ممنوعہ فنڈنگ پر گھیرے میں آئی ہوئی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اب فاؤل کھیلنے پر اتری ہوئی ہے ۔ ملک کو مسلسل بحران کا شکار رکھ کر عالمی اداروں کو پاکستان کی معاشی بحالی میں تعاون سے روکنے کی درپردہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور سے آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے پہلے 13 اگست کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان اور حکومت کو الٹی میٹم دینے کے دعوے پارٹی کی واضح حکمت عملی کا اشارہ ہیں۔
دوسری طرف عمران خان نے ایک بار پھر امریکی سازش کے تحت اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ان کے سرپرستوں کے اقتدار کی شکل میں پاکستان آج فسطائیت کےنرغے میں ہے۔ کیا ہمارے لوگ بھی خوف میں مبتلا ہو کر اس سازش کے سامنے سرجھکائیں گے یا بحثیت قوم اس کڑےامتحان کا سامنا کریں گے؟‘ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ امریکی سازش کے تحت ان کی حکومت کو ہٹایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کو ان کے ’متکبرانہ انداز اور رویے‘ پر برطرف کیا جائے۔ گویا امریکی وزارت خارجہ بھی تحریک انصاف کی ذیلی شاخ ہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر الزام عائد کیا کہ ڈونلڈ لو نے امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے پر پاکستان کو نتایج بھگتنا ہوں گے ۔ کامیابی کی صورت میں معاف کردیا جائے گا۔
عمران خان کی یہ بیان بازی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سازشی نظریہ کی بنیاد پر چلائی جانے والی مہم جوئی اب اپنی موت آپ مر چکی ہے کیوں کہ پاکستان کا بچہ بچہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ سیاسی مخالفین کے لئے اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کا مطالبہ کرنے والی پارٹی اور لیڈر اب اپنے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلہ میں پیش کئے گئے شواہد اور ثبوتوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تحریک انصاف قوم سے معافی مانگے اور ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے۔ تحریک انصاف نے غیر ملکی ذرائع سے کثیر رقوم وصول کرکے ایک طرف قانون شکنی کی اور مسلسل آٹھ سال تک اس جھوٹ پر اصرار کیا کہ اس معاملہ میں کوئی غلطی نہیں کی گئی۔ اب شواہد سامنے آچکے ہیں اور الیکشن کمیشن واضح کرچکا ہے کہ پارٹی چئیر مین عمران خان پارٹی فنڈز کے بارے میں جھوٹے بیان حلفی جمع کرواتے رہے تھے۔
عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات یا نیب کی طرف سے عائد کئے جانے والے الزامات کی بنیاد پر مخالفین کو لٹیرا اور ڈاکو قرار دینے والے اپنے خلاف اس حساس معاملہ میں بظاہر کسی شرمندگی کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس کی بجائے اداروں اور حکومت پر الزام تراشی کے ذریعے خود اپنے لئے کوئی سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان اسی مقصد سے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور الیکشن کمیشن ہی نہیں، فوج اور حکومت کو براہ راست نشانے پر لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ ان ہتھکنڈوں سے نہ حقائق تبدیل ہوسکتے ہیں اور نہ اس حوالے سے اٹھنے والے سوال کم ہوں گے۔ فواد چوہدری نے آج اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ رانا ثناللہ کے بارے میں نامناسب طرز گفتگو اختیار کیا اور کہا کہ ’تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے حکومت پاگل ہوچکی ہے‘۔ حالانکہ یہ معاملہ جتنا سنگین اور سنسنی خیز ہے، اس پر تحریک انصاف کو گھبراہٹ ہونی چاہئے اور اپنے کردار سے یہ ثبوت فراہم کرنا چاہئے تھا کہ پارٹی نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور مستقبل میں وہ ایسی کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرے گی۔
تحریک انصاف کو خوب اندازہ ہے کہ اس کا مقدمہ کمزور ہے۔ اس کمزوری کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کی گئی یا اس رقم کا حجم کیا ہے۔ بلکہ سب سے مشکوک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف عالمی مالیاتی اسکینڈل میں ملوث عارف نقوی جیسے مشتبہ لوگوں سے وسائل وصول کرتی رہی ہے جو بیرونی ممالک سے ملنے والے فنڈز تحریک انصاف کو فراہم کرتے تھے۔ عمران خان نے خود عارف نقوی سے پچیس سالی دوستی کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے عارف نقوی تحریک انصاف کو فنڈز فراہم کرنے کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کرتے تھے، وہ عمران خان کے علم میں تھے لیکن انہوں نے خاموشی سادھے رکھی ۔ حتی کی اکبر ایس بابر کے انکشافات کے باوجود کسی غلطی کا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان فنڈز کو چینالائز کرنے کے لئے اختیا رکئے گئے طریقوں سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ عمران خان اور پارٹی کو معلوم تھا کہ فنڈ جمع کرنے کے لئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے تھے جنہیں کسی بھی قیمت پر پوشیدہ رکھنے کی ضرورت تھی۔
