لاکھوں پاکستانی گزشتہ کئی دنوں سے ہماری تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے بدحال، پریشان اور ناامید ہوچکے ہیں۔ آفت کی اس گھڑی میں وہ خود کو حکمرانوں کی جانب سے بھلائے ہوئے محسوس کررہے ہیں۔ حکمرانوں کو مگر غصے کے زد میں لانا ان کے بس میں نہیں۔ تمام تر شکوے لہٰذا میڈیا پر ہی مرکوز ہیں۔ نہایت دیانتداری سے میں سیلاب زدگان کے دلوں میں صحافیوں کے خلاف ابھرتے جذبات کو جائز و واجب محسوس کرتا ہوں۔
قصور سے جلال پور پیر والا تک پھیلی تباہی میں گھرے انسانوں کی بدحالی کو تفصیلات سمیت اجاگر کرنے کے بجائے ہمارے صحافی دوست عمران خان صاحب کی ہمشیرہ پر اچھالے انڈے اور بعدازاں چند سوالات کی وجہ سے طیب بلوچ جیسے صحافیوں پر عاشقانِ پی ٹی آئی کی جانب سے ہوئے تشدد پر ایک فروعی بحث میں الجھ گئے ہیں۔ عرصہ ہوا تواتر سے لکھے جارہا ہوں کہ اندھی نفرت وعقیدت نے صحافی کو صحافی رہنے نہیں دیا۔ سیاسی جماعتوں کے معتقدین انہیں حکومت کا ’’ٹائوٹ‘‘ ٹھہراتے ہیں۔ جنہیں ’’ٹائوٹ‘‘ ٹھہرادیا گیا ہے ان کے ساتھ تحریک انصاف کا رویہ 2011ء سے مسلسل جارحانہ ہی رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست پر نہایت دیانتداری سے سوالات اٹھانے اور تحفظات کا اظہار کرنے والوں کو بدی کی علامتیں بنادیا گیا۔ بدی کی علامت بن جانے کے بعد صحافی فقط ’’کٹ‘‘ کھانے کے قابل ہی رہ جاتا ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ آج کے کالم کا مقصد سیلاب کے چند اہم پہلوئوں پر توجہ دینا تھاجو ہم فروعی معاملات میں الجھ کر نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ بارہا عرض کرچکا ہوں کہ جس عذاب سے ہم ان دنوں گزررہے ہیں اس کا حقیقی سبب مون سون کی غیر معمولی بارشیں ہیں۔ بھارتی صوبہ ہماچل پردیش اور جموں میں ان بارشوں نے نئے ریکارڈ بنائے۔ ہماچل پردیش کی ریکارڈ توڑ بارشوں نے راوی اور ستلج کو سیلاب خیز بنادیا۔ یہ دونوں دریا ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے حوالے کرچکے ہیں۔ یہ حقیقت مگر بھول گئے کہ بھارت نے ان دریائوں کے پانی کو پاکستان جانے سے روکنے اور ان کا رخ راجستھان کی طرف موڑنے کے لئے جو آبی نظام تشکیل دیا ہے اس کے ڈیزائن اور ذخیرہ کرنے کی سکت میں کئی خامیاں ہیں۔
بھارت کا مشہور ا خبار ٹربیون جو قیام پاکستان سے قبل لاہور کا موقرانگریزی روزنامہ تھا، 1947ء میں چندی گڑھ منتقل ہوگیا۔ بھارتی پنجاب کے دارالحکومت سے شائع ہونے کی وجہ سے وہ مودی کا گودی میڈیا بننے سے کافی حد تک محفوظ رہا۔ میں اس اخبار کو روزانہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 17اگست کے بعد اس میں ایک دن خبر چھپی جس میں دعویٰ تھا کہ بھارت نے راوی اور چناب کے پانیوں کو ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی De-silting(پانی کے ساتھ آئی مٹی کو ذخیرہ سے باہر نکالنا) کئی برسوں سے ترک کررکھی ہے۔ اسی باعث ہماچل پردیش کی ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ سے ستلج بپھرا تو بھاکڑا جیسے ڈیم اس کے پانی کو ذخیرہ نہ کر پائے۔ ڈیم ستلج کے پانی کو روکنے میں ناکام رہا تو اپنے فطری راستے پر چلتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوگیا۔ تین دہائیوں کے طویل وقفے کے بعد ستلج پاکستان کے ان علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے جو اس کی مہا بھارت کے دنوں سے گزرگاہیں رہی ہیں۔
