جمیعت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغان لیڈر افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں، اس لیے سرحد پر جنگ بندی کے بعد بیان بازی اور سوشل میڈیا پر شعلہ بیانی کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔ البتہ اس موقع پر مولانا کا لب و لہجہ غیر جانبدار فرد کی بجائے افغانستان کے وکیل کاسنائی دیا۔
مولانا فضل الرحمان کی اس بات سے تو اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو کسی بھی ملک کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمان اپنے تجربہ اور عالمانہ قد کاٹھ کے باوجود عسکری معاملات اور سکیورٹی کے شعبہ میں اتھارٹی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس گفتگو میں انہوں نے یہ حوالہ دینا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ افغانستان کے ساتھ ہونے والی حالیہ جھڑپوں کا آغاز پاکستان نے نہیں کیا تھا بلکہ افغان فورسز نے پہلے حملہ کیا ، پاکستانی فوج نے اس کا جواب دیا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا بیان ہے کہ اس حملہ میں طالبان کی فوج کے علاوہ فتنۃ الخوارج کے جنگجو بھی شامل تھے۔ انہیں عناصر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اس افسوسناک جنگ میں پاک فوج کے دو درجن کے لگ بھگ جوان شہید ہوئے۔ پاک فوج کو اس وقت خیبر پختون خوا میں تحریک طالبان پاکستان کے شرپسند جنگجوؤں کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ فوج نے ان عناصر کو فتنۃ الخوارج کا نام دیا ہے۔ ان کے حملوں میں متعدد فوجی افسر اور جوان شہید ہوچکے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے افغانستان کی طرف سے حملوں میں انہی عناصر کی شمولیت کا ذکر بھی کیا ہے۔ پاکستان کے شہریوں کے لیے کسی دوسرے ملک سے لڑائی کی حالت میں پاک فوج کی معلومات پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یا پھر اگر کوئی ٹھوس غیر جانبدار عناصر ان معلومات کی تردید کریں تو اس بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے۔ کابل حکومت نے پاک فوج کے اس مؤقف سے انکار نہیں کیا ہے۔ یہ رویہ ٹی ٹی پی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں طالبان حکومت کی مسلمہ پالیسی کا حصہ ہے۔
ایسے میں مولانا فضل الرحمان نے ثالثی کی پیش کش تو کی ہے لیکن وہ طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان دشمن دہشت گرد گروہ کی سرپرستی کرنے کا ذکر کرکے اس سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کرسکے۔ بلکہ انہوں نے پاکستانی میڈیا اور حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ افغانستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جائے۔ مولانا کو بتانا چاہئے کہ وہ کن عناصر کے بارے میں درگزر اور کس حکومت کے بارے میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنے کی وکالت کررہے ہیں۔ پاکستان کبھی بھی افغانستان سے تعلقات خراب کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن پہلے اتحادی فوجوں کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومتوں کے ادوار میں انڈیا کو افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری کا موقع ملتا رہا۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ یہ سلسلہ بند ہوجائے گا اور طالبان سال ہا سال تک پاکستانی فوج کی امداد کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کم از کم تحریک طالبان پاکستان کو عقل کے ناخن لینے کا مشور ہ دیں گے۔
تاہم تمام امیدوں اور قیاس آرائیوں کے برعکس طالبان نے اقتدار میں آتے ہی پہلے تو جیلوں کے دروازے کھولے۔ رہا ہونے والے قیدیوں میں بڑی تعداد ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی بھی تھی۔ انہوں نے خود کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف منظم کرنا شروع کردیا اور کابل حکومت کے تعاون سے انہیں افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہوگئی ۔ ان ہتھیاروں کو پاکستانی فوج پر حملوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ یہ سلسلہ گزشتہ 4 سال سے جاری ہے حالانکہ پاکستان نے متعدد سفارتی ذرائع سے اس بارے میں معاملہ طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن افغان طالبان کی اندرونی لڑائی کی وجہ سے یہ معاملہ حل ہونے کی بجائے، اب یہ صورت ہوگئی کہ طالبان کی فوج نے پاکستان پر حملہ کے لیے بھی ان عناصر کو استعمال کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو ضرور افغان لیڈروں سے بات کرکے بیچ بچاؤ کرانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستانی شہری اور ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے طور پر انہیں افغان حکومت کے پاکستان دشمن رویہ کو بھی ضرور تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر کابل حکومت پاکستان کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ معاملات طے کرنے میں دلچسپی لیتی تو ایسے عناصر کو مسلسل افغان سرزمین سے سرگرم ہونے کی اجازت نہ دی جاتی جو روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مدمقابل ہوتے ہیں۔ اور اب ایک باقاعدہ جنگی صورت حال میں حملہ آور فورسز کا حصہ بن کر پاکستانی فوج کا مقابلہ کررہے تھے۔
