسان تھی۔ پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہوتا جارہا ہے ہر موت پر ایک تنازعہ کھڑا کردیتے ہیں۔
مسلمان کی موت ہو تواس کے مسلمان ہونے پر باتیں بنانے لگتے ہیں کہ وہ کیسا مسلمان تھا کیسا نہیں تھا۔ غیر مسلم کی موت ہو تو اس پر بیان بازی اپنی طرف سے جہنم کے ٹکٹ دے دیتے ہیں کہ جہنمی تھا۔ بس کر دیں، کسی کی موت کو یوں بحث کا موضوع نہ بنائیں کیونکہ مرنے والا اب دنیا میں نہیں، اب اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے ۔ تعزیت اور عیادت تو سنت ہے نجانے ہم اپنی اخلاقی اقدار کو کیوں بھولتے جارہے ہیں۔ اپنی مرضی کی باتیں کرنے اور لکھنے لگے ہیں۔ ہر ذی روح جو اس دنیا میں آیا ہے اسے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ اس طرح کی باتیں کرتے وقت اپنی موت کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم نہ جانے کس حال میں مریں۔اسی لیے کہتے ہیں دعا کرتے رہو خاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔ کیا الزام تراشی اور بہتان لگانے سے ہم معاف کردیئے جائیں گے۔ ہم اوروں کے اعمال کی بات کرتے ہیں، اپنے گریبان میں جھانک لیں تو بہتر ہوگا۔ سب سے پہلے اپنے اعمال درست کریں۔ ہم اگر کسی پر انگلی اٹھائیں گے تو باقی تین انگلیاں خود ہماری طرف اشارہ کررہی ہوں گی۔ اس لیے سنبھل کر بولیں، سنبھل کر لکھیں۔ ایسا نہ ہو ہمارے لکھے الفاظ ہمارے لیے سزا بن جائیں۔ آخر میں ایک شعر عرض ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