ستلج کو بھارت کے حوالے کرنے کے بعد ہم اس گماں میں مبتلا رہے کہ اس کا پانی ہمارے ہاں موجود تاریخی گزرگاہوں کا رخ نہیں کرے گا۔ ہزاروں سال سے اس کی گزرگاہوں میں لہٰذا ہم نے ہزاروں نئی بستیاں بسالیں۔ ستلج کا پانی سیلاب کی وجہ سے اپنی تاریخ میں لوٹاتو ان بستیوں کو روندتا چلا گیا۔ جھنگ کے نواحی علاقوں میں تریموں ڈیم سے قبل احمد پور سیال جیسے علاقوں میں جو تباہی آئی اس سے بھی ز یادہ شدید عذاب ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا پر نازل ہوئی۔ اس کے مرکزی شہر میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ آبادی درحقیقت ستلج کی گزرگاہوں پر آبادبستیوں میں رہ رہی تھی۔ پانی اب وہاں 8فٹ تک کھڑا ہوا ہے۔ اس تحصیل کی دوسری جانب دریائے چناب ہے جو خود بھی مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے بپھرا ہوا ہے۔ جلالپور پیر والا لہٰذا دو دریائوں کی غضب ناکی بھگت رہا ہے۔
میں پانی کے امور کا ماہر نہیں۔ ستلج کی وجہ سے پاکستان کے بے پناہ رقبوں پر پھیلے عذاب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگرچہ یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ راوی اور ستلج کو بھارت کے حوالے کرتے ہوئے ہم نے سندھ طاس معاہدے میں ایسی شقیں رکھنے پر بھی اصرار کیا یا نہیں جو اس امر کو یقینی بناتیں کہ ان دونوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم اور ڈھانچے پاکستان کو غیر معمولی سیلاب سے محفوظ رکھ پائیں گے یا نہیں۔ بھارت کے ساتھ 1965ء اور 1971ء میں ہوئی جنگوں کے باوجود جنوبی ایشیاء کے دو ازلی دشمنوں نے سندھ طاس معاہدے کو برقرار رکھا۔ رواں برس کے اپریل میں پہلگام میں ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد مودی حکومت نے مگر مذکورہ معاہدے کو یک طرفہ طورپر معطل کرنے کے بعد 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان پر میزائل بھی برسادئے۔ پاکستان جوابی وار کو مجبور ہوا۔ ہمارا ردعمل پاک- بھارت کو یقینا اس جانب لے جاسکتا تھا جس سے دنیا خوف کھاتی ہے۔ اسی باعث امریکی صدر دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی کروانے کو متحرک ہوئے۔ بھارت اگرچہ ان کے اس ضمن میں کسی کردار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے باوجود بھارت اپنے پنجاب کو بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رکھ پایا ہے۔ منگل کے روز چھپے کالم میں آپ کو تفصیل سے بتاچکا ہوں کہ بھارت میں انتہا پسندی کو راغب چند اہم سکھ تنظیمیں ’’دلی‘‘کو بھارتی پنجاب پر نازل ہوئے سیلاب کا ذمہ دار ٹھہرارہی ہیں۔ اس کی وجہ سے چند سینئر بھارتی صحافی یہ سوچنے کو مجبور ہورہے ہیں کہ بھارتی پنجاب میں آئے سیلاب کی وجہ سے وہاں 1980ء کی دہائی میں نمودار ہوئی سکھ انتہاپسندی کا احیاء ہوسکتا ہے جو بالآخر علیحدگی پسند رحجانات کی بھی حوصلہ افزائی کرے گی۔ بھارتی سوشل میڈیا کا بغور مطالعہ یہ پیغام دیتابھی محسوس ہورہا ہے کہ مشرقی پنجاب کے لوگوں کی کماحقہ تعداد اس سازشی کہانی کو قابل اعتبار سمجھنا شروع ہوگئی ہے کہ بھارت نے ’’جان بوجھ‘‘ کربپھرے ہوئے ستلج کے پانی کو راجستھان جانے نہیں دیا اور اس کا رخ بھارت اور پاکستان کے پنجاب کی جانب موڑ دیا۔ مذکورہ سازشی کہانی اگر ٹھوس شواہد ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئی تو بھارت میں سکھ انتہاپسندی مزید فروغ پائے گی۔ بھارت اس کاالزام اپنی عادت کے عین مطابق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پرلگاتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی پنجاب میں آئے غیر معمولی سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کوبھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے پنجاب میں بھی سیلاب نے جو گھر اور فصلیں اجاڑی ہیں ان کے اثرات سے ہمارے حکمران بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔
( بشکریہ : روزنامہ : نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

