دوحہ میں افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات کے باوجود ماہرین کو اندیشہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل المدت امن قائم رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ گزشتہ روز جنگ بندی میں توسیع کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں ناکام بنائی گئیں جس کے بعد پاکستانی فوج نے افغان صوبے پکتیکا میں گل بہادر گروپ کے ایک سو کے لگ بھگ دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے اس دوران دوحہ میں افغان وفد سے امن بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان بھی شریک ہیں ۔ پاکستان نے افغانستان پر واضح کیا ہے کہ افغان حکومت کو اپنی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو روکنا ہوگا اور تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اب یہ اعلان کافی نہیں سمجھا جائے گا کہ یہ مسئلہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغانستان کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستانی وفد تقاضہ کررہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے گروہوں کے خلاف ایسی کارروائی کرنا ہوگی جس کی دونوں طرف سے تصدیق ہوسکے۔ یعنی افغان حکام شواہد کی بنیاد پر پاکستان کو یقین دلاسکیں کہ واقعی دہشت گرد عناصر کی روک تھام کی گئی ہے۔
افغان وفد نے ابھی اس مطالبے کا کوئی جواب تو نہیں دیا لیکن فوری جنگ رکوانے کے لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ مان لیا جائے۔ البتہ ماہرین کاخیال ہے کہ پاکستان اب محض وعدوں پر اعتبار نہیں کرے گا اور اس کا مطالبہ ہوگا کہ افغان حکام اپنی سرگرمی کے بارے میں تفصیلات بتائیں ۔ اس کےعلاوہ پاکستان میں تسلسل سے ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں کمی دیکھنے میں آئے۔ بظاہر افغانستان ایسی کارروائی کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی وہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ ہوگا۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ افغان وفد جنگ بندی کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایسا کوئی وعدہ کرلے جس پر حقیقی معنوں میں عمل نہ کیا جائے۔ لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہی خطرہ ہے کہ وعدوں پر عمل نہیں ہو گا اور صورت حال جوں کی توں رہے گی۔
پاکستان نے البتہ اپنے طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ اگر افغان حکام اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں جنہیں پاکستان فتنۃالخوارج اور فتنۃ الہندوستان کا نام دیتا ہے، کی روک تھام میں دلچسپی نہیں دکھاتے تو پاکستان اپنے طور پر ایسے گروہوں کا پیچھا کرے گا۔ آج گل بہادر گروپ کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اب افغانستان کو طے کرنا ہوگا کہ ایسی کسی کارروائی کو امن دشمن قوتوں کے خلاف کارروائی مان کر ان پر خاموشی اختیار کرے یا اسے اپنی ’خود مختاری‘ پرحملہ قرار دیتے ہوئے عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کرے اور گزشتہ ہفتے کی طرح پاکستان کی سرحدوں پر بمباری کا آغاز کردیا جائے۔ ایسے کسی بھی حملہ کا مناسب جواب دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ افغانستان نے اگر سرحد پر جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیاتو یہ امکان موجود ہے کہ پاکستان مجبورا ً افغان علاقے میں داخل ہوکر سکیورٹی زون قائم کرنے پر مجبور ہوجائے۔
افغانستان تو پہلے ہی پاک افغان سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور اسے ڈیونڈر لائن کا نام دیتے ہوئے پاکستان کے وسیع علاقوں پر دعویٰ کرتا رہتا ہے۔ اس سفارتی پوزیشن کے ساتھ اگر بین الاقوامی سرحد کو محاذ جنگ میں تبدیل کیا جاتاہے تو پاکستان کے لیے افغان فورسز کو مار بھگانے کے علاوہ اس کے علاقے میں حفاظتی زون بنانا آسان ہوگا۔ افغانستان اس صورت میں یہ شکایت بھی نہیں کرسکے گا کہ پاکستان نے مسلمہ بین الاقوامی سرحد وں کی خلاف ورزی کی ہے کیوں کہ اس سرحد کو تو افغان حکومت خود ہی تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ یہ صورت حال کابل کی کمزور اور داخلی انتشار کا شکار حکومت کے لئے شدید ہزیمت اور شرمندگی کا سبب بنے گی۔
ان حالات میں دوحہ مذاکرات افغانستان کو فیس سیونگ کا مناسب موقع فراہم کررہے ہیں۔ اگر افغان حکام کے پاس ٹی ٹی پی اور بھارتی ایجنسیوں کے وسائل پر سرگرم دیگر پاکستان دشمن گروہوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے تو اسے یہ مان لینا چاہئے کہ پاکستان خود ایسے عناصر کا قلع قمع کرلے ، افغان حکام انہیں پناہ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بصورت دیگر ایک طرف پاکستان کے ساتھ وابستہ مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ تیز ہوگا اور پاکستان کو افغانستان میں حملے کرنے سے بھی نہیں روکا جاسکے گا۔ افغانستان کے پاس اس وقت پاکستان کے ساتھ کوئی قابل عمل معاہدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر کابل نے ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ محاذ بھی مشرق میں بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی طرح ’گرم‘ رہے گا ۔
پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے آج پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’ہم افغانستان کے لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ دائمی تشدد کی بجائے باہمی سلامتی کا انتخاب کریں‘۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کا استعمال پریشان کن ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، مسلح افواج اور پاکستان کے بہادر عوام بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کے تعاون سے یقیناً اس لعنت کو شکست دیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ’ یقین رکھیں کہ روایتی میدان میں جیت کی طرح ہمارے پڑوسی کی ہر ریاستی پراکسی کو خاک میں ملا دیا جائے گا‘۔ فیلڈ مارشل کا اشارہ حکومت پاکستان کے اس مؤقف کی طرف تھا جس کے تحت اب افغانستان کو بھارت کی پراکسی قرار دیا جارہا ہے اور اس سے پوری طاقت سے نمٹنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسی تقریر میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاک بھارت تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ دو دہائیوں تک سب کنوینشنل میدانِ جنگ میں آزمودہ یہ پیشہ ور افواج روایتی میدان میں بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ اگر دوبارہ جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستان دشمن کی توقعات سے کہیں زیادہ سخت جواب دے گا۔انہوں نے کہا کہ جنگ میں ہمارے ہتھیار انڈیا کی جغرافیائی وسعت کا من گھڑت حفاظتی تصور ختم کر دیں گے۔ کسی جنگی کارروائی کی صورت میں فوجی و اقتصادی نقصانات انڈیا کی توقعات سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں انڈین فوجی قیادت کو سختی سے خبردار کرتا ہوں کہ جوہری ماحول میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے ساتھ بنیادی مسائل کو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر حل کریں۔ ہم انڈیا کی بیان بازی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے اور کسی بھی قسم کی چھوٹی سی اشتعال انگیزی کا بھی فیصلہ کن جواب دیں گے۔ ایسی کوئی کشیدگی بالآخر پورے خطے اور اس سے باہر کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت کو خبردار رہنا چاہئے کہ ایسے کسی سانحہ کی ذمہ داری پوری طرح سے انڈیا پر عائد ہو گی‘۔
فیلڈ مارشل کی تقریر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس وقت مشرق میں بھارت کے ساتھ جنگ کا اندیشہ ہے تو شمال مغرب میں افغانستان ایک نیا محاذ کھول رہا ہے۔ پاکستان کو اب اس میں شبہ نہیں ہے کہ افغان لیڈر بھارت کی حوصلہ افزائی پر اپنی عسکری قوت اور گنجائش سے بڑھ کر پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے دونوں محاذوں کا حوالہ دیا اور بتایا کہ پاکستانی افواج کسی طرف غافل نہیں ہیں اور کسی بھی جنگ جوئی کا بھرپور قوت سے جواب دیا جائے گا۔ اس تقریر میں افغانستان کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان اب وہاں سے متحرک دہشت گردگروہوں کو برداشت نہیں کرے گا اور ان کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو بتایا گیا ہے کہ جنگ کی صورت میں عسکری تصادم ایک محاذ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے ہندوستان میں کوئی عسکری و معاشی ہدف پاکستانی نشانے سے دور نہیں ہو گا۔ یہ مکمل اور تباہ کن جنگی کارروائی کے بارے میں واشگاف انتباہ ہے جس پر نئی دہلی کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو دواطراف سے خطرناک اور ناقابل اعتبار دشمنوں کا سامنا ہے، ملک کے اندر سیاسی و مذہبی بنیادوں پر انتشار پیدا کرنے والے گروہ مسلسل عوام میں بے چینی اور پریشان خیالی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی سرکاری پوزیشن کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کی بجائے سیاسی مطالبات کی آڑ میں یا ثالثی کے نام پر تنقید کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ جنگ کے ماحول میں خیبر پختون خوا میں عسکری کارروائیوں کو شہریوں کی ہلاکتوں کا سبب بتا کر سیاسی نعرے بازی سننے میں آرہی ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے ختم کرنے کی بات کرنے کی بجائے عمران خان اور مولانا فضل الرحمان ثالثی کی بات کرکے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے محاذ آرائی پاکستانی ریاست نے شروع کی ہے۔
اسی طرح غزہ امن معاہدہ کے بعد غزہ میں امن کے لیے ٹی ایل پی نے پر تشدد اور غیر قانونی احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور پولیس پر حملے کیے گئے۔ پنجاب حکومت اس گروہ کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کررہی ہے تو عقیدہ کے نام پر سیاست و لیڈری چمکانے والے عناصر اور لوگ اب حکومت سے نرمی کا مظاہرہ کرنے اور تشدد کی تبلیغ کرنے والی مساجد و مراکز کو بند نہ کرنے کے مطالبے کررہے ہیں۔ ایسے رویے قومی سلامتی اور وسیع تر ملکی مفاد کے خلاف ہیں۔
ملک کے سیاسی و مذہبی لیڈروں کو سوچنا چاہئے کہ ان کی ساری لیڈری اور سیاست اس ملک ہی کی وجہ سے ممکن ہے۔ اگر کوتاہ اندیشی میں اپنے ہی وطن کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جائیں گی تو یہ اسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہوگا جس پر آشیانہ بنا ہو۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