خاتون اول بشریٰ بی بی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کیا دیا ؟ہر طرف تبصروں ،تجزیوں اور رائے زنی کی بھرمار ہوگئی سوشل میڈیا پر تو اس انٹرویو کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور جس کے دل میں جو آیا بغیر کچھ سوچے سمجھے پوسٹ کر دیا یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہم اپنی سوچ کا اظہار کرتے وقت دوسرے کے جذبات و خیالات کو کیوں روند دیتے ہیں ہمارے ایک بہت ہی سینئر صحافی سہیل وڑائچ صاحب نے تو اس انٹرویو پر ”میری روحانی بہنا ”کے نام سے پورا کالم لکھ مارا ۔حد تو یہ ہے کہ ہر کوئی اس کالم کو پڑھے بغیر صرف عنوان دیکھ کر واہ واہ کررہا ہے حالانکہ پنجاب کا وڑائچ ہونے کے باوجود کالم نگار نے جس طرح ایک خاتون جس کو وہ اپنی بڑی بہن اور وہ بھی روحانی بہنا کا درجہ دے رہے ہیں کو جس انداز میں انہوں نے اپنی مسلح قلم کی نوک پر لیا ہے ۔میرے خیال میں کسی طور پر مناسب نہیں اور یہ روحانیت کا بھی مذاق اڑانے کے مترادف ہے اگرچہ مجھے خاتون اول کا پورا انٹرویو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تاہم انٹرویو کے کچھ اقتباسات پڑھنے اور حصے دیکھنے کا اتفاق ضرور ہوا جس میں خاتون نے کہیں بھی اپنے روحانی پیشوا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا نہ انہوں نے اپنی کرامات کا ذکر کیا ہے البتہ ایک مشرقی خاتون ہونے کے ناطے اپنے مجازی خدا کی خوبیوں سے ضرور عوام کو آگاہ کیا ہے اور خاتون اول کی جن باتوں کو جواز بنا کر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے وہ کسی طرح بھی روحانیت کے زمرے میں نہیں آتے جہاں تک پودوں کے بارش مانگنے اور جانوروں کے رونے دھونے کا تعلق ہے تو یہ صرف کوئی روحانی پیشوا ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص محسوس کر سکتا ہے جس کے اندر تھوڑی سی ”حس” ہو۔ میرا تعلق دیہات سے ہے تھوڑا بہت کاشتکاری سے وابستہ ہوں ہم جانور بھی پالتے ہیں نہ صرف مجھے بلکہ ہر اس شخص کو جو ان شعبوں سے وابستہ ہے احساس ہو جاتا ہے کہ کون کیا مانگ رہا ہے ؟ آپ فصلوں کو جتنا مرضی سیراب کر لیں مگر ایک وقت آتا ہے کہ جب وہ بارش مانگ رہی ہوتی ہیں اور ان فصلوں کا مالک جب انہیں مرجھائے اور کملائے ہوئے دیکھتا ہے تو کھیت میں کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے ضرور دعا کرتا ہے کہ باری تعالیٰ ابر رحمت برسا دے جیسے ہی بارش ہوتی ہے ہر طرف کھیت کھلیان پھول پودے اور درخت نکھر جاتے ہیں کھیت میں کھڑا ہو کر دعا کرنے والا کوئی ولی کامل نہیں بلکہ اللہ کا گنا ہ گار بندہ ہوتا ہے مگر اپنی فصل کے پودوں کی حالت دیکھ کر اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کو کس چیز کی ضرورت ہے اس طرح جانوروں پرندوں کو بھی جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنے کسی نہ کسی رویے سے اس کا اظہار ضرور کرتے ہیں اور جس نے ان کو پالا ہوتا ہے یا ان سے منسوب ہوتا ہے تو وہ فوری سمجھ کر ان کو پانی چارہ یا دانہ ڈال دیتا ہے تو وہ آرام سے بیٹھ جاتے ہیں درختوں ،پودوں ، چرند پرند کی خواہشات کو محسوس کرنا تو ایک فطری عمل ہے اس میں روحانیت کہاں سے آگئی؟اور نہ خاتون اول نے اپنے انٹرویو میں اس کا ذکر کیا ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ سو کھے پودے دیکھ کر عمران خان اداس ہوگئے اور مجھے کہا کہ آئیں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ بارش ہو جائے بارش کیلئے دعا کرنا اور کروانا سنت نبوی ہے اور ہم مسلمان اس کیلئے باقاعدہ نماز استسقا تک ادا کرتے ہیں جہاں تک
”موٹو” کے رونے والی بات ہے تو یہ بھی کوئی اچھنبے والی بات نہیں ہے جو لوگ جانور رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جانور کس طرح اپنے پالنے والے سے امید رکھتے ہیں خاتون اول کے لباس تک کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے پردہ نہ صرف اسلامی عمل بلکہ ہر خاتون کا اپنا ذاتی فعل ہے کیا کوئی خاتون اور وہ بھی جو روحانی بہن بھی ہو اپنے بھائی سے رنگ پوچھ کر لباس پہنتی ہے یا پردہ کرتی ہے ہم کہاں جارہے ہیں اور ہماری کیا سوچ رہ گئی ہے ماڈرن جمائما ہو تو یہودی آزاد خیال ریحام ہو تو آوارہ باپردہ پنکی ہو تو پیرنی شوہر کی خوبیاں بیان کرے تو ولی اللہ خامیاں گنوائے تو جنس پرست ۔کیا دوسروں میں عیب نکالنا ہی ہماری صحافت رہ گئی ہے کسی کی ماں ، بہن، بیٹی یا بیوی کو موضوع بحث لانا کسی طور پر مناسب نہیں ہم کسی کے مثبت پہلو کو اجاگر کرکے معاشرے کو تصویر کا وہ رخ کیوں نہیں دکھاتے جس سے مثبت تبدیلی آئے آخر میں کالم نگار نے یہ تک پیش گوئی کر دی کہ اس کی بہن کا یہ عروج سدا نہیں رہے گا اور روحانی بہنا کو زوال تک کی نوید سنا دی اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی بہنا نہ بھائی ہوا جو آنے والے کل سے بھی واقف ہے میرے خیال میں روحانی ”بھائی” روحانی ”بہنا” سے اس بات سےخفا ہیں کہ وہ خود ”ایک دن” اپنی روحانی بہنا کے آستانہ پر گزارنا چاہتے تھے مگر ”قرعہ” کسی اور کے نام نکلا۔
فیس بک کمینٹ