اس حوالے سے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی ایک بڑی پارٹی اپنی اعلیٰ ترین قیادت کی اجازت اور سرپرستی میں غیر قانونی حرکتیں کررہی تھی۔ عالمی طور سے مالی جرائم میں ملوث شخص سے تعلق تحریک انصاف کے علاوہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور نظام حکومت کے بارے میں دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں شبہات پیدا کرے گا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی تو صرف اپنی ناک کے نیچے دیکھ رہے ہیں اور کسی بھی طرح اس مقدمہ کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے متبادل پروپیگنڈا کے طریقے اختیار رکرہے ہیں ۔ انہیں ہرگز یہ احساس نہیں ہے کہ ایک بڑی پاکستانی سیاسی پارٹی اور اس کے چئیر مین کی اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کی وجہ سے عالمی طور سے ملک میں نظام قانون کے بارے میں کیا سوال اٹھائے جارہے ہیں اور پاکستان کو منفی طور سے دیکھا جارہا ہے ۔ عالمی مالیاتی اسکنڈل میں ملوث کسی شخص کے ساتھ ایک قومی لیڈر کے تعلقات اور برملا ان کے اعتراف سے ان شبہات کے سائے گہرے ہوئے ہیں۔ عمران خان ٹی وی انٹرویوز میں عارف نقوی کے وکیل صفائی بن کر ان کے بارے میں مثبت باتیں کرتے رہے ہیں جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے حکام کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی کمپنی ابراج گروپ کے ذریعے اربوں ڈالر کا فراڈ کیا تھا۔ پاکستان میں کرپشن کے خلاف علامت بننے والے عمران خان عالمی کرپشن اور مالی دھوکہ دہی کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں کیوں کہ اس میں ملوث شخص ان کا ذاتی دوست اور فنانسر رہا ہے۔تحریک انصاف کے لیڈروں کا یہ اندازہ درست ہوگا کہ موجودہ حکومت ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد کسی بھی قیمت پر تحریک انصاف یا عمران خان کے گرد قانون کا گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن عمران خان بدعنوانی اور قانون شکنی کے خلاف جس نام نہاد بیانیہ کے دعوے دار ہیں، کیا اس کی روشنی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے؟ عمران خان خود ہی تو حدیث نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اگر میں بھی چوری کرتا ہؤا پکڑا جاؤں تو مجھے بھی سزادی جائے۔ موجودہ حکومت نے تو رعایت کی کہ توشہ خانہ سے سستے داموں مہنگے تحائف خرید کر عالمی منڈیوں میں فروخت کرکے عمران خان نے جو چوری کی تھی اس کا براہ راست حساب لینے کا اقدام نہیں کیا اور نہ ہی یہ یہ معلومات ابھی تک سامنے لائی گئی ہیں کہ عمران خان کی ان چھچھوری حرکتوں کی وجہ سے کن کن ممالک کے سربراہان کی دل شکنی ہوئی اور اس کا اثر پاکستان کے ساتھ ان ممالک کے تعلقات پر مرتب ہؤا تھا۔
ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے بین الملکی تعلقات کو داؤ پر لگانے کے باوجود عمران خان یا ان کے ساتھیوں کو کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیڈروں نے ایک بار پھر اپنی چوری سے توجہ مبذول کروانے کے لئے امریکہ کو ٹارگٹ کرنے کی نئی مہم شروع کی ہے۔ یہاں امریکہ کے عالمی استحصالی کردار سے بحث نہیں ہے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسرے ممالک سے معاملات کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ بھی سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی غیر آئینی رولنگ پر فیصلہ میں اس کا برملا اظہار کر چکی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ دوسرے ممالک سے تعلقات کے حوالے سے کوئی رائے دینے کی مجاز نہیں ہے کیوں کہ یہ ملکی حکومت کا استحقاق ہے۔ مسلمہ طریقہ کار کے مطابق حکومت اگر دوسرے ممالک سے تعلقات میں قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ میں اس معاملہ کو اٹھا کر حکومت کو درست راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن عمران خان کا ملکی پارلیمانی نظام پر اعتبار کا یہ حال ہے کہ عدم اعتماد منظور ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کے تمام ارکان قومی اسمبلی کو استعفے دینے پر مجبور کیا لیکن اب وہ ضمنی انتخاب میں ہر نشست پر خود امید وار ہونا چاہتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی معتمد شیریں مزاری نے آج قبائیلی علاقوں کا دورہ کرنے پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلو کو کسی وائسرائے کی طرح گھمنڈی قرار دیا۔ اس دوران خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت امریکہ سے 36 گاڑیوں کا تحفہ وصول کرچکی تھی۔ شیریں مزاری اسی سانس میں اسے ’معمول ‘ کاطریقہ قرار دیتی ہیں۔ لیکن فوجی حکام کی معاونت سے قبائیلی علاقوں کا دورہ کرنے پر امریکی سفیر کو ملکی سالمیت اور خودداری کے لئے خطرہ بتا رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ’ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اس لئے ہمیں خبر ہونی چاہئے کہ یہ کس معاہدے کے تحت ہؤا ہے‘۔ شیریں مزاری کی یہ بات باالکل درست ہے لیکن اس کا جواب تو ان کی پارٹی کو دینا چاہئے جو اپریل تک ملک پر حکومت کرتی رہی ہے کہ اس نے پاکستان کے مفادات گروی رکھنے والے کون سے ’معاہدے‘ امریکہ کے ساتھ کئے تھے، جن کی وجہ سے پاک فوج امریکی سفیر کے دورہ کی سہولت کار بنی ہے۔
بلوچستان ہیلی کاپٹر کے شہدا کے بارے میں پروپیگنڈا مہم کے بعد اب پارٹی مفاد کے لئے ملکی خارجہ تعلقات کو داؤ پر لگانے کے علاوہ پاک فوج کے بارے میں شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرکے تحریک انصاف کے لیڈر اپنے لئے کوئی سہولت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا یہی اہم سبق ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اب بھی اگر اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی تو مستقبل میں انہیں آسانیوں کی بجائے مشکلات کا سامنا ہی ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