حجت کے طور پر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان والے درحقیقت پاکستانی شہری ہیں اور ملک میں اپنی صوابدید کے مطابق بہتری کی جد و جہد کا حصہ بنے ہوئے ہیں تو بھی جب یہ جنگجو عناصر پاکستان پر حملہ آور فوج کا حصہ بن کر ملکی سرحدوں پر جنگ میں حصہ لیں گے تو کوئی پاکستانی ان کی حب الوطنی یا نیک نیتی کی تصدیق نہیں کرے گا۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی دو ٹوک الفاظ میں ٹی ٹی پی کی جنگ جوئی اور طالبان حکومت کی جارحانہ حکمت عملی سے فاصلہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ اسی صورت میں پاکستان ، انہیں ایک غیر جانبدار ثالث مان سکتا ہے۔
مولانا نے جوش خطابت میں افغان حکومت کے ساتھ نرمی کی تلقین ہی نہیں کی بلکہ طالبان کی محبت میں مقبوضہ کشمیر کے سوال پر پاکستان کی مسلمہ سرکاری پوزیشن کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دورہ بھارت کے دوران بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے ساتھ جس مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں ، اس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سہو پر پاکستانی حکومت نے افغانستان سے احتجاج بھی کیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ افغان وزیر خارجہ اور سفارت کار بھارت کی اس سفارتی چالاکی کو نوٹ نہ کرسکے ہوں۔ لیکن اب مولانا فضل الرحمان کا ارشاد ہے کہ ’افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے کشمیر پر بیان پر واویلا کرنے کی بجائے کشمیر پر اپنے کردار کو بھی دیکھنا چاہئے۔کشمیر پر پاکستان نے کتنی پالیسیاں بدلی ہیں، وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔کیا پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے مطابق کشمیر کا حل چاہتا ہے اور اس کے لئے کیا پیش رفت کی ہے‘۔
بہتر ہوتا کہ مونالا فضل الرحمان کشمیر کے سوال پر پاکستان کی تبدیل شدہ پالیسیوں کی تفصیل بھی بتادیتے ۔ موجودہ حالت میں تو ان کا بیان ایک بے بنیاد حجت معلوم ہوتا ہے جس میں افغانستان کی فاش غلطی کی نشاندہی کرنے کی بجائے پاکستان کی سرزنش کی گئی ہے۔ جہاں تک عام تفہیم کا تعلق ہے پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کا تصفیہ چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تو اس کی ذمہ داری پاکستانی حکومتوں کے علاوہ متعدد دیگر عوامل پر عائد ہوتی ہے۔ خود مولانا فضل الرحمان بھی اگست 2013سے پانچ سال کے لئے کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے چئیرمین رہ چکے ہیں۔ وہ یہی بتا دیتے کہ اس حیثیت میں انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا؟
مولانا کی ا س سیاسی مجبوری کو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے پشتون حلقہ اثر کو مطمئن کرنے اور تحریک انصاف کی طرف سے افغانستان کی حمایت میں چلائی جانے والی سیاسی مہم جوئی کے مقابلے میں بہتر پوزیشن اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم پھر انہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالث بننے کا خواب دیکھنا بند کردینا چاہئے۔ ویسے بھی مولانا فضل الرحمان کو افغان طالبان میں اتنا ثر و رسوخ حاصل نہیں ہے، جس کا وہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ورنہ گزشتہ سال کے دوران ان کا دورہ افغانستان ناکام نہ ہوتا۔ اس وقت بھی وہ پاکستان میں دہشت گردی ختم کرانے کے لیے کابل حکومت کے لیڈروں کو قائل کرنے گئے تھے لیکن کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرے تھے۔
پاکستانی فوج اور حکومت کے طالبان حکومت کے ساتھ روابط موجود ہیں اور کئی دہائیوں کے تعلقات کی بنیاد پر وہ جب چاہیں کسی بحران پر بات کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ایسے میں اپنی سیاست چمکانے کے لیے پاکستان کی سفارتی و سکیورٹی پالیسیوں کو تماشہ نہ بنائیں تو سب کے لیے سود مند ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

